محرم آپریشن جنرل حسن نامی کی زبانی

دویرج اور حمرین میں معرکہ

ترتیب: امیر محمد عباس نژاد
ترجمہ: سید محمد روح اللہ

2016-9-8


بریگیڈیئر جنرل محمد حسن نامی ایران عراق جنگ (مسلط کردہ جنگ) کے کمانڈروں میں سے ایک ہیں اور حال حاضر میں دفاع مقدس کے  ادارہ برای تحفظ آثار و اقدار کے  نائب سربراہ ہیں۔ آپ نے سن ۱۹۵۳ ء میں شہر جاسب جو مرکزی صوبہ میں واقع ہے، میں آنکھ کھولی۔ جنگ میں محرم آپریشن  میں  ایک بٹالین حمزہ ۲۱  کے کمانڈر تھے۔

مندرجہ ذیل گفتگو، تاریخ شفاہی کی سائٹ نے بریگیڈیئر جنرل نامی سے عملیات محرم (نومبر ۱۹۸۲)کے موضوع پر کی۔

 

سوال: آپریشن محرم میں آپ کس فوجی عہدہ  پرفائز تھے؟

نامی:  لفٹیننٹ کے ساتھ کمانڈر کے عنوان سے تھا۔ ہماری بٹالین آپریشن  سے ایک ماہ قبل  شیخ قوم نامی  ایک علاقے میں  تعینات کی گئی۔

 

سوال: عملیات محرم کی ضروت کیوں پیش آئی؟

نامی: ۱۹۸۳ ء میں سال کے ابتدائی حصہ میں ہونے والے کامیاب آپریشنز اور   رمضان آپریشن میں ایرانی فوج کی عراقی سرحد میں داخل ہونے میں ناکامی کے بعد یہ ضروری  تھا کہ فرصت کا فائد اٹھایا جائے۔ کیونکہ  جب   دشمن نے  ایرانی فوج کی عظیم قدرت کا احساس کیا اور تین چوتھائی علاقے اپنے ہاتھوں سے جاتے دیکھے تو عقب نشینی  اختیار کی اور  شرائط و حالات کے بہتر ہونے  اور مناسب موقع کی تلاش میں ٹریننگ کیمپس کا رخ کرلیا۔
ایرانی فوج کا عراقی سرحدوں پر قبضہ کچھ اہداف کی خاطر تھا ۔ ایک  عراقی آرٹلری  یعنی توپوں اور ٹینکرز  کو ایرانی سرحد اور آبادیوں سے دور کرنا تھا  اور دوسرا مناسب  حالات کا حصول تھا کہ جس کے بعد دشمن سے کہ جس نے ہماری زمینوں پر تجاوز کیا تھا سبق سکھایا جاسکے اور عالمی سطح پر ہونے والے مزاکرات میں اپنی سیاسی قدرت کو محکم و مضبوط کیا جاسکے۔

یہ عملیات جنوب کے شمالی حصہ میں  کہ جس میں حمرین، زبیدات اور دویریج  دریا کا مغربی حصہ  شامل ہیں، یا زینب س کوڈ کے ساتھ انجام پائیں تاکہ عراق کو ان علاقوں سے منہ توڑ جواب دیا جائے۔

 

سوال:  کون کون سے فوجی یونٹ اس عملیات میں شامل ہوئے؟

نامی:  حمزہ ۲۱ بریگیڈ کے ساتھ علی بن ابی طالب  ۱۷بریگیڈ شامل ہوئی۔

 

سوال: آپ کی کیا ذمہ داری تھی ؟

نامی: میں کمانڈنگ کے علاوہ ۲ بٹالین کے مجموعے کا بھی مرکزی ذمہ دار تھا۔  موسی ابن جعفر علیہ السلام بٹالین اور بٹالین ۱۴۰۔

 

سوال:  آپ  کا دستہ کس چیز پر مامور تھا؟

نامی: طے یہ تھا کہ پل دویرج کی دائیں طرف سے بڑھیں گے تاکہ دشمن کی فوج جو دریا کے   مغربی  مضافات میں تھی ان پر حملہ کریں۔ آپریشن کے شروع ہونے سے پہلے عراقیوں نے ایک یونٹ کو پل دویرج کے نزدیک ایک آباد علاقے میں  تعینات کردیا  تھا، ہمارا ایک یونٹ ان کو تباہ کرنے پر مامور تھا۔

 

سوال: پیش قدمی کیسے ہوئی ؟

نامی:  حملے کی ابتدا ہی میں عراقیوں نے پل تباہ کردیا۔

 

سوال: پھر دریا کو پار کرنے کے لئے  کیا کیا گیا؟

نامی: ایک ٹیم کو کسی مناسب جگہ کی تلاش کے لئے روانہ کیا تاکہ فوجی دستے دریا عبور کرسکیں۔

 

سوال: کتنے فوجی تھے ، دستوں میں ؟

نامی: تقریبا ۱۸۰۰

 

سوال: دریا عبور کرنے کے لئے کیا مقدمات فراہم کئے ؟

نامی: دریا میں جانے سے پہلے میں نے حکم دیا کہ ہاتھوں کی ایک مضبوط زنجیر بنالیں۔ کئی بات چھوٹے قد والے جوانوں کے سر سے پانی اوپر ہوجاتا تھا لیکن اس ترکیب سے کوئی مشکل نہیں ہوئی اور سب نے دریا  پار کیا۔

 

سوال: دشمن کا کیا رد عمل تھا؟

نامی:دریا پار کرتے ہی دشمن کی طرف سے سخت حملہ ہوا مگر ہماری استقامت  کے نتیجے میں دشمن کو شکست ہوئی۔میں نے  بغیر کسی وقفے کے ۲۰۰ میٹر کے فاصلے سے دائیں جانب سے حرکت کا حکم دیا اور اسکے بعد مین ہائی وے پر ہمارا دشمن سے آمنا سامنا ہوا لیکن اسکو ہم نے شکست دی، انکو عقب نشینی پر مجبور کیا اور انکے  کئی افراد اسیر کئے۔

 

سوال: اسکے بعد کا آپریشن کیسا رہا ؟

نامی: اس کے بعد ۵۰۰ میٹر تک  بائیں جانب اسی سڑک پر حرکت کی۔ اسی دوران ہمارے ایک کمانڈر نے اطلاع دی کہ ان کا ایک کیپٹن اسیر ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ اسے فورا لایا جائے۔ اسے لایا گیا تو میں نے پنے ایک سپاہی کہ جسے عربی آتی تھی  اس سے کہا کہ اس سے  پوچھے  کس یونٹ سے ہے۔ اس نے جواب دیا کہ کمانڈر ہے اور اس رات اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے آیا تھا  جو بٹالین کاوائس ہیڈ ہے۔ بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا، سمجھ رہا  تھا کہ ہم اسے مار دیں گے۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر ہماری مدد کروگے تو یا صبح تک پیچھے بھیج دیں گے یا آزاد کردیں گے تاکہ عراق پلٹ جائے۔ اس نے ہماری  بات مانی اور عراقی فوجوں کی کمین گاہوں کی  نشاندہی کی۔

 

سوال: ان نئی معلومات سےکیا حاصل ہوا ؟

نامی: فورسز کو ۴ قسموں میں تقسیم کردیا گیا اور ۳ مختلف راستوں سے گولاباری کو روکنے کے لئے اقدام کیا۔   اس کے بعد ۱۲۰ افراد کے ساتھ انکی کمین گاہ  کی طرف حرکت شروع کی۔ جب اس کے نزدیک پہنچے تو ۴۰ منٹ کے مقابلہ کے بعد اسے بھی کنٹرول میں لے لیا گیا۔ اس مقابلہ میں کئی عراقی فوجی مارے گئے اور کئی کمانڈر اور افسر فرار کر گئے۔

   

سوال: دشمن کے کیمپ پر کس وقت پہنچے؟

نامی: صبح نماز کے قریب۔  ہمارے ایک  سپاہی علی پور جو شیراز  کا تھا، اس نے بلند آواز  میں اذان دی،  دشمن کی گولاباری ہوتی رہی اور سب نے اس ہی حالت میں نماز پڑھی۔

 

سوال: آپریشن کہاں تک  پہنچا ؟

نامی: تقریبا ڈیڑٖھ گھنٹے  پیدل مارچ اور بغیر کسی ٹکراو کے  حمرین کی اونچائیوں  کو پار کیا اور وہیں ایک جگہ پڑاو  ڈالا اور اسی طرح ایک دفاعی حالت اختیار کرلی گئی۔

 

سوال: باقی فورسز کے ساتھ بھی رابطے میں تھے؟

نامی: جتنی بھی کوشش کی وائرلیس سے  رابطہ برقرار نہیں ہو سکا۔ وائرلیس والے سپاہی سےکہا کہ کسی اونچائی پر جو تقریبا ۵۰۰ میٹر پیچھے واقع ہو وہاں جا کر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرے۔ جب وہ ایک اونچائی پر پہنچا تو دیکھا کے عراقیوں نے ہمارے سیدھے ہاتھ کی طرف حمرین کی پہاڑیوں کے پیچھے جگہ سنبھالی ہوئی ہے، تو اس نے بغیر کسی وقفے کے ہمیں آکر اطلاع دی۔

 

سوال:یعنی آپ  کافی آگے آچکے تھے ؟

نامی: جی ہاں۔ اس سے پتہ چلا کے عراقیوں سے آگے نکلے پڑے اور آپریشن  کی طے شدہ حد سے تجاوز کر گئ، پھر  ہم نے پیچھے کی جانب جانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ حمرین کی پہاڑیوں کے پیچھے جا پہنچے۔

 

سوال:  اس کام  کی وجہ  عراقیوں کو آپ لوگوں کے موجود ہونے کا پتہ نہ لگا ؟

نامی: اس پہلے  ہی  ہماری موجودگی کی  عراقیوں کو اطلاع مل گئی،  جس کے نتیجے میں انھوں نے شدید گولاباری شروع کردی۔ عراقی فورسز نے کوشش کی کہ ہم  سے قریب ہوں اور  ہمارا محاصرہ کریں۔

  

سوال: پھر آپ نے کیا تدبیر اپنائی؟

نامی: فورسز کو حمرین کی اونچائیوں کی پشت پر مقرر کیا اور گولہ باری کا مقابلہ کرتے ہوتے کوشش کی کہ دشمن کو قریب آنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ ہماری فورسزالگ الگ گروہوں کی صورت میں   شیاری آبرفتی کے راستے  حمرین کی اونچائیوں  پر منتقل ہوجائیں ۔ کیونکہ وہاں   کافی مناسب جگہ تھی۔

 

سوال:  کتنی دیر جھڑپیں جارہی رہیں ؟

ایک گھنٹہ شدید گولہ باری چلتی رہی۔

 

سوال: کافی نقصان ہوا  ہوگا؟

نامی: اس عقب نشینی میں ۳۷ شہید دئے۔

 

سوال:  کیا حمرین کی اونچائیوں کے پیچھےجگہ بناسکے؟

نامی: کافی زحمت کے بعد ہم  نے، اس سے پہلے کہ دشمن ہمارا محاصرہ اور اسیر کرے، وہاں مناسب جگہ بنا لی۔


سوال: باقی آپریشن کیسا رہا ؟

نامی: وہاں  مناسب جگہ کے حصول کے بعد میں نے یہ ذمہ داری اپنے اسسٹنٹ جناب پورصدر صاحب جو پہلی برگیڈ کہ کمانڈر تھے، علی ابن ابی طالب برگیڈ کے کمانڈر کرنل مہدی زین الدین  کہ وہ بھی وہیں تھے، انکے سپرد کیں اور وہاں سے روانہ ہوا۔  اپنے حالات کی رپورٹ دی، جس کے بعد انہوں نے مجھ سے چاہا کہ برگیڈ کے کچھ افسروں کو راستے کے بارے میں آگاہی دینے کے لئے بھیجیں تاکہ اور یونٹس کو وہاں بھیجا جائے۔

  

سوال: اپنے ساتھ کس کو لے کر گئے؟

نامی: کیپٹن سقفی، کیپٹن کرباسی زادہ اور کیپٹن نوردی (جو حمرین کی اونچائیوں پر شھید ہوئے) ان سب کو مورد نظر علاقہ میں لے جایا گیا۔

 

سوال: کس جانب  سے آگے بڑھے ؟

نامی: جب ہم حمرین کی اونچائیوں تک پہنچے تو شروع میں کیپٹن نوردی  اور میں ایک اونچائی کے سامنے سے کہ جہاں سے عراقیوں کی مانیٹرنگ ہو رہی تھی، اس کی مخالف سمت میں اوپر گئے۔ جیسے ہی اوپر پہنچے فورا مورچہ کے اندر گھس گئے اور دوربین سے علاقہ پر ایک نظر دوڑائی۔ اس وقت  کیپٹن نوردی میرے پیچھے بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے کہا " میں صبح جب یہاں موجود تھا تو دشمن کی قدرت ان ٹینکوں کی صورت میں موجود نہ تھی"

مورچہ تنگ اور چھوٹا تھا۔ دو لوگ مشکل سے کھڑے ہو سکتے تھے۔ کیپٹن نوردی  نے دور بین مانگی ، میں بیٹھ گیا اور دوربین انہیں دی، جب تک وہ کھڑے ہوئے، اسنائپر سے  ان کے دل کے نیچے نشانہ لیا گیا۔ میں نے کیپٹن نوردی کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور نیچے آگیا۔ کیپٹن سقفی اور ڈرائور جیپ میں بیٹھے تھے۔ فوری طور پر  ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر انھیں آپریشن  تھیٹر لے گئے مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شھادت نوش کر گئے۔

 

سوال: عراقی فورسز نے آپ کے خلاف اسکے رد عمل میں کیا اقدام کیا؟

نامی: محرم آپریشن  کے دوسرے مرحلے میں عراقی فورسز نے جوابی کاروائی کی  لیکن ہماری  ثابت قدمی نے ان کے حملوں کو ناکام بنا ڈالا۔ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔

  

سوال: حصول معلومات اور علاقے کی شناسائی کے لءے دوبارہ گئے ؟

نامی: جی، اس معرکے کے بعد پھر سے دوسرے مرحلے کی تیاری کے لئے نکل پڑے۔ اس کام کے ایک حصے کو صبح کے وقت اور ایک حصے کہ رات میں انجام دیا۔


سوال: آپریشن کا دوسرا مرحلہ کیسا گزرا؟

نامی: آپریشن کے پہلے مرحلے کے جو اہداف تھے انھیں حاصل کرنے کے بعد یونٹس کو حمرین کی اونچائیوں کی پوزیشن دے دی گئی۔ دشمن کی دو برگیڈوں میں دو بٹالینوں کے پاس ٹی ۷۲ ٹینک تھے جن کو انہوں نے حمرین کے سامنےکھڑا  کیا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے ہم اپنے ساتھ ٹینک کی تباہی کا اسلحہ مثلا آر پی جی اور راکٹ  وغیرہ لیکر گئے تھے تاکہ پہلے مرحلے ہی میں ٹینکوں کو تباہ کردیا جائے۔ جب رات کا پہلا حصہ گزر گیا تو دشمن کی صف میں وحشت ڈالنے کے لئے پرانے بیکارپہیوں کا استعمال کیا۔ ہر دستہ میں چار ٹائر یپٹرول ڈال کر دے دئے، تاکہ جب آر پی جی سے حملہ کریں تو ان پہیوں کو دشمن کے علاقے میں پھینک دیں اور وہ یہ سمجھے کہ ان کے کافی ٹینک حملے میں تباہ ہو گئے اور اس طرح ان کے حوصلے پست ہو جائیں اور وہ فرار اختیار کرلیں۔ اسی طرح ہماری فورسز ان حالات کو دیکھ کر سمجھیں کہ دشمن کے کافی ٹینک تباہ ہو گئے تو تیزی سے آگے حرکت کرنے لگے۔


سوال:  آپریشن کب شروع ہوا؟

نامی: آپریشن رات کے ۱۲ بجے شروع ہوا اور ہم صبح ۴:۴۵ تک زبیدات نامی علاقے  میں داخل ہو سکے۔


سوال:  کیا وہاں کے شہری موجود تھے؟

نامی: جب وہاں داخل ہوئے تو ہلکی سی روشنی پھیل چکی تھی۔ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ گذشتہ شب شہریوں نے علاقہ ترک کردیا تھا۔

 

سوال: وہاں عراقیوں نے کیا آپ کا مقابلہ کیا؟

نامی: فضا روشن ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ سیدھے ہاتھ کی جانب  ایک تیل کی کان کے سامن دشمن جگہ سنبھالے ہوئے تھا پس اپنی فورس کے ساتھ زبیدات شرہانی کے راستے آگے بڑھےوہاں  ہمارے اور ان کے  درمیان مقابلہ ہوا جس کے نتیجے میں ہم ان کے کچھ فوجی  اسیر کر پائے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ہم نے زبیدات شرہانی کے راستے کے ساتھ جو ٹیلے تھے وہاں جگہ سنبھال لی۔


سوال: آپ کے پاس کتنی تعداد تھی؟ کلین۔اپ کے لئے کیا اقدام کیا؟

نامی: تقریبا ۱۴۰ افراد کی فورس موجود تھی، اور کافی تو اس آپریشن میں شہید اورکئی  زخمی ہو گئےتھے ۔ پس تقریبا ۷۰ کی تعداد کو دشمن کا صفایا کی خاطر چاروں جانب روانہ کیا۔ زبیدات کی شمالی حصہ میں جہاں دشمن کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کے نتیجے میں جو اسیر ہاتھ آئے تھے ان میں سے ۷ فوجی  ،T۷۲ ٹینک کے ماہر تھے۔ اپنے ۱۲ آدمیوں کو ان چار کے ساتھ ہیڈ کوارٹر کے پیچھے بھیجا تاکہ ۴ ٹینک لے کر آئیں۔ باقی ۳ کو اپنے پاس روکے رکھا تاکہ جب وہ ۴ ٹینک لے کر آ جائیں تو انھیں بھیجا جائے تاکہ ۷ ٹینک جو شہر کی پچھلی جانب ہیں،وہاں سے  لیکر آئیں۔ 


سوال: بیک سپورٹ کے لئے کیا اقدام کیا؟

نامی: ہم ۶۰ افراد وہاں رک ےئی اور مورچا بنانے میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران دیکھا کہ ٹینکوں کا ایک یونٹ ہماری طرف آ رہا ہے۔ پہلا تو ہم یہ سمجھے کہ یہ وہی ٹینک ہیں جنہیں لینے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ تھوڑی دیر تو ہم ان کو نظر انداز کرکے اپنے کاموں کو انجام دینے میں لگے ہوئے تھے  ۔ اس ہی حال میں ہمارا ایک سپاہی کہ جس کا نام کرمی تھا اور ۵۰ میٹر کی اونچائی پر دائیں جانب نگہبانی پر مامور تھا اچانک  آیا اور کہاکہ "عراقی ٹینک ہیں یہ"اس وقت بغیر کسی مہلت کے ہم نے اپنے مورچے سنبھال لئے۔

 

سوال: ان کے پاس کتنے ٹینک تھے؟

نامی:  ان کے پاس ۱۲ ٹینک تھے اور ان کے اوپر بھی کئی ایک عراقی سپاہی موجود تھے۔

 

سوال: یہ دستہ کہاں سے آیا تھا؟

نامی: یہ چم سری کہ علاقے سے فرار ہو کر واپس عراق کی جانب جا رہا تھا کہ راستے میں ملے جانے والے کچھ پیادہ فوجیوں کو بھی سوار کر لیا تھا۔


سوال: آپ نے کیا اقدامات کئے ؟

نامی: جب ٹینک نزدیک پہنچے تو ہمارا مسعود معینی نامی ایک فوجی ان کی طرف بڑھا اور ٹینک کے سامنے جا کھڑا ہو اور زور سے کہا کہ " رک جاو" ٹینک رک گیاا اور اس کے پیچھے قطار میں سب ٹینک رک گئے۔ خوف و ہراس ان کی شکلوں سے عیاں تھا، ان میں سے کچھ کے پاس کلاشنکوف تھی اور کچھ خالی ہاتھ تھے۔

 

سوال: آپ کتنے لوگ تھے؟

نامی : ہم ان کے مقابلے میں کافی کم تھے۔ ہماری تعداد ۶۵ سے زیادہ نہ تھی۔ باقی افراد علاقے کو کلیئرکرنے  گئے ہوئے تھے اور باقی قیدیوں کو جمع کرنے درحالیکہ تقریبا ۸۰، ۹۰ لوگ طرف مقابل  تھے اسی لئے ہماری کوشش تھی کہ کسی بھی مشکل سے پہلے انہیں گرفتار کر لیا جائے۔ 


سوال: ان کے ساتھ کسی قسم کا ٹکراو بھی ہوا ؟

نامی : اس قطار کے بیچ میں ایک ٹینک سڑک کے سیدھے ہاتھ کی طرف حرکت کرنے لگا تاکہ فرار کر سکے اور اس کے پیچھے بلافاصلہ دو ٹینک اور نکل پڑے۔ میں نے فائر کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں ایک سخت مقابلہ ہوا۔ ہمارے سپاہی  ٹیلوں پہ کھڑے دشمن کی طرف فائرنگ کررہے تھے کہ جس کے نتیجے میں ان کے کافی فوجیوں کو نشانہ بنایا۔  راکٹ لانچروں اور آر پی جی کے ذریعےے ان کے ۴ ٹینک تباہ کر دئیے۔ اسی طرح ان کے ۳ ٹینک فرار کر گئے اور ایک گاڑی جو اسلحہ بردار تھی کہ جس میں مارٹر اورگن ۱۰۶- اینٹی ٹینک اسلحہ- تھا ہم نے اس کا تعقب کیا۔ ان میں سے ایک ٹینک جو کہ بہت تیزی میں تھا تیل کی کان سے آنے والے پائپوں میں پھنس گیا۔ ایک ٹینک پل پہ سے نیچے جا گرا اور اس پہ سوار سب  فوجہ شدید زخمی ہو گئے، اسکے بعد انہیں پیچھے  کی جانب منتقل کر دیا گیا۔ ایک ٹینک جو زبیدات کی طرف فرار کر رہا تھا گن ۱۰۶   کا نشانہ بنا اور تباہ ہو گیا۔ ایک عجیب منظر تھا۔ ان کے فوجی ، ٹینکوں کے اوپر اور سڑک پر گرے پڑے ہوئے تھے۔ 


سوال: آپ کے کتنے فوجی شہید ہوئے؟

نامی : اس مقابلے میں ہمارے ۱۶ ساتھی شہید ہوئے۔


سوال: ان کے نام آپ کو یاد ہیں؟

نامی : اس آپریشن میں کیپٹن سید طہ ضرابی اور لیفٹینٹ علی رضا بیات، کیپٹن محمدی، کیپٹن بہزاد بھنوش اور کیپٹن حجت اللہ نوردی لشکر ۲۱ حمزہ کی کمانڈ میں سے شہید ہوئے۔

 

سوال:  قیدیوں کو بھی پیچھے منتقل کردیا تھا؟

نامی : اس ٹینک کے دستے سے مقابلے میں جو نئے قیدی اسیر ہوئے تھےانہیں پیچھے منتقل کردیا گیاتھا، وہ اسیر جو  T۷۲  ٹانکوں کے ماہر تھے انہیں اسی جھڑپوں کے دوران پشت سے ہاتھ باند کر کنارے کردیا تھا۔ ان میں سے ایک بغیر گولی لگے ہی مردہ پایا گیا۔ ماحول بہت وحشت ناک تھا تو ساتھیوں نے کہا کہ یہ خوف سے مر گیا ہے۔

 

سوال:  کیا آپ وہیں موجود رہے؟

نامی: جی ہاں،  اسی علاقے میں رہے اوراپنی پوزیشن کو مضبوط کیا تاکہ بعد کے آپریشن کے لئے تیاری کی جائے۔ تیل کی کان سے زبیدات  شہر کے آخر تک کا حصہ میرے یونٹ کی کمانڈ میں تھا۔

 

سوال: کیاپھر فائرنگ کا تبادلہ ہوا؟

نامی : ان چند دنوں میں دشمن نے دو دفعہ حملہ کیا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔

 

سوال: کوئی اورخاص یاد، واقعہ جو آپ بتانا چاہیں؟

نامی: زبیدات کے قصبے میں ان کے کپڑے  تازہ دھلے ہوئے تھے جو  ابھی تک خشک نہ ہوسکے تھے اور انکو گمان بھی نہیں تھا کہ ہم اس قدر تیزی سے وہاں پہنچ جائیں گے۔ اس گاوں کو کلیئر کرنے نکلے۔ ایک گھر کے کمرے میں صدام کی تصویر آویزاں تھی اور وہیں پر ایک کتا گولی کھا کر مرا ہو پڑا تھا۔ اس تصویر کو ساتھیوں نے نکالا اور کتے کے بغل میں ڈال دے اور اس کے ساتھ ایک یادگار تصویر لی۔ وہاں کی کلیئرنس  کے بعد ہم میں وہیں پڑاو ڈال دیا۔

 

سوال: آپ کی یونٹ کے لئے سپورٹ کیسے فراہم ہوئی؟

نامی : جب ہم نے ایک دفاعی پوزیشن سنبھال لی اور علاقہ میں امن قائم ہو گیا تو سپورٹ کے لئے پہلے علاقے اور اطراف کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ اس قصبے سے آگے ایک کنواں ملا کہ جس میں سے گرم پانی جاری تھا۔ پائپ کے زریعہ اسے یونٹ تک منتقل کیا۔ چونکہ پانی گرم بھی تھا تو جوانوں نے اس سے غسل بھی لے لیا۔

 

سوال: پائپ کہاں سے فراہم کئے؟

نامی : پائپوں کو وہیں شہر سے حاصل کیا۔ کوشش کی کے پائپوں کو دیواروں کے پیچھے سے منتقل کردیا جائے۔ اس سے کافی مدد ملی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فورسز کو حمرین کی اونچائیوں کو پار کر کے دوسرے علاقےسے پانی لانا پڑتا۔ ابھی تک کوئی راستہ تیار نہ ہوا تھا اور راستہ عبور کرنا بہت مشکل تھا۔ ہم اس  کام سے کافی مشکلات حل کر سکے۔



 
صارفین کی تعداد: 3558


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔