تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – چھبیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-6-20


 ہماری آوازیں آہستہ آہستہ زبانی جھگڑے کی شکل اختیار کر گئیں، لیکن کیپٹن "صباح" نے فوراً مداخلت کی اور معاملے کو ختم کردیا۔ کیپٹن نے مجھے خندق سے باہر نکال دیا اور کہا: "بہتر ہے کہ تم کسی آپریشن کو انجام دینے کے لیے یونٹ کو چھوڑ کر چلے جاؤ اور ان لوگوں سے دوری اختیار کرو۔  وہ لوگ صدام اور اس کی جماعت کی پوجا کرتے ہیں۔  اور تم بھی خاموش نہیں رہ سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ تمہیں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔"

اس کی رائے منطقی تھی۔ اس دن کے بعد سے میں نے متعدد آپریشنز میں حصہ لیا۔  بہتر ہوگا اگر میں کہوں کہ میں نے اپنا زیادہ تر وقت جلاوطنی میں گزارا۔ انھوں نے ہر طریقے سے مجھ پر دباؤ ڈالا لیکن میں نے ہار نہیں مانی۔ 

جب میں چھٹی لینے کے لیے کیپٹن "احسان حیدری" کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے کہا: " تم مدد کیوں نہیں مانگتے؟"

 میں نے کہا: " مجھے مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"

 اس نے کہا: "تمہارے علاوہ سب مدد مانگتے ہیں۔"

 میں نے کہا: " میں ہرگز تمہارے آگے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا۔ اگر میں چھٹی کا حقدار ہوں تو تمہیں دینی پڑے گی۔"

 اس کا مقصد یہ تھا کہ میں اس کے آگے بھیک مانگوں اور اس کے آگے سر جھکاؤں۔

ان دنوں میرا اکیلا دوست اور خندق کا ساتھی ڈاکٹر "یعقوب" تھا جو حال ہی میں ہمارے ساتھ شامل ہوا تھا۔ وہ ان مظلوموں کی ایک جیتی جاگتی مثال تھا جنہوں نے بعثیوں کے تسلط میں بہت زیادہ پریشانی اور مشکلات برداشت کی تھیں۔ ڈاکٹر "یعقوب" گائنی کالوجسٹ تھا۔  اس نے 13 سال اٹلی میں گزارے تھے۔ اس نے ٹریسٹ یونیورسٹی میں پڑھایا تھا اور اٹلی کی ایک لیڈی ڈاکٹر سے شادی کی تھی۔ اور ان کی ایک بیٹی تھی۔ ڈاکٹر یعقوب کی اٹلی میں مقیم کچھ بعثی طلباء سے ملاقات ہوئی اور ان لوگوں نے کچھ مقدمہ چینی کے ساتھ اسے عراق واپس آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ انھوں نے اس کی عراقی سفیر سے ملاقات کا زمینہ بھی فراہم کیا  اور سفارت نے  اس سے وعدہ کیا کہ وہ بصره یونیورسٹی میں تدریس کرے گا اور اسے مراعات بھی دی جائیں گی۔ ڈاکٹر یعقوب نے ان دھوکے بازوں کے وعدوں پر یقین کرلیا تھا اور سروس کرنے اور اپنے ہم وطنوں کی خدمت کرنے کے لیے عراق واپس آ گیا تھا۔ جیسے ہی وہ اس جنت میں داخل ہوا جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا اسے فوج میں سروس کے لیے بھیجا گیا چونکہ اس نے پہلے فوج میں سروس نہیں کی تھی اسی لئے اسے سپاہی ڈاکٹر کی پوسٹ کے لئے بھیجا گیا لیکن چونکہ اس کی نظر کمزور تھی اور اس نے ایک غیر ملکی خاتون سے شادی کی تھی اسے مسترد کر دیا گیا۔  اس کا مطلب یہ تھا کہ نہ تو وہ ایکٹیو ملٹری یونٹس میں سروس کر سکتا ہے اور نہ ہی محاذ پر جا سکتا ہے۔ جیسا کہ وہ مجھے بتاتا تھا شروع میں اسے ناصریہ ملٹری  ہسپتال میں جنرل فزیشن کی پوسٹ پر تعینات کیا گیا۔ وہ بتاتا تھا کہ ہسپتال کے اہلکار اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتے تھے۔  جنگ شروع ہونے کے چھ مہینے بعد اس کا قانون کے برخلاف  ہماری یونٹ میں تبادلہ کر دیا گیا،  لیکن ڈاکٹر "صباح الربیعی" کی دخالت  نے عراقی فوج کے ضوابط پر قابو پا لیا اور اس کا اس کی پچھلی جگہ یعنی ناصریہ ہسپتال تبادلہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر "صباح" کے پانچویں ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل "صلاح قاضی" کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔  ڈاکٹر یعقوب کو ماہانہ ساٹھ دینار تنخواہ ملتی تھی۔  اسی وجہ سے وہ اپنی بیوی اور بچے  کو اٹلی سے نہیں لا سکتا تھا۔ وہ ان کے ساتھ خط و کتابت پر اکتفا کرتا تھا۔

اس شخص کی زندگی کی کہانی، بعثیوں کی لوگوں کی زندگیوں سے لاپرواہی کی منہ بولتی مثال ہے۔ آخر ایک گائنی کالوجسٹ محاذ کے اگلے مورچوں پر کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔   سب سے بری بات یہ تھی کہ دوسرے افسران اور سپاہی اس کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔  اس نے متعدد بار اپنی مشکلات کے بارے میں مجھ سے گفتگو کی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ غم و غصے کی شدت سے کمزور ہوتا جارہا تھا۔  ایک لمحے کیلئے بھی سگریٹ اس کے ہونٹوں سے دور نہیں ہوتی تھی۔  کبھی میں کوشش کرتا تھا کہ ہنسی مذاق کے ذریعے اس کے دکھوں کا مداوا کروں،  اور کبھی جو کچھ اس نے کیا تھا اس کی وجہ سے اس پر غصہ کرتا اور اس کی سرزنش کرتا تھا، چونکہ اس نے بعثیوں کے جھوٹے وعدوں سے دھوکہ کھایا تھا۔

عراقی قوم کی مصیبت کے اس صفحے کے مقابلے میں ایک دوسرا صفحہ بھی ہے جو عراق میں تعصب، امتیازی سلوک اور کرپشن کے تصور کی عکاسی کرتا ہے۔ 

ڈاکٹر "احمد مفتی" ایک امیر خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک ڈاکٹر تھا، اس کے والد ایک ریٹائرڈ ہائی رینک آفیسر تھے اور  اس کے سسر صدام کے ماموں (خیر اللہ طلفاح)  کے فیملی ڈاکٹر تھے۔  ڈاکٹر "احمد" بزدلی، زیادہ چھٹیاں لینے اور یونٹ کمانڈر کے ساتھ اپنے قریبی اور گہرے تعلقات کی وجہ سے مشہور ہو گیا تھا۔ اس کی زندگی میں بس دو ہی چیزیں تھیں کھانا اور سونا  اور اسے ہماری یونٹ کے آفیسرز کا عزت و احترام بھی حاصل تھا۔ اس نے ہمارے ساتھ چار مہینے گزارے  پھر اپنے سسر اور "خیر اللہ طلفاح" کی مدد سے اس نے فوج اور جنگ سے چھٹکارا پالیا۔  اسے نہ صرف فوج کی خدمت سے رہائی ملی بلکہ وہ اعلی تعلیم کے حصول کے لئے لندن روانہ ہوگیا۔ یہ بات درست ہے کہ صدام نے اطلاع ثانوی تک فوجیوں کی چھٹیوں کو روکنے کے لیے ایک  قانون جاری کیا تھا،  لیکن ڈاکٹر احمد اور اس جیسے لوگ اس قانون سے مستثنی تھے  جن کے صدام یا اس کے مددگاروں کے خاندان کے ساتھ تعلقات تھے۔  ورنہ کیسے ممکن تھا کہ ایک افسر جو ڈاکٹر بھی ہو فوجی خدمت  چھوڑ کر چلا جائے۔  یہ صدام کے ماموں طلفاح کا  ایک معجزہ تھا۔ 

ڈاکٹر احمد نے مارچ کے آخر میں ہمیں خیر باد کہا اور اپنے سول کپڑے پہن کر اپنے فوجی کپڑے ہمیں صدقہ میں دے دیئے۔  ایک ڈاکٹر محاذ کو چھوڑ کر بغداد جاتا ہے تاکہ وہاں سے یورپ روانہ ہو اور دوسرا یورپ سے بغداد آتا ہے تاکہ محاذ میں شامل ہو۔

اس خشک اور بے آب و گیاہ ریگستان میں اور ایسے لوگوں کے ساتھ جن کی حرکتیں اور رویے میرے لئے ناقابل برداشت تھے میں ایک تلخ اور بورنگ زندگی گزار رہا تھا۔  وہ لوگ دن رات صدام اور اس کے بدنام زمانہ قادسیہ کی تعریف کرتے رہتے تھے اور اپنی خندقوں میں عیاشی میں مصروف رہتے تھے۔  وہ کوشش کرتے رہتے تھے کہ میرے اندر مال و دولت کی ہوس جگائیں،  اس طرح سے کہ میں گاڑی اور زمین کے کچھ ٹکڑوں کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہ سوچوں۔  وہ لوگ اس طرح کی برتریاں رکھنے کو فخر کا باعث سمجھتے تھے اور  سپاہی ڈاکٹرز کو ہمیشہ حقارت اور دشمنی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک دن میں ان احمقوں سے تنگ آگیا اور میں نے ناشتے کے دسترخوان پر بیٹھے  یونٹ کے کمانڈر سے کہا: " آج میں آپ لوگوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ ہر روز اپنے دل کی باتیں بیان کرتے ہیں اور آج اس کے بدلے میں، میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرے دل میں ہے وہ بیان کروں۔"

 اس نے کہا: "کہیے!"  اور  کاش اس نے یہ نہ کہا ہوتا۔  میں نے اس سے کہا: " خدا کی قسم!  اگر آپ کی فوج میں، میں رات ایک حور کے ساتھ بسر کرتا اور صبح   مال و دولت کا مالک بن جاتا تب بھی میں فوج میں شامل ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوتا کیونکہ اس میں آزادی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔"

 ایک لمحے کیلئے مجمع میں خاموشی چھا گئی اور دل بغض و کینے سے بھر گئے، لیکن کسی  نے بھی کچھ نہیں کہا۔  اس دن کے بعد سے ان لوگوں نے میرا مذاق اڑانا بند کر دیا، لیکن ان کے بارے میں میرے مؤقف کی مجھے قیمت چکانی پڑی جس میں سے کم ترین قیمت یہ تھی کہ میری چھٹیاں محدود کر دی گئیں اور مجھے بار بار فرنٹ لائنز پر بھیجا گیا۔ میں 21 مارچ 1981 کی رات کا یونٹ کمانڈر کا رویہ کبھی نہیں بھولوں گا جب میں شدید ڈائریا میں مبتلا تھا۔ یونٹ کے لوگوں نے گزشتہ راتوں کی طرح رات گزاری۔  یونٹ کمانڈر اور اس کے دوست صبح تک جوا کھیلنے میں مشغول تھے۔  لیکن ایرانیوں نے عید نوروز کا جشن منایا اور ہماری فوج پر بمباری سے بھی گریز کیا  اور صرف اسٹارشیلز یعنی روشنی کے گولے پھینکنے پر اکتفا کیا۔ صبح تک میں درد اور بے چینی کی حالت میں رہا۔  میں مسلسل خندق سے ٹوائلٹ  اور ٹوائلٹ سے خندق آنا جانا کرتا رہا۔  میرا یہ حال ہوگیا تھا کہ طلوع فجر سے پہلے مجھے ٹوائلٹ جانے کے لیے خندق کے پاس موجود محافظ سپاہی سے مدد مانگنی پڑی۔

اس منحوس رات میں ایک پیرامیڈکس نے مجھے دو پین کلر انجکشن لگائے۔  اگلے دن صبح میں نڈھال بستر پر لیٹا ہوا تھا۔  ڈاکٹر "یعقوب" یونٹ کمانڈر کے پاس گئے اور اسے میری حالت سے آگاہ کیا۔  انھون نے مشورہ دیا کہ مجھے علاج اور آرام کے لئے ہسپتال بھیجا جائے۔ لیکن اس نے منع کردیا اور کہا: "اسے یہیں رہنے دو اور اس کا علاج ہونا چاہیے۔ آخرکار وہ ایک ڈاکٹر ہے!"

میں دو دن تک بستر پر پڑا رہا اور خود ہی اپنا علاج کرتا رہا یہاں تک کہ  میں اللہ کے فضل و کرم سے شفایاب ہو گیا۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2875


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت

میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی. میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ تھوڑا پیچھے جا کر بیٹھ جائیں اور مجھے آپ کی پیروں کی آواز سے پتہ چلنا چاہیے کہ آپ لوگ کہاں ہیں.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔