تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – دسویں قسط
مجتبیٰ الحسینی
مترجم: سید مبارک حسنین زیدی
2019-12-12
موبائل میڈیکل یونٹ کے افراد درخت کی شاخوں کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے۔ حالانکہ وہ لوگ بہت بھوکے تھے لیکن پھر بھی وہ کھانے کیلئے اُن کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر تیار نہیں تھے۔ ہم لطیفوں سے اپنا دل بہلا رہے تھے۔ اسی اثناء میں، میں متوجہ ہوا کہ میرے دوست زمین پر پڑی کسی چیز کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں۔ میں اُس مشکوک چیز کی طرف بڑھا۔ سینڈوچ والی ایک روٹی تھی جو غذا لے جانے والی گاڑی سے گر گئی تھی اور اُس پر مٹی پڑی ہوئی تھی۔ میں نے ہنستے ہوئے اُن سے کہا: "تنگ دست انسان کیلئے کوئی بہانہ اور گناہ نہیں ہے۔ جاؤ جاکر مجھے ایک صاف ستھرا کپڑا لاکر دو۔ "
وہ لوگ ہنسے اور مجھے ایک صاف ستھرا کپڑا لاکر دیا۔ میں نے اُس سے ، سینڈوچ والی روٹی کو اچھی طرح صاف کیا۔ اُس کے بعد اُبلے ہوئے مٹر کے دانوں کا ایک ڈبہ کھولا جسے ایک ڈرائیور نے اُن کے سامان میں سے ڈھونڈا تھا اور میں نے اُس میں جو کچھ تھا اُسے ایک خالی برتن میں ڈال دیا۔ اُس وقت آٹھ بھوکے افراد نے اُس پر حملہ کردیا۔ میں اور ڈاکٹر نعیم یہ منظر اور اُن افراد کا رویہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ بالآخر ہم مشکل حالات میں اُن کی مدد کرنے کیلئے اُن کےساتھ آئے تھے۔ حتی ہمارے کھانے اور پانی کا انتظام کرنا بھی اُن کی ذمہ داری تھا، لیکن اُن لوگوں نے ہمارے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا۔ ہمارا قصور صرف یہ تھا کہ ہم ڈاکٹر سپاہی تھے نہ کہ ڈاکٹر افسر تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم یہاں سے فرار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
تقریباً پندرہ منٹ بعد بریگیڈ کمانڈر کے ٹینک کا وائرلیس آپریٹر جو دائیں ہاتھ پر کسی آہنی ٹکڑے کے لگ جانے کی وجہ سے زخمی ہوگیا تھا، وہ ایک جیپ کے ذریعے وہاں پہنچا۔ پوچھ گچھ کرنے کے بعد معلوم ہوا بریگیڈ کمانڈر کے ٹینک کو اہواز کے جنوب میں اور شہر کے اطراف میں موجود جنگل کے اندر پاسداران انقلاب اسلامی نے آر پی جی کے گولے سے مورد ہدف قرار دیا ہے۔ مجھے یہ خبر سننے سے ایک جھٹکا لگا ۔ کیا واقعاً ہماری افواج نے اہواز شہر کے جنوبی علاقے میں داخل ہوکر وہاں پر تسلط حاصل کرلیا تھا؟ میں جو چیز سن رہا تھا مجھے اُس پر یقین نہیں تھا۔ میں نے فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ڈاکٹر "نعیم" کی مدد سے اُس زخمی افسر کو اٹھایا اور ہم نشوہ کی طرف فرار کر گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے کمانڈر کو موضوع سے آگاہ کیا۔ اُس نے کہا: "آپ لوگ یہیں ٹھہرجائیں اور واپس نہ جائیں۔"
اگلے دن ڈاکٹر "نعیم" اپنے دوستوں کے ساتھ، بصرہ میں پانچویں ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں دو ایرانی اسیر پائلٹوں کو لیکر آئے۔ ڈاکٹر "نعیم" نے ہمیں اسیروں کی داستان اس طرح سنائی:
۲۸ ستمبر ۱۹۸۰ والے دن ایک "فانٹوم" طیارے نے سقوط کیا اور اُس کے دو پائلٹوں کو کہ ایک کیپٹن اور دوسرا لیفٹیننٹ تھا، قیدی بنالیا گیا۔ ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر نے انھیں زیر نظر رکھنےکیلئے ہماری ڈیوٹی لگادی۔ اُن دونوں میں بہت زبردست حوصلہ اور ہمت تھی۔ ہم نے اُن کے سامنے پانی اور غذا رکھی، لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا۔ میں نے انگریزی زبان میں اُن سے کچھ گفتگو کی۔ انہیں تعجب ہوا اور وہ کہنے لگے: "کیا عراقی فوجی اتنی روان انگریزی بولتا ہے؟" میں نے جواب میں کہا: "میں ڈاکٹر ہوں۔" انھوں نے پوچھا: "تو پھر ہمارے ساتھ کیوں لڑ رہے ہو؟ اس وقت جہاں آپ کھڑے ہیں، ہماری سرزمین ہے۔" میں نے اُن سے کہا: "آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں آپ کو بتاؤں۔ میں ایک ڈاکٹر سپاہی ہوں اور مجھے اس جنگ پر اعتقاد نہیں ہے۔ میں بعث پارٹی سے نفرت کرتا ہوں اور امام کو پسند کرتا ہوں۔ لیکن میرے پاس اس جنگ میں شرکت کرنے کےعلاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں اور اس سلسلے میں، میں آپ اور ایران کی مسلمان قوم سے معذرت چاہتا ہوں۔" اس گفتگو کے بعد اُن کے دلوں کو سکون آگیا اور وہ کھانا کھانے اور پانی پینے لگے۔ اُس کے بعد ہمیں حکم دیا گیا انہیں پانچویں ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر منتقل کر دیا جائے۔ پورے راستے میں انہیں کوئی اذیت اور تکلیف نہیں ہوئی، لیکن ہماری ایمبولنس کے ڈرائیور لیفٹیننٹ "رحیم شاسوار" – جو کردی اور سلیمانیہ کا رہنے والا تھا- نے اُن کے جوتے اور دستانے چرا لیے اور ہم نے اس خوف سے کہ کہیں فوج کو بھنک نہ پڑ جائے اُسے کوئی سرزنش نہیں کی۔
جھڑپوں کی حقیقی علامات
نشوہ رجوع کرنے کے بعد، میں اُن فوجی یونٹوں سے واقف ہوگیا جنہوں نے اس مرکزی حملہ میں شرکت کی اور نشوہ، کوشک، طلائیہ، جفیر، حمید چھاؤنی اور اہواز - خرم شہر ہائے وے سےعبور کرکے اہواز کی طرف پیش قدمی کر گئے تھے۔ اس مرکز کی افواج اہواز کے جنوب میں ۱۶ کلومیٹر تک داخل ہوگئیں اور ایک جنگل کے اندر جو شہر کے جنوب میں واقع تھا، مستقر ہوگئیں تھیں۔ ان یونٹوں کے نام یہ تھے: تین موٹر سائیکل سوار ریجمنٹ سے بننے والا بیسواں مکانیزم بریگیڈ، ٹینکوں کی بٹالین، تیسرا ریجمنٹ، آٹھواں مکانیزم بریگیڈ، چھٹے زرھی بریگیڈ کا مقداد ٹینک بٹالین، اسی بریگیڈ کا ٹینک الحسین بٹالین، فوج کے انجینئرنگ یونٹ سے چند سپورٹنگ گروپس، ۱۲ ویں اور ۳۶ ویں بٹالین کے دو بھاری توپخانے کی سپورٹ میں فضائی اور زرھی ڈیفنس اور اضافی فوجی کے عنوان سے مکانیزم بریگیڈ۔
میں ایک سال بعد یعنی اپریل ۱۹۸۱ میں ان افواج کے مقاصد اور مشنز سے آگاہ ہوا۔ میں نے اُس تاریخ کو بیسویں بریگیڈ کے کمانڈر، کرنل اسٹاف "عبد المنعم سلیمان" سے دوپہر کے کھانے کی ضیافت میں ملاقات کی ، یہ کھانا ۱۱ ویں موبائل میڈیکل یونٹ میں تیار کیا گیا تھا۔ اُس نے شوش اوردزفول میں ہونے والی جنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہماری افواج کا مشن اہواز – خرم شہر کے ہائی وے کو منقطع کرنا اور شہر اہواز کا محاصرہ اُس کے جنوب سے کرنا ہوگا تاکہ ۹ واں زرہی ڈویژن – جو چزابہ کی گھاٹی، بستان، سوسنگرد، حمیدیہ کو عبور کرتے ہوئے اہواز کے شمال کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا – آرام سے اس شہر کے شمال سے ایک حملہ کا آغاز کرسکے اور صوبہ خوزستان کو ایران کے دوسرے صوبوں سے الگ کردے۔"یہ ذکر کرتا چلوں کہ آفیسر کالج میں اس کرنل کا کام پڑھانا تھا۔
بالآخر ہمارے ساتھ جو افواج تھی وہ اہواز – خرم شہر ہائی وے کو منقطع کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور جنوبی ضلع سے اہواز کا محاصرہ کرلیا لیکن حمیدیہ اور سوسنگرد کے علاقوں میں وہاں کے رہنے والوں کی دلیرانہ جدوجہد اور سپاہ پاسداران کے اُن کی مدد کرنے کی وجہ سے وہ اہواز کے شمال تک دسترسی حاصل نہیں کرسکے، اور جیسا کہ وہ شہر سوسنگرد پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد مجبوراً شہر سے باہر عقب نشینی کی اور اپنی دفاعی پوزیشنوں پر مستقر ہوگئے۔
ہمارے ساتھ موجود فوجوں کی حمید چھاؤنی کی طرف پیش قدمی کرتے وقت، ایرانی ۹۲ ویں زرھی ڈویژن کے ٹینکوں کے گروپس سے ہلکی پھلکی جھڑپ ہوئی کہ جس کے نتیجے میں یہ گروپس اہواز کی طرف عقب نشینی کر گئے۔ ہماری افواج آسانی سے کارون نہر کے ساحلوں کی طرف پہنچ گئی تھیں اور اہواز – خرم شہر کے اسٹرٹیجک ہائی وے والے راستے سے اہواز کی طرف بڑھی چلی جا رہی تھیں۔ اس راستے پر قبضہ ہونے سے خرم شہر کا دفاع کرنے والی افواج، جدوجہد جاری رکھنے کی تاب نہ لاسکیں اور شہر کے محاصرہ کا حلقہ اور زیادہ تنگ ہوگیا۔ خرم شہر کے اطراف کے بہت سے گاؤں پر قبضہ ہوگیا تھا اور بریگیڈ کمانڈر، کرنل اسٹاف "جواد اسعد شیتنہ" نے ان گاؤں والوں کو اختیار دیدیا تھا کہ یا تو وہ اہواز چلے جائیں یا پھر عراقی یونٹوں کے پیچھے ہی باقی رہیں۔ اُن میں سے بہت سے لوگ اہواز کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔ ہماری افواج پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے اہواز کے جنوبی جنگل میں داخل ہوئیں۔ وہاں پر عراقی فوج اور ایرانی عوامی فورس کے درمیان تصادم ہوا۔ حقیقت میں ہماری افواج کا پہلا ٹکراؤ تھا کہ جس کے دوران، بے نظیر دلاوروں اور بہادروں نے دفاع کرتے ہوئے ہماری افواج کی پیش قدمی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کردی اور انھیں عقب نشینی اور جنگل سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس کشمکش کے دوران، بریگیڈ کمانڈر کا ٹینک مورد ہدف قرار پایا اور اُس کا وائرلیس آپریٹر زخمی ہوگیا کہ اُس کو میں نے خود ۲۷ ستمبر ۱۹۸۰ والے دن پیچھے کی طرف منتقل کیا۔ نفسیاتی طور پر یہ ضربہ بہت شدید اور مؤثر تھا، اس طرح سے کہ بقیہ عراقی ٹینک منظر عام سے فرار کر گئے اور بریگیڈ کے کمانڈرز مجبور ہوگئے کہ اپنے ریوالور سے فرار کرنے والوں کی طرف فائرنگ کریں ۔ بالآخر فوجیوں کو دستور دیا گیا کہ وہ جنگل سے باہر عقب نشینی کریں اور دفاع کی ایک طولانی لائن میں اسٹرٹیجک ہائے وے " سید طاہر کے مزار" سے لیکر، "کوھہ"، "کوت سودای" اور "دب حردان" کے گاؤں تک مستقر ہوجائیں۔
حقیقت میں عوامی فورس کی بہادری اور ڈٹ جانا وہ پہلی ضرب تھی کہ جس نے ہمارے فوجیوں کے سہانے خوابوں کو چکنا چور کردیا تھا اور انھیں خواب سے نکال کر حقیقی جنگ کے میدان میں لے آئے تھے۔ اس مزاحمت سے کامیابی کا جلال اور تیز پیش قدمی کا جھاگ چند دنوں کیلئے بیٹھ گیا۔
جاری ہے ۔۔۔
صارفین کی تعداد: 3107
گذشتہ مطالب
- فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات
- تبریز کی فوجی گیریژن پر قبضے کا طریقہ کار
- سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت
- حاجی مصطفی خمینی صاحب کی تجویز
- امام خمینی(ره) کی لائبریری کی غارت گری
- مراجع کرام کا قم سے نجف پیغام بھیجنے کا طریقہ
- نوجوان دوشیزہ نشان عبرت بن گئی
- اس آدمی کا پیچھے کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟