تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – بیسویں قسط
مجتبیٰ الحسینی
مترجم: ضمیر رضوی
2020-4-6
5 جنوری 1981ء صبح 10 بجے، زخمیوں کے علاج سے فارغ ہوکر میں کرسی پر بیٹھا ہوا انتظار کر رہا تھا۔ اچانک میں نے مال غنیمت کے طور پر ہاتھ آئے ایرانی ٹینکوں کے دستے کو دیکھا، بعثی لوگ اس کے آگے آگے چل رہے تھے. وہ لوگ خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے، لیکن میں دلی طور پر افسرده تھا اور اس وجہ سے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ ایرانیوں نے حملے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے، میں غصے میں تھا۔ میں اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا: کہاں ہے وہ فوج اور وہ قوم جس نے شاہ کا تختہ الٹ دیا؟
مسلسل آتے جاتے ہوائی جہازوں کی کان پھاڑ آوازوں نے میرے خیالوں کی ڈور کو کاٹ دیا۔
مجھے یاد ہے اس دن ہمارے دو ہیلی کاپٹرز مشن پر روانہ ہوئے لیکن واپسی کے راستے میں ان دو بڑے M-22 ہیلی کاپٹرز میں سے ایک گر کر تباہ ہوگیا اور اس کا پائلٹ بھی جاں بحق ہوگیا۔
دوپہر کے قریب میں ایمرجنسی روم واپس آیا۔ کچھ منٹ بعد ایک ایمبولینس پہنچی جو جیش الشعبی دیوانیہ کے 3 جاں بحق افراد اور کچھ زخمی افراد کو لے کر آئی تھی۔ زخمیوں سے پوچھ تاچھ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ لوگ شہر ھویزہ میں زخمی ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: "کیا ابھی بھی شہر میں لڑائی جاری ہے؟"
انہوں نے جواب دیا: " نہیں..... ہمارے زخمی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم نےایک گھر کی کھڑکی سے لٹکی ہوئی کارتوس کی پٹی کو کھینچا تو گھر دھماکے سے اڑ گیا۔"
ایرانی فورسز نے عقب نشینی سے پہلے گھروں اور اسٹورز میں بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں تاکہ وه نقصان اور عراقیوں کی لوٹ مار سے محفوظ رہیں، لیکن کچھ دن بعد ہماری انجینئرنگ فورسز نے شہر سے بارودی سرنگوں کا صفایا کرکے گھروں اور اسٹورز کی تباہی اور لوٹ مار کا راستہ ہموار کر دیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کچھ فوجی لوٹے ہوئے برقی اور صوتی آلات کم ترین قیمت پر بیچ رہے تھے۔
اسی دن شام کے وقت مجھے اپنے بزدل دوست "احمد مفتی" کی یاد آئی۔ میں اس کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا بیڈ خندق کے اندر لگایا ہوا ہے۔ میں ایک صاف ستھری خندق میں آرام کر رہے اپنے ساتھی ڈاکٹرز کے پاس واپس آیا اور ان کے ساتھ ڈاکٹر احمد کو اپنے پاس واپس لانے کے طریقے کے بارے میں گفتگو کی۔
میں نے ان لوگوں سے کہا: " میں اسے تمہارے پاس واپس لے آؤں گا۔"
انہوں نے کہا: " تم نہیں لا سکتے۔"
میں نے کہا: " تم سب دیکھ لینا۔"
میں دوبارہ ڈاکٹر احمد کے پاس گیا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ہر جگہ رات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ میں نے جنگ کی بات سے گفتگو کا آغاز کیا اور شکاری جانوروں خاص طور پر بھیڑیوں کے بارے میں ایک کہانی بنائی۔ وہ بہت غور سے میری باتوں کو سن رہا تھا اور یہ کہانی سنتے سنتے قریب تھا کہ وہ بیہوش ہو جائے، اس نے پوچھا: " کیا یہاں آس پاس بھیڑیے بھی ہوتے ہیں؟"
میں نے جواب دیا: "ہاں، بہت زیادہ!"
اس نے پوچھا: "کیسے؟"
میں نے کہا: " پہلے یہ علاقہ چوپایوں کی چراگاہ تھا۔ آج بھی یہاں بھیڑوں کی بو آتی ہے۔"
اس نے پوچھا: " کیا ممکن ہے کہ کوئی بھیڑیا مجھ پر حملہ کردے؟"
میں نے کہا: " بہت سادہ سی بات ہے اور میں اس کی پیشن گوئی کرسکتا ہوں۔" میں نے گفتگو ختم کی اور اس کی سلامتی کی آرزو کے ساتھ اسے چھوڑ کر اپنے دوستوں کے پاس آگیا۔
رات 9 بجے، کھانا کھانے کے بعد ڈاکٹر احمد آئے اور سلام دعا اور شب بخیر کہنے کے بعد انہوں نے کہا:
"میں آپ لوگوں کے ساتھ سوؤں گا۔"
پھر اپنے خادم فوجی "عباس" کو بلایا اور کہا: " جاؤ میرا سارا سامان یہاں لے آؤ!" اور عباس دوڑتا ہوا چلا گیا۔ ڈاکٹرز کو اس کی حالت سے بہت تعجب ہوا اور انہوں نے پوچھا: " آپ کیوں واپس آگئے؟" کیا آپ کو فضائی حملوں کی بمباری سے ڈر نہیں لگ رہا؟"
اس نے کہا: "نہیں، میرا اور تم لوگوں کا مقدر ایک ہی ہے۔ جو میرے ساتھ ہوگا وہی تمہارے ساتھ ہوگا۔"
پھر سب نے میری طرف رخ کیا اور کہا:
"ڈاکٹر آپ نے اسے یہاں واپس آنے کے لیے کیسے راضی کیا؟"
میں نے جواب دیا: " میں نے اسے راضی نہیں کیا۔"
ان لوگوں نے یقین نہیں کیا، یہاں تک کہ بہت زیادہ اصرار کرنے پر میں نے انہیں سارا ماجرا سنایا، سب یہ کہانی سن کر ہنسنے لگے اور رات ایک بجے تک ڈرپوک ڈاکٹر کا مذاق اڑاتے رہے۔
آدھی رات ہو چکی تھی کہ زیادہ تعداد میں فورسز آپہنچی اور مٹی سے بنے ہوئے خالی گھروں میں جگہ لے لی۔ ہم ان کے پاس گئے اور پوچھ تاچھ کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ یہ رزرو فورسز ہیں جو دوسرے علاقوں سے سوسنگرد پر حملے اور اس شہر پر قبضے کے لئے جمع کی گئی ہیں۔ رات دو بجے بارش شروع ہوگئی۔
میں اپنے بستر پر واپس چلا گیا اور اس انتظار کے ساتھ کہ کل کیا ہونے والا ہے میں نے تکیے پر سر رکھ دیا۔
بارش صبح سویرے تک جاری رہی۔ میں صبح ہسپتال چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ گاؤں کے چاروں طرف پانی ہے اور عراقی فورسز نے مسلسل بارش اور کیچڑ اور دلدل بن جانے کی وجہ سے سوسنگرد کی طرف سے عقب نشینی کرلی ہے، اس طرح سے پروردگار نے اس شہر کو بعثیوں کے حملے کے نقصان سے نجات دی اور اس شہر پر قبضہ کرنے کے لئے تیار شدہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ دوپہر کے وقت، کھانا کھانے کے بعد میں نے سات دن کی چھٹی لی اور گھر روانہ ہو گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ محاذ کا پچھلا حصہ بھی مشکلات اور پریشانیوں سے خالی نہیں تھا۔ یہ مشکلات جس شکل میں بھی ہوں حکومت کی سیاست اور جنگ کی وجہ سے پرورش پا رہی تھیں۔ ایک فوجی کچھ دن کی چھٹی لیتا تاکہ جنگ کی مشکلات اور دشواریوں سے آزاد ہوکر اپنے گھر والوں اور عزیزوں کے ساتھ رہے، لیکن اسے معلوم ہوتا کہ مصیبتوں اور بلاؤں نے ہر طرف سے اس کے خاندان کو گھیرا ہوا ہے۔
رات کے وقت میں اپنی جائے پیدائش پہنچا۔ میں نے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ میری افسرده ماں نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھتے ہی گرم جوشی کے ساتھ گلے لگا لیا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ گویا انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کا بڑا بیٹا موت کے چنگل سے صحیح سلامت نکل آیا ہے خاص طور پر خفاجیہ(بعثیوں کی اصطلاح کے مطابق) کی لڑائی کے بعد۔
خاندان سے ہونے والی پہلی ملاقات میں مجھے اپنے شہر کے کچھ لوگوں کے زخمی، جاں بحق اور لاپتہ ہونے کے بارے میں پتہ چلا۔ صبح میں نے اپنے کچھ دوستوں سے ملاقات کی جو میری ہی طرح چھٹی پر تھے۔ ان سے ہونے والی گفتگو کے دوران مجھے پتہ چلا کہ ہمارے تین جوان دوستوں سے ان کی اسلامی پابندیوں کی وجہ سے تفتیش کی گئی ہے۔ کچھ بھائیوں کے ساتھ میں شہر کی سڑکوں پر گھومنے نکلا جہاں جوان کم ہی نظر آ رہے تھے۔ ہم جہاں بھی جاتے وہاں سیکیورٹی فورسز موجود ہوتیں۔ شرارت اور جرم ان کے چہرے سے ٹپک رہے تھے۔ اے خدا یہ کیسی مصیبت ہے جس میں یہ لوگ مبتلا ہو گئے ہیں؟
ہر چھٹی میں، میں تین دن تک پیٹرول، گیس اور گھر کے کھانے پینے کا سامان خریدنے کے لئے بھاگ دوڑ کرتا رہتا۔ درحقیقت چھٹی کے دوران جو چیز ہمیں کم ملتی تھی وہ آرام و آسائش تھی۔ معاشرے کے دوسرے طبقات کی طرح ہم بھی مشکلوں اور سختیوں کا بوجھ اٹھاتے تھے۔ چھٹی ختم ہوئی، لیکن میری ذہنی اور روحی مشغولیات اور پریشانیاں نہ ختم ہونے والی تھیں۔ صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد میں نے گھر کی مہربان اور جاں نثار مخلوق یعنی اپنی والدہ کو الوداع کہا۔ انہوں نے بھی نم آنکھوں اور میری سلامتی کی دعا کرتی زبان کے ساتھ مجھے الوداع کہا۔
جاری ہے۔۔۔
صارفین کی تعداد: 2764