تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – چوتھی قسط
مجتبیٰ الحسینی
مترجم: سید مبارک حسنین زیدی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2019-8-25
۳۔ مصری اور غیر ملکی کاریگروں کی بھرتی
عراقی حکومت نے ملک میں تعمیراتی منصوبوں کو شروع کرنے اور ترقی و پیشرفت کے بہانے سے، تقریباً ۳۰ لاکھ کے قریب مصریوں کو چند ہزار انڈین اور فلپائنی کے ہمراہ عراق آنے کی دعوت دی۔ ظاہراً یہ افراد عراق کی نوسازی کیلئے کاریگر اور ٹیکنیشن کے اعتبار سے ملک میں داخل ہوئے۔ شروع میں اُن کی تعداد قابل قبول حد تک تھی، لیکن سن ۱۹۷۹ کے آخر اور سن ۱۹۸۰ کے شروع تک مصریوں کی تعداد دو گنا برابر ہوگئی اور اس چیز نے عوام کے تجسس اور توجہ کو ابھارا۔ غیر ملکی افراد کی غیر معمولی طریقے سے ہونے والی بھرتیوں کی وجہ سے کچھ اجتماعی مشکلات کا سامنا ہوا کہ جس میں عراقی عوام اور مصری باشندوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اگرچہ اُن میں سے بہت سے لوگ فطری طور پر صاف دل کے مالک تھے اور انھوں نے روزی کی تلاش میں اس ملک میں قدم رکھا تھا، لیکن اُن لوگوں کے درمیان بہت سے ایسے افراد بھی تھے جو اپنے ساتھ فساد اور عیاشی کو لے آئے تھے اور معاشرے کے اندر بہت سی اجتماعی مشکلات ایجاد کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر رقاصاؤں اور گلوکاراؤں کے دسیوں گروپ اور سینکڑوں غیر ملکی فاحشہ عورتوں نے بدنام جگہوں پر کام کرنا شروع کردیا۔ اس کے علاوہ بعثیوں نے بہت سے مصریوں سے سیکیورٹی مسائل میں کام لینا شروع کردیا اور قانونی طور پر اُن کی پشت پناہی کرنے لگے۔ صدام کی طرف سے ایک قانون کا اعلان ہوا کہ عراق کا کوئی بھی باشندہ اگر کسی بھی مصری کے حق کو ذرا بھی نقصان پہنچائے گا تو اُسے چھ مہینے کیلئے جیل بھیج دیا جائے گا۔
مصری باشندوں نے جنگ سے پہلے اور جنگ کے وقت عراقی حکومت کی زبردست مدد کی؛ ورنہ ایک کروڑ بیس لاکھ عراقی باشندوں کی موجودگی میں تیس لاکھ مصریوں کی بھرتی کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ اتنی تعداد کو لانے سے حکومت کا کیا ارادہ تھا اور وہ اُن سے کیا چاہتی تھی؟ یہ ایسے سوالات ہیں کہ جنگ گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جوابات مل گئے۔ واضح الفاظ میں، جب صدام نے عراقی عوام کو جنگ کی دلدل میں دھکیلا، اس نے مصریوں سے ملٹری محاذ پر اور سب سے اہم ملک کے داخلی امور کی مینجمنٹ میں کام لیا؛ اور اس طرح انھوں نے معاشرے کے مختلف لوگوں کے خلاء کو پُر کیا جو جنگی محاذ پر چلے گئے تھے۔ پس ان غیر ملکی باشندوں کا عراق میں آنا، کوئی فطری اور اچانک سے ہونے والا عمل نہیں تھا بلکہ منصوبہ بندی اور پلان کے مطابق تھا جس کی جنگ کی تیاری کرنے کیلئے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس کی دوسری دلیل یہ کہ جنگ ختم ہونے اور حکومت کی ضرورت پوری ہونے کے بعد یہ لوگ، بہت ہی شرمناک حالت میں عراق سے نکالے گئے۔
۴۔ طبس میں امریکی ملٹری افواج کی ناکام لینڈنگ
یہ ایران کی اسلامی سرزمین پر صریحاً تجاوز، پہلے سے طے شدہ کچھ مشخص اہداف کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہوا۔ اُن اہداف میں سے ایک، ظاہراً اُن امریکی اغوا شدگان کو نجات دلانا تھی جو تہران میں تھے۔ لیکن حقیقت میں امریکی حکومت چاہتی تھی کہ وہ اینے ایجنٹوں کو سبز سگنل دکھائے تاکہ وہ ایرانی سرزمین پر حملہ اور تجاوز کریں؛ ورنہ امریکا کہ اس واضح تجاوز کے مقابلے میں بین الاقوامی اور علاقائی خاموشی کی کیا تفسیر اور توجیہ کی جاسکتی ہے۔ یہ تجاوز حقیقت میں سرزمین ایران پر صدامی حکومت کے ایک وسیع حملے کیلئے زمینہ فراہم کرنے کیلے تھا۔ حتی جنگ شروع ہونے کے ایک سال بعد، کارٹر نے وائٹ ہاؤس سے نکلتے ہوئے واضح طور پر کہا: "عراق اور ایران جنگ شروع ہونے کا مقصد امریکی اغوا شدگان کی آزادی تھا۔"
پتہ چلتا ہے انقلاب اسلامی کے خلاف صدام کی جنگ، ایسی جنگ تھی جس میں بین الاقوامی اور استعماری پہلو پائے جاتے تھے، اور کوئی ایسی جنگ نہیں تھی جو زمین اور پانی کی خاطر لڑی جاتی – جیسا کہ صدام دعویٰ کرتا تھا۔
۵۔ عراق میں تحریک اسلامی اور مذہبی مرجعیت کے گھروں کو تاراج کرنا
حکومت صدام نے امام خمینی اور انقلاب اسلامی کے چاہنے والے مسلمان انقلابیوں کو منظر سے ہٹانے کیلئے، مذہبی افراد اور علماء کرام کو وسیع پیمانے پر پھانسی دینا، گرفتار کرنا اور نظر بند کرنا شروع کردیا کہ عراق کے بہترین اور مخلص ترین افراد اس حملے کی زد میں آئے۔ بعثیوں کی وحشی گری اور بربریت کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ تحریک اسلامی کے چاہنے والوں اور اُن کے افکار اور اندیشوں کو پھیلانے والے مبلغین کی پھانسی کے لئے ایک قانون بنایا گیا۔ اس قانون کی زد میں حتی وہ لوگ بھی آئے جو جو سیاسی – اسلامی سرگرمیوں کو ترک کرچکے تھے۔ البتہ حکومت نے صرف اس ابتدائی کام پر اکتفا نہیں کیا اور سزا پانے والوں کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں اور حتی اُن کے گھر کے سامان، بیویوں اور بچوں کو بھی ضبط کرلیا اور اُن کے پہلے اوردوسرے درجے کے رشتہ داروں کو تمام شہری حقوق، جیسے کہیں سفر پر جانا اور یا ملازمت پر جانے سے محروم کردیا۔ حقیقت میں ہدف لوگوں کے درمیان رعب اور وحشت ایجاد کرنا تھا اور جب ان میں سے کوئی اقدام بھی حاکم کی حکومت اور تحریک اسلامی کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کو ختم کرنے کیلئے موثر واقع نہیں ہوا، مجرموں اور قاتلوں کے ٹولے نے مرجع عالیقدر آیت اللہ"محمد باقر صدر" کو شہید کردیا۔ یہ عظیم شہید جو امام خمینی اور انقلاب اسلامی سے عشق کرتے تھے، انھوں نے اپنی ایک تقریر میں عراقی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: "امام خمینی میں ضم ہوجاؤ ، جس طرح وہ اسلام میں ضم ہوگئے۔"
یہ مسئلہ غرب اور بعثی حکومت کیلئے پریشانی اور وحشت کا باعث بنا یہاں تک کہ صدام نے اُنھیں اور اُن کی محترم بہن "بنت الہدی" کو گرفتار کرلیا اور ۸ اپریل سن ۱۹۸۰ والے دن شہید کردیا۔ یہ خبر تحریک اسلامی اور عراق کے مسلمان عوام کو ہلا دینے والی خبر تھی۔ حکومت نے چند مہینوں بعد ان کی پھانسی کی خبر کا اعلان کیا، جب اُن کے ساتھیوں کا قلع و قمع ہوچکا تھا۔ صدام نے اپنی ایک تقریر میں کہ جس میں اُس نے ایران، امام خمینی اور تحریک اسلامی پر تنقید کی تھی اور شاہ کو ایران چھوڑنے پر ملامت کی تھی، "صدر معدوم" کی تعبیر استعمال کرتے ہوئے آیت اللہ کی پھانسی کی خبر لوگوں تک پہنچائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ غرب فکری اور عملی طور پر نہیں چاہتا کہ شاہ اور امام کا تجربہ کسی اور اسلامی ملک میں تکرار ہو، لہذا شہید صدر کی پھانسی کا اقدام بچاؤ کیلئے ہو۔
اس وحشیانہ ظلم کی وجہ سے حکومت اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی شدت میں اضافہ ہوا اور دونوں کے درمیان مسلحانہ جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔ ان میں سے سب سے نمایاں جھڑپ اُس وقت ہوئی جب پارٹی اور حکومت کی برجستہ ترین شخصیت "طارق عزیز" پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جب وہ بغداد کی "مستنصریہ" یونیورسٹی کے دورے پر آئے تھے۔ اس قاتلانہ حملے میں طارق عزیز اور بعثیوں کے کچھ افراد زخمی اور ۹ دوسرے لوگ مارے گئے۔ صدام نے اس قاتلانہ حملے کا ذمہ دار ایران اور اُس ملک کے انقلاب کو جانا اور ایک تقریر میں جو اسی مناسبت سے کی تھی، اسلامی گروپس اور ایران سے دھمکی آمیز لہجےمیں بات کی۔ حکومت نے ایک فرضی حادثہ کا ڈھونگ رچایا۔اس طرح سے کہ جب مارے جانے والوں کے جنازے بغداد میں ایرانی اسکول کے سامنے سے گزر رہے تھے ، اُس وقت ایک نامعلوم شخص نے ایک دستی بمب پھینکا جس کی وجہ سے کچھ لوگ زخمی ہوگئے۔ صدامی حکومت چاہتی تھی اس حادثہ کا ذمہ دار انقلاب اسلامی کے حامیوں کو ٹھہرائے۔ دوسری طرف سے صدام نے یونیورسٹی میں زخمی ہونے والوں سے ہسپتال میں ملاقات کرتے وقت، اس واقعہ کے بارے میں ایک بہت بڑا طوفان کھڑا کردیااور حکومتی پروپیگنڈا مشینری نے پروگرامز منعقد کرکے، یہ دھماکےکرانے کی نسبت ایسے افراد کی طرف دی جنہیں حکومت ایران اور اس ملک کے انقلاب کا عامل سمجھا جاتا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سادہ لوح عوام بھی اس کھیل کو حقیقت سمجھ بیٹھی اور اُس کے بعد سے عراق میں جو بھی اقدام حکومت کے خلاف ہوتا، مجاہدین [عراقی] اور ان کو تشویق دلانے والے یعنی ایران کو مورد الزام قرار دیا جاتا۔ بہتر ہوگا کہ میں ایک مثال کا ذکر کرتا چلوں۔ ایک دن "کرخ" گرلز ہائی اسکول میں بجلی کے مسئلہ کی وجہ سے شارٹ سرکٹ ہوا جس کی وجہ چیخ و پکار بلند ہوئی۔ بعثیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور چلانے لگے: "حزب الدعوہ کے ایجنٹوں نے اسکول میں دستی بمب پھینکا ہے۔"
یہ بات وہاں پر تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی وحشت زدگی کا باعث بنی۔ اس طرح سے کہ وہ وہاں سے بھاگتے ہوئے زمین پر گریں اور اُن میں سے دسیوں لڑکیاں جو حواس باختہ اور تشنج کا شکار ہوگئی تھی انھیں "کرامہ" کے جنرل ہسپتال میں منتقل ہونا پڑا۔ میں جو کہ اُس وقت سرجن ڈپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا، میں نے زخمیوں کا معائنہ کرتے وقت، خوف کی وجہ سے زمین پر گرنے سے ہلکی پھلکی لگ جانے والی چوٹ کے علاوہ کسی بڑی چوٹ کا مشاہدہ نہیں کیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حادثات حکومت کے فائدے میں رہےاور اُنھوں نے اس کے ساتھ مزید کوششیں کرکے تحریک اسلامی کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے، لوگوں کی نظروں میں دیندار افراد اور انقلاب اسلامی کی اہمیت کو کم کردیا۔
جاری ہے ۔۔۔
صارفین کی تعداد: 3330