سحری اور آسمان کا نظارہ

صوبہ اصفہان کے آزاد ہونے والے قیدیوں کی یادداشتیں

مریم ا سد جعفری
۲۰/ جون ۲۰۱۶
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-10


شکنجے برداشت کرنے کی تلخی، عراقی فوجیوں کی اذیت اور مثالی دوستیوں کی مٹھاس، کئی سالوں سے وطن سے دور رہنے والوں کی یادیں، یہ سب باتیں پڑھنے والی کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہیں لیکن ماہ مبارک رمضان سے مربوط قید کی یادیں، جیسے  بغیری سحری کے روزہ اور اذان مغرب کے بعد تک پیاس کو برداشت کرنا، ہم میں سے ہر ایک کیلئے جس نے ان دنوں کو تجربہ نہیں،  ناقابل یقین ہے۔ تحریر شدہ یادداشتیں – کہ جو پہلی بار شایع ہو رہی ہیں – اصفہان سے تعلق رکھنے والوں قیدیوں کی یادداشتیں ہیں۔ ہم سب سے پہلے صوبہ اصفہان کے قیدیوں کے پیغامات کے ثقافتی ادارہ کے ڈائریکٹر کے شکر گزار ہیں کہ ایران کی اورل ہسٹری کی سائٹ کو یہ یادیں پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔

نگاہ خدا (رہائی یافتہ سلام امیری فرد کی یادداشتیں؛ موصل چھاؤنی ۲)

میں نے عیسائیوں سے عراقی فوجیوں کی شکایت کی۔ میں نے کہا لوگوں کو تنگ کرتے ہیں، ہر وقت تشدد کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی ایسا کہ انسان برداشت نہ کرسکے، صحیح سے کھانا نہیں دیتے یہاں تک کہ زندہ رہنے کیلئے بھی کافی نہیں ہوتا، صفائی ستھرائی کی تو بات ہی نہ کریں، میں نے عیسائیوں کے سامنے سارا چٹھہ بھٹہ کھول دیا،  میں نے سوچا ایک دفعہ تو ساری باتیں کہہ ڈالوں شاید کوئی آسائش  میسر ہو، جو کہ نہ ہوئی۔

اب عیسائی تو جا چکے تھے اور میں نے عراقیوں کی اتنی غیبت کی تھی، علی رہ گیا تھا اور اُس کا حوض۔  مجھے گھسیٹتے ہوئے ٹارچر سیل تک لائے۔ اُس کمرے کی لمبائی، چوڑائی ڈیڑھ سے ڈھائی میٹر ہوگی ، لاتے ہی مارنا شروع کردیا، اتنا مارا، اتنا مارا؛ اتنا مارا کہ کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ پھر میرے ہاتھ پاؤں پکڑ کے مجھے ٹارچر سیل میں پھینک دیا۔ وقت  کا پتہ نہیں چل رہا تھا، نہیں پتہ تھا کہ مغرب کا وقت یا رات ہورہی ہے۔ اُس دن میرا روزہ تھا اور میں نے اتنی مار کھائی تھی کہ مجھ میں بس سانس لینے کی سکت باقی تھی؛ پیاسا تھا، شدید پیاسا، اب تک مجھے اتنی پیاس  نہیں لگی تھی۔

میرا جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھا، خود کو دیوار کی طرف لے گیا اور دیوار سے ٹیک لگائی، اپنی چپلوں کو پیروں کے نیچے رکھا اور سر  کو آسمان کی طرف بلند کیا: "خدایا تو نے مجھے صعوبتیں برداشت کرنے کی ہمت عطا کی اب مجھے پیاس کے ذریعے  نہ آزما۔"

دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور عراقی فوجی اندر آیا۔ مجھے یقین تھا کہ مارنے آیا ہے۔ راتوں کو سیل کے دروازے صرف مارنے کیلئے کھولے جاتے۔ پھر اپنے سر کو اوپر اٹھایا اور کہا: "خدایا میں نے کہا تھا: پانی، نہ کہ مار۔"

دو فوجی میری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے گھسیٹتے ہوئے کیمپ کے درمیانی احاطے میں لے آئے،  عراقی افسر نے مجھے کچھ بڑی بڑی گالیاں دیں اور کہا: "دوبارہ ایسا نہ ہو، جاؤ اپنے کمرے میں۔"

یہ اُس وقت تک غیر قابل یقین بات تھی ،میں نے نہیں دیکھا تھا کہ رات میں کسی کو ٹارچر سیل سے آزاد کیا ہو۔ رات کے دس  بج رہے تھے اور  سب کھانا کھا چکے تھے،  میں پانی کے مٹکے کی طرف  بڑھا اور خدا ۔۔۔ مٹکے کے نزدیک مجھے دیکھنے کے لئے بیٹھا ہوا تھا۔

سحری (سید عباس حسینی کا واقعہ، موصل چھاؤنی ۳)

لاؤڈ اسپیکر سے اعلان ہوا: تیار ہوجاؤ۔   بہت زور سے لکڑی کے ساتھ دروازے کو پیٹ جارہا تھا اور عراقی فوجی کی تیار ہوجاؤ کی فریاد، جس کسی کی بھی باری ہوتی، وہ کھانے کا برتن لیکر دروازے کے پیچھے کھڑا ہوجاتا  اور جیسے ہی دروازہ کھلتا سحری لینے کے لئے باہر جمپ لگا دیتا۔

اُس رات  ایسے شخص کی باری تھی جسے شروع ہی سے بہت زیادہ نیند آتی تھی، ہم نے کہا: "اگر تمہیں نیند آرہی ہے تو کھانا ہم لے لیں گے۔" وہ اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کی کوشش میں تھا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے بدن کو سنبھالتے ہوئے  غصیلی آواز میں بولا: "نہیں، میں ستاروں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔" کھٹ کھٹ کی آواز بلند ہوئی اور فوجی نے کیمپ کے دروازے کو کھولا۔ اُس نے جلدی سے  برتن اٹھایا اور بھاگنا شروع کردیا۔ عراقی فوجی نے  ہم پہ ایک عجیب سی نگاہ ڈالی اور کہا: "یہ کہاں جا رہا ہے؟" پھر اُس کے پاس گیا اور اُسے ایک زوردار تھپڑ  لگایا اور کہا: "کہاں جا رہے ہو؟

۔ کھانا لینے جا رہا ہوں۔

۔ تو پھر برتن کہاں ہے؟"

وہ ، جو کہ تھپڑ کھانے کی وجہ  نیند سے اب بیدار ہوا تھا، اُس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی چیز کو دیکھا اور خود ہی ہنسنے لگا۔ اتنا بوکھلایا ہوا تھا کہ  سوتی جاگتی حالت  میں کھانے کے برتن کی جگہ  تکیہ اٹھا کر لے گیا تھا۔

 

کھلی فضا کی لذت (رہائی یافتہ محمد علی رفاہت کا واقعہ؛ موصل چھاؤنی)

کیمپ میں ہر وقت دن رہتا تھا۔  دن تو دن تھا۔ راتوں کو بھی لائٹیں جلتی رہتیں۔ ایسے کہ اصلاً راتیں ختم ہوچکی ہوں۔ راتوں کو آسمان کا نظارہ صرف کھڑکی سے ممکن تھا۔  صرف اندھیرا تھا وہ بھی ایسا کہ جیسے اُجالے کو کسی کالی چادر نے ڈھک دیا ہو اور کوئی بھی ستارہ نہیں تھا۔ جب قیدی بن جاتے ہیں تو ستارہ دیکھنے کیلئے دل زیادہ بیتاب ہوتا ہے۔۔۔

جب بھی رمضان کا مہینہ آتا،  وہ بھی اس وقت جب راتوں کو سحری دینے کا آغاز ہوا، ہمیں رات کے آسمان اور ستاروں  کا انتظار رہتا۔ آپ نہیں سمجھ سکتے کہ ایک سال یا ایک مہینے بعد ستارے دیکھنے کا کیا مزہ ہے؟!

ہر کیمپ سے چودہ افراد کھانے لینے باہر جاتے تھے۔ کیمپ سے کچن کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا لیکن اس باہر جانے اور واپس آنے میں ۳۰ سے ۴۰ منٹ لگ جاتے۔ جو لوگ کچن میں گئے ہیں ان کے باہر آنے تک، انتظار میں کچن کے باہر بیٹھے رہتے،  اور یہ انتظار ستاروں اور آسمان کے ناظرے کے ساتھ بہت ہی رسیلا ہوتا۔ جب بھی ہارون سحری لانے والے کسی گروپ میں ہوتا، تو باہر رہنے کی اس مدت میں ۲۰ منٹ کا اضافہ ہوجاتا۔

جناب ہارون، جن کا تعلق اصفہان سے تھا، ہمارے کیمپ میں تھے۔ عراقیوں سے باتیں کرتے اور ہنستے۔ ٹوٹی پھوٹی اورفارسی ملی عربی  میں باتیں کرتے۔ اس طرح سے کہ وہ بھی سمجھتے اور یہ خود بھی، اُن میں عراقی فوجیوں کو مصروف رکھنے کی صلاحیت تھی! اور اس گپ شپ کو جتنا ہوسکتا تھا طولانی کرتے تاکہ لوگ زیادہ باہر رہ سکیں اور رات کے مزے  اڑا سکیں۔

کسی بھی گروپ میں اس کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ سحری لینے کیلئے جب باہر جاتے تو باتیں کرنا منع تھا اور عراقی فوجی  کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن جب ہارون ہوتا تو سب باتیں کرتے؛ کوئی بھی کچھ نہیں کہتا۔ ہم نے چھوٹی چھوٹی نعمتوں  اور فرصتوں سے لذت لینا سیکھ لیا تھا، یاد رہنے والی لذتیں ۔۔۔

 

کھانے پکانے کا ہنر (رہائی یافتہ عباس برہانی کی یادوں سے؛ موصل کیمپ ۱)

ہمیں چیزوں کو کیسے دیکھنا چاہیے؟ جی آپ کہیں گے کہ جس طرح کی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔  جب محدود ہوجاتے ہیں یا دشواری میں ہوتے ہیں پھر چیزوں کے دوسرے رُخ سے آگاہ ہوتے ہیں۔ کثرت اور اشیاء کی بہتات میں چیزوں کے دوسرے رُخ کو دیکھنا محال ہے!

حقیقت میں گھی کا ایک ڈبہ  کیا ہوتا ہے؟ صرف ایک ڈبہ ہے کہ جب خالی ہوجاتا ہے تو اُسے دور پھینک دیتے ہیں لیکن کبھی یہی گھی کا  ڈبہ بالٹی ، برتن یا چاقو حتی  مٹھائی بنانے کے لئے اوون   کا کام دیتا ہے۔

محفلوں اور مجالس کے پروگرام منعقد کرنا اصفہانیوں کی ذمہ داری تھی۔ ہم نے سوچا اسیری کے کڑوے کھانے کے ذائقے کو بدلا جائے۔ نہ اوون تھا، نہ کریم، نہ انڈے وغیرہ ، یہ  سب چیزیں نہ ہونے کے باوجود بھی ہم کام سے لگ گئے!اصغر آخوندی جیسے حلوائی کا وجود کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ وہ جس نے ہمارے لئے ناشہ میں سوپ تیار کیا اور مٹھائی بنانے کا کام شروع کیا۔

گھی کا ایک ڈبہ لیا، سردیوں میں روشن کرنے کیلئے الہ الدین کا ایک چراغ بھی ہمیں دیا گیا تھا۔ ڈبے کو اس چراغ کے دھانے کے مطابق کاٹ لیا اور ڈبے کی دونوں طرف  تار باندھ دی تاکہ پکڑنے میں آسانی ہو اور اُس کے نیچے آگ پھیلانے والا ایک آلہ لگا دیا تاکہ ڈبے کے چاروں طرف آنچ لگ سکے۔ کیونکہ مٹھائی بنانے کا اصول ہے کہ اوون کے اندر ایک جیسی حرارت ہو۔

ہم نے دو ٹرے بھی بنائیں اور خاردار تاروں کے ذریعے اُس کے دستے بھی بنائے تاکہ آسانی سے اُسے اندر ، باہر لایا جاسکے۔ ٹرے کا قطر  ڈیڑھ سینٹی میٹر تھا جو اُنہی ڈبوں سے بنی تھیں، ڈبے کے کناروں کو موڑ دیتے  تھے تاکہ ٹرے میں موجود شیرا باہر نہ گرے۔

ہم ٹرے پر گھی لگا تے اور کریم یا بیسن سے بننے والی مٹھائی وغیرہ اوون میں رکھ دیتے۔ اُس میں پہلے نیچے والی ٹرے پھر اوپر والی ٹرے رکھتے اور اس اوون کیلئے ہم نے دربھی بنایا ہوا تھا۔ در کو بند کردیتے  اور ہاں! در میں شیشہ بھی لگایا ہوا تھا کہ مٹھائی بننے کے عمل کو کنٹرول کرسکیں۔

دیکھا، ایک گھی کا ڈبہ حقیقت میں کیا کیا بن سکتا ہے؟ایک اور آلہ جسے جناب آخوندی مٹھائی بنانے کیلئے استعمال کرتے، مٹھائی کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے والی  کپّی تھی کپڑے سے کپّی بناتے تھے  اور اُس سے ستارے اور دائرے کی شکل وغیرہ بناتے۔ شکر اور آٹا ملا کے اُسے گوندھ لیتے اور پھر مختلف صورتوں میں لانے کے بعد، اُنہیں کپّی میں ڈالتے پھر گھی اور اوون کی باری آتی، پکنے کے بعد اُنہیں شیرے میں ڈال دیتے، اس طرح سے ماہ رمضان کے لئے جلیبییاں اور عید الفطر اور دوسری عیدوں کے لئے مٹھائی بناتے اور یہ وہی بات ہے کہ کوئی جان لے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ یقیناً جو بھی کیوں کو سمجھتا ہے، اُسے اُس کو حل کرنا بھی آتا ہے۔

 

لیلی کا گھر (رہائی یافتہ غلام رضا روستایی کا واقعہ؛ موصل کیمپ)

انسان کیلئے بس یہی کافی ہے کہ وہ عاشق ہو! داستان ایسے شروع ہوتی ہے کہ ایک دن محاذ پہ جانے کا جنون سوار ہوتا ہے ۔ جب محاذ پہ جاتے ہیں تو وہاں گولہ و بارود، دشمن کی قید ہوتی ، اس وقت بھی عشق  کی داستان  چل رہی ہوتی ہے!

جب مذہب کی بات آتی ہے تو بہت سی مشکلات اور مسائل ختم ہوجاتے ہیں، لسانیت، اختلافات اور مختلف دستوں میں بٹے رہنا وغیرہ سب ختم ہوجاتا ہے۔ صرف مذہب نہیں تھا۔ ایسا مذہب جسے حاجی ابوترابی نے عراقی کیمپوں میں انسانیت سے عشق، صرف انسانیت  کی بنیاد اور ہر طرح کی فکر اور عقیدہ سے خالی ہوکر سکھایا تھا۔

ایسا عشق کہ جس کا جلوہ اور ظاہر، دوسروں کی مدد اور عمومی کاموں کی رغبت دلائے اور ایسی رغبت جس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش ہو۔ کیا [سورہ واقعہ میں]"السابقون السابقون" کا اس سے بہتر معنی ہوسکتا ہے؟

ہر طرح کی افراط و تفریط سے آزاد، انسانیت کی خدمت، اور قید میں یہ پرواز اور کامیابی  تھی۔ ہم پانچ لوگ تھے جنہیں ڈاکٹر نے روزہ رکھنے سے منع کیا تھا اور ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ہم لوگوں نے بیٹھ کے فیصلہ کیا کہ پورے ماہ رمضان لوگو ں کے کھانے کے برتن کو دھوئیں گے۔ جناب احمد، اصفہانی لہجہ میں کہتے: "پلیٹوں کو لے آؤ ہم دھوئیں گے" اس لہجے میں مٹھاس ہوتی اور یہ کام اتنا لذت بخش اور شیرین تھا کہ جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

"لیلی کے گھر کے راستے میں خطرات ہیں، پہلے قدم کی شرط یہ ہے کہ تم مجنون ہو"

 

رمضان کا خلاصہ (رہائی یافتہ علی ربانی کی یادوں سے؛ موصل کیمپ ۴)

جب بھی رمضان کا مہینہ آتا، پورے کیمپ میں ایک معنوی فضا قائم ہوجاتی۔ شروع میں قرآن کم تھے  اور ہم نے قرآن کے مختلف پارے بناکر اُن پر نام لکھ دیئے تھے اور وہ پارے ایک کے بعد دوسرے کے پاس جاتے لیکن جب قرآن زیادہ ہوگئے تو تلاوت قرآن کا پروگرام ہونے لگا اور ہر روز ایک پارہ پڑھا جاتا۔ رمضان میں کھانے کا کوئی خاص شیڈول نہیں تھا۔  پہلے رات کے کھانے کو افطاری کیلئے لیتے اور جو کھانا دوپہر کیلئے دیا جاتا اُسے  برتن میں ڈال دیتے اور اُس کے چاروں کمبل لپیٹ دیتے تاکہ گرم رہے۔ بعد میں عراقی افسروں سے بات کی گئی پھر  قیدی سحری میں گرم کھانا کھاتے۔

ماہ رمضان میں لوگوں کا عبادی پہلو اتنا اوج پہ تھا کہ انٹیلی جنس کے مشعل اور افسر خلیل کی کوششوں کے باوجود لوگوں کے حوصلوں اور ہمت میں کمی نہیں آئی۔ ہر تھوڑی دیر بعد لوگوں کے معنوی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے  کچھ افراد کو کیمپ کے دوسری طرف لے جاتے تاکہ دوسرے افراد اُن سے مشکوک ہوجائیں یا بازپرس کیلئے باہر لے جاتے اور پھر لے آتے۔ خوامخواہ اُنہیں کیمپ کے پیچھے ایک گھنٹے تک کھڑا رکھتے اور جب وہ واپس آتے تو ہم پوچھتے تھے: "انھوں نے کچھ کہا؟  تم نے کچھ کہا؟"

وہ جواب دیتے: "نہیں! خوامخواہ ہمیں ایک گھنٹے تک  دھوپ میں کھڑا رکھا پھر کہنے لگے جاؤ۔" ایسا اس لئے کرتے تھے تاکہ ہم ایک دوسرے پر شک کریں اور ہمارے اندر تفرقہ ایجاد ہوجائے۔ وہ سازش کی فکر میں تھے اور ہم اپنی احکام اور قرآنی کلاسوں میں اتنے مصروف تھے  کہ یہ مشعل اور افسر خلیل ہاون دستہ میں پانی کو کوٹ رہے تھے۔

جب عید الفطر نزدیک ہوتی تو ہم چند راتوں کے کھانوں کو جمع کرلیتے تھے، گندم کے آٹے سے  نکالی گئی خشکی ہمارا آٹا ہوتا تھا، اُس سے حلوا بناتے۔ روٹیوں سے سینڈویج بنالیتے تھے، کچھ دنوں سے جمع کئے ہوئے گوشت کو فرائی کرکے سینڈویچ بنالیتے اور  عید الفطر کی صبح، نماز کے بعد جو چھپ کے پڑھی جاتی تھی، سب لوگ ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے، گلے لگتے اور مبارکبار پیش کرتے تھے۔ سختیوں میں ایک مہینہ روزہ رکھنے کی مبارکبار تو ہونی چاہیے!!

دستر خوان بچھاکر سب اُس کے گرد بیٹھ جاتے اور سب ایک ہوجاتے۔ پھر چائے، مٹھائی، تھوڑا حلوا اور سینڈویچ وغیرہ، اس طرح عید گزرتی۔

 

بغیر قانون (رہائی یافتہ اصغری رحیمی کا واقعہ؛ رمادیہ کیمپ ۱۰)

بالکل پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب رات آئی اور چلی گئی؟! پانچ بجے سے لیکر صبح تک سونا پڑتا تھا۔  لاپتہ افراد کے کیمپ کا اپنا ہی قانون تھا یا یوں کہا جائے کوئی قانون ہی نہیں تھا۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تو ہم دیکھتے کھانے کے شیڈول میں کوئی فرق ہی نہیں پڑا۔ دوپہر کے کھانے کو افطاری کیلئے رکھ لیتے تھے۔ سحری میں اٹھنے کی اجازت نہیں تھی اور اگر کسی کی آنکھ کھل جاتی اور جالی کی دوسری طرف سے  گشت پر موجود کوئی عراقی فوجی دیکھ لیتا تو  غصے سے چلاتا: "کس کی آنکھ کھلی ہے؟" اور پھر داستان شروع ہوجاتی اور پھر کیمپ کے انچارج  کوآواز لگاتا کہ اٹھو۔ جب وہ اٹھتا ، تو اُس سے کہتا: "اس کی گدی پہ ایک لگادو ۔۔۔"

انچارج بھی مارے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، کیونکہ اگر نہیں مارے گا، تو کل خود اُس کی مار کٹائی ہوگی۔ اور ایک طرح سے اُس کا مارنا بہتر تھا کیونکہ عراقی بہت بری طرح  مارتے تھے۔ پورا رمضان کا مہینہ بغیر سحری کے گزر گیا۔  پھر جب ٹی وی آیا، بہت کم تعداد میں آئے تھے  اور ہر کمرے میں باری لگتی تھی، جن دنوں کیمپ میں ٹی وی تھا ماحول کچھ سازگار رہا۔ کیونکہ ہم رات ۱۱ بجے تک جاگ سکتے تھے چونکہ جب تک ٹی وی کھلا رہتا ہمیں جاگنا پڑتا اور پھر اُس کے بعد ہم سحری کھا کے سو جاتے تھے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4476


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت

میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی. میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ تھوڑا پیچھے جا کر بیٹھ جائیں اور مجھے آپ کی پیروں کی آواز سے پتہ چلنا چاہیے کہ آپ لوگ کہاں ہیں.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔