دو آدھے دن
مرتضی سرہنگی
۲۲/ ستمبر ۲۰۱۵
مترجم: سید مبارک حسین زیدی
2016-7-13
پہلا آدھا دن:
گرمیوں کا موسم ختم ہونے کو تھا۔ میں صبح دفتر آتے ہوئے شاہراہ فردوسی کیلئے جب توپخانے کی چورنگی سے گزرا تو صبح کی خنک ہواؤں نے کہا گرمیوں کی شدت کو موسم خزاں اپنے اندر چھپا رہی ہے۔
وہ دن بقیہ دنوں کی طرح کا ایک معمولی دن تھا اور میں بھی بقیہ لوگوں کی طرح ایک عام سا آدمی، لیکن میرا دل چاہ رہا تھا کہ اب جبکہ میں ایک اخبار کے دفتر میں کام کر رہا ہوں، خزاں کے موسم کے پہلے دن کے بارے میں کچھ لکھوں۔ بارش اور درخت کے (جھٹرتے) پتوں کے بارے میں کچھ لکھوں ۔ ان ہواؤں کے بارے میں اور ان دنوں کے بارے میں جو دن بہ دن چھوٹے ہو ئے جا رہے ہیں، ان راتوں کے بارے میں کہ جن کے طولانی ہونے کے سبب انسان تھک جائے، اسکولوں کے کھلنے کی گھنٹیوں کے بارے میں کچھ لکھوں کہ جنہیں سنے ہوئے مدت گزر گئی۔ میں نے سوچا کہ شاید آج میرے قلم کے نصیب میں خزاں کے موسم کے بارے میں یہی سب کچھ لکھنا ہے۔
دوپہر کے وقت تک میں اس موضوع کے بارے میں اس قدر فکر میں ڈوب گیا تھا کہ کسی اور طرف دھیان ہی نہ رہا! لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ حادثہ جو میرے تحریر کرنے کے درمیان رونما ہوا، ایک دن اتنا بڑا واقعہ بن جائے گا کہ سارے ملک میں اس کی باتیں ہونگی۔ جب عراقی لڑاکا طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں تہران کے ہوائی اڈّے میں گونجنے والی آوازوں نے دفتر میں میرے پاؤں کے نیچے تھرتھراہٹ پیدا کی تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ زیادہ سے زیادہ ایک ایسی خبر بنے گی جو پہلے صفحے پر چھپ سکے۔
ریڈیو کی دو بجے کی خبروں نے آہستہ آہستہ اس خبر کی تفصیلات بتانا شروع کیں تو پتہ چلا کہ اچھی خاصی پریشانی والی بات ہے۔ اس دن کے آدھے ٹکڑے میں دفتر کے تمام لوگ ریڈیو کے گرد جمع تھے تاکہ خبرنامے میں جنگ شروع ہونے کے سرکاری اعلان کو سنیں۔
اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ جنگ میرے لئے حتی جنگ کے خاتمے کے بعد بھی ختم نہ ہوگی۔ بہرحال، موسم خزاں کے حالات لکھنے والا میرا یہ چھوٹا سا قلم خود ہی خود جنگ کے حالات کا لکھاری بن گیا ۔ البتہ یہ خود جنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے لیکن چاہتا ہے کہ جنگ کے بارے میں جانے اورلکھے۔
جب رات ہوئی تو دفتر کا ہال کسی امامزادے کے مزار کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ہر گوشے میں دیا جل رہا تھا اور ایک خبر تھی اور ان ہی ٹوٹی پھوٹی خبروں سے ایک خبر بنائی جا رہی تھی اورٹائپنگ کی ترتیب و ترکیب کیلئے "روزنامہ کیہان" بھیجی جا رہی تھی۔ ان دنوں "روزنامہ جمہوری اسلامی" کا دفتر شاہراہ فردوسی پر تھا یعنی توپخانے کی چورنگی اور "روزنامہ کیہان" کے دفتر کے درمیان۔ جب رات ہوئی تو ہر جگہ اندھیرا تھا۔ شاہراہ فردوسی ، جہاں صبح کے وقت اتنی چہل پہل تھی اب رات کے وقت اس جگہ ہو کا عالم تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ جگہ (شاہراہ فردوسی) صبح سے لیکر رات تک، سو سال پیچھے چلی گئی ہے۔
نہ روشنی کی کرن تھی، نہ کوئی شخص۔ طیارہ شکنوں کی آواز کبھی کبھار رات کی اس سیاہی میں نور کی ایک لکیر کھینچ رہی تھی۔
اخبار کے دفتر کے شب و روز میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ان دنوں اس اخبار کے دفتر میں شاید دنیا کے سب سے زیادہ پر جوش جوان موجود تھے۔ اس رات سب کی فکریں مشغول تھیں اور سب کاغذ و قلم اُٹھائے اس مبہم حادثے سے خبریں بنانے اور تجزئیے کرنے میں مصروف تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے تمام عملے کی خبریں کچھ خبر رساں ایجنسی کی خبروں کا خلاصہ تھیں۔ ہر شخص خود کو ان خبر رساں ایجنسیوں کا رکن گمان کر رہا تھا، جبکہ اس حادثے کے بارے میں آنے والی خبروں سے آگاہ بھی نہیں تھے۔ اسی رات میں "یوسف علی میر شکاک" نے مزید شعر کہے۔ اس نے اخبار کے پہلے صفحے کیلئے شعر لکھے۔ ا س کے پر جوش اشعار ایک مدت تک چھپتے رہے جو کہ لوگوں پر اثر انداز بھی تھے۔ انہی دنوں غلام حسین افشردی (حسن باقری) غائب ہوگئے اور نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ کسی کو بتائے بغیر جنوب چلے گئے۔ جو کہ بعد میں ایک ہوشیار کمانڈر کے طور پر سامنے آئے۔ مجھے جب بھی وہ یاد آتا ہے تو احساس افتخار کرتا ہوں لیکن افسوس کے وہ بہت جلدی چلا گیا، حتی بعض لوگوں کے مطابق کہ اگر افشردی زندہ بچ جاتا تو جنگ کا اختتام کچھ اور ہی ہوتا۔ انہی دنوں میں ہم نے فن و ادب کے صفحے کا رُخ بھی جنگ کی طرف موڑ دیا اور جو کچھ جانتے تھے، سب لکھ دیا۔ یہ اخبار، صرف جنگ کی خبروں پر مشتمل اخبار بن چکا تھا۔
انہی دنوں میں ہمارے اس مرے ہوئے قلم نے جنگ کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔ اب ہمارے قلم کے نصیب میں جنگ کے بارے میں ہی لکھنا ہے، حتی دن کے دوسرے آدھے حصے میں بھی۔
دوسرا آدھا دن:
جولائی کے مہینے کے وسط کی گرمیاں تھیَ بے رونق اور گرم دوپہر تھی جس میں ایک سایہ دار ٹھنڈی جگہ پر کہ جہاں انسان کا دل چاہے کہ جمائیوں اور نیند کی جھپکیوں کو مثبت جواب دے لیکن اخبار کا کام بہت بے رحم تھا اور اسے ہماری اس حالت کا ذرا بھی خیال نہ تھا۔ اسی وقت ایک صبح کے اخبار کا دفتر خود کو سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کیلئے آمادہ کرتا ہے۔ حتی بعض قابل اشاعت خبروں کو تیار کیا جاچکا ہے لیکن پھر بھی اخبار کے صفحات کے چھپنے سے پہلے پہلے کسی بھی خبر کے چھپنے کی ضمات نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی اور اہم خبر آخری وقتوں میں آ پہنچے۔
ہمارے اخبار کے دفتر میں اس دن کی دوپہر بھی بقیہ دنوں کی دوپہر کی طرح تھی۔ دو بجے کی خبریں سننا ایک عادت سی بن چکی تھی۔ بعض لوگ ان خبروں کو دوپہر کے کھانے میں میٹھے کے نام سے یاد کرنے لگے تھے۔
خبروں والا چھوٹا ریڈیو میز پر موجود کاغذوں اور ٹیلی فونز کے درمیان کہیں دکھائی نہ دے رہا تھا لیکن اس کی آواز آرہی تھی۔
اس کی آوازوں میں اچانک ایک آواز اس بے جان دوپہر میں سنائی دی کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے اور ہمارے ملک نے جنگ کے معاہدے کو قبول کرلیا ہے۔
مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے پاؤں کے نیچے کی زمین تھرتھرا گئی ہو لیکن بم پھٹنے کی آواز نہ آئی تھی یا شاید آئی ہو لیکن میں نے نہیں سنی ہو۔ اگر اس وقت کوئی ہمارے اس اخبار کے دفتر میں آتا شاہد ایک پل کیلئے تصور کرتا کہ کسی بشریات کے عجائب گھر میں آگیا ہے جس میں مختلف انسانوں کے مجسمے رکھے ہوئے ہوں۔ جن میں بعض کے حلیے مناسب و بعض کے نامناسب ہوں اور جنہیں مختلف رنگوں کے لباس پہنائے گئے ہوں۔
خبریں سنانے والی کی آواز ، ایسا لگ رہا تھا کہ بہت بلند ہوگئی ہو اور کسی خالی جگہ پر بہت گونج پیدا کر رہی ہو۔
میں "میدان جنگ" کے صفحے کے کمرے میں آیا۔ میز پر جنگ کی خبروں اور تصویروں کا ایک انبار لگا ہوا تھا، جنہیں چھپنے کیلئے تیار کرنا تھا۔ مجھے ایک سیکنڈ کیلئے ایسا لگا کہ ان بے رنگ تصویروں میں سے جان نکل گئی ہو۔ کتنی پرانی دکھائی دینے لگی تھیں۔ جیسے کہ یہ تصویریں اور تحریریں ۸۰سال سے اسی میز پر پڑی ہوئی ہوں اور انہیں جب سے کوئی اٹھانے والا نہ ہو۔ اور کئی سالوں سے کسی نے اس کمرے میں پاؤں تک نہ رکھا ہو۔ "میدان جنگ" کے صفحے کا کام کرنے والے وہ تمام افراد کہاں چلے گئے جو آج صبح تک یہاں موجود تھے؟ شاید کسی جنازے کی تدفین کیلئے شاہراہ فردوسی گئے ہوں۔ کوئی بھی نہ تھا، نہ سعید علامیان، سعید صادقی، ہدایت اللہ بہبودی، کوئی بھی نہ تھا حتی حسین میرپور جو جوان تھا اور ابھی کچھ دنوں پہلے ہی اس کی جاب لگی تھی، وہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری طرح اِن لوگوں نے بھی اس دن کے پہلے حصے میں جنگ کے شروع ہونے کی خبر سنی اور دوسرے حصے میں جنگ کے اختتام کی۔ پتہ نہیں! شاید تاریخ کے ان صفھات کو اِ س طرح کے حادثوں اور انسانوں کیلئے کھول کر رکھا جائے تاکہ اس طرح کے لوگ آئیں اور جائیں اور ان لوگوں کے اثرات نظر آئیں۔ لیکن یہ نشانات جو ہم نے تاریخ کے ان صفحوں پر دیکھے خود تاریخ سے بڑے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان بڑی بڑی شخصیتوں کے سامنے تاریخ کے یہ صفحات بہت چھوٹے ہیں۔
اس دن کے پہلے حصے سے لیکر آج تک، بیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ پتہ نہیں آج دو بجے کی ریڈیو سے نشر ہونی والی خبروں کو دوپہر کے کھانے میں میٹھے کے عنوان سے سنا جاتا ہے یا نہیں؟ البتہ اس دن کے دوسرے حصے سے لیکر آج تک بارہ سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور میں نے اس پوری مدت میں ریڈیو کی دو بجے والی خبروں کو نہیں سنا ہے، معذرت کے ساتھ!
۱۵ روزہ "کیہان"، پانچواں سال، شمارہ۱۰۳، صفحہ ۳۔ ۲
صارفین کی تعداد: 4707