منافقین کے نیرنگ

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2025-12-19


ایران میں امن مذاکرات کے دوران جب عراقی قیدیوں کے پناہ لینے کا موضوع اٹھا، تو عراقی بھی اس بات سے پیچھے نہ رہنے کے لیے پناہ گزین قبول کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ ابتدا میں انہوں نے آزادی کیمپ سے رہائی، شہروں میں رہائش اور تمام سہولتوں جیسے گھر وغیرہ کے وعدے کر کے کچھ افراد کو بہلانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ قیدیوں کی وطن اور خاندان سے وابستگی کے علاوہ، اسیری کے دوران نگہبانوں کے وحشیانہ رویے نے عراق اور عراقیوں کی ایسی منفی تصویر ذہنوں میں بنا دی تھی کہ کسی کے لیے کوئی خوشگوار یاد باقی نہ رہی تھی۔

ان کوششوں کے نتیجے میں صرف چند کمزور اور ناتوان افراد ان کے جھانسے میں آئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو عراقیوں کے اصرار کے سامنے مخالفت کی جرأت نہیں رکھتے تھے اور ایران واپسی پر اپنی اسیری کے دوران بدسلوکی کے باعث ندامت سے بچنے کے لیے پناہ گزینی کو قبول کر بیٹھے تھے۔ ان میں کچھ منافقین کے حامی بھی تھے جو عراق میں پناہ گزینی کو اپنے ہم فکر افراد سے ملنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

جب پناہ گزینوں کی تعداد بہت کم رہی تو بعثی کارندوں نے مزید افراد کو راغب کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی دنوں میں پناہ گزینوں کو بہتر کھانا، زیادہ روٹی، سگریٹ، حمام و بیت الخلا کے استعمال میں ترجیح، اجتماعی سزا سے بچاؤ وغیرہ جیسی سہولتیں دیں۔ لیکن چند دن بعد جب کوششیں ناکام ہوئیں تو وہی پرانا رویہ اختیار کر لیا گیا۔ کیونکہ 3500 قیدیوں کے کیمپ میں صرف دس بارہ افراد کا پناہ گزین بننا ان کے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔ ان کے وعدے بھی جھوٹے ثابت ہوئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایرانی قیدیوں نے بچے کچھے چند پناہ گزینوں کو بھی منصرف ہونے پر مجبور کر دیا۔

جب عراقی پناہ گزین بنانے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے منافقین سے مدد مانگی۔ منافقین، جنہوں نے اپنی زیادہ تر جنگی قوت "فروغ جاویدان" آپریشن میں کھو دی تھی اور نئے افراد کی ضرورت محسوس کر رہے تھے، صدام کی درخواست کو قبول کر لیا۔ اس طرح پہلی بار جولائی 1989 کو چند منافقین "ابریشمچی" کی سرپرستی میں قیدیوں کے کیمپ پہنچے۔ چونکہ انہیں قیدیوں سے تلخ تجربہ تھا، اس لیے اندر جانے کی جرأت نہیں کی۔ وہ کیمپ کے باہر کمانڈ ہیڈکوارٹر میں ٹھہرے اور پیغام بھیجا: "ہم آپ کو نجات دینے آئے ہیں!" اور حسبِ عادت جھوٹے وعدے کیے جیسے اچھا کھانا، اچھے کپڑے، آرام دہ جگہ، تفریحی سہولتیں، شہروں میں آزادانہ آمد و رفت، بہتر صحت وغیرہ۔

ابتدائی مرحلے میں انہوں نے چند کمزور افراد کے نام درج کیے اور انہیں ایک آسائش گاہ میں جمع کیا۔ شام کے وقت منافقین کا نمائندہ وہاں آیا اور تقریر کی۔ دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے انہیں چند دن وہیں رکھا گیا۔ ابتدا میں منافقین خود ان کی دیکھ بھال کرتے رہے، لیکن توقع کے برعکس نہ تو کوئی نیا پناہ گزین شامل ہوا بلکہ کچھ افراد دیگر قیدیوں کے مشوروں اور پیغامات سے اس جال سے نکلنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ ان دنوں پناہ گزینوں کے آرام کا اور آزاد وقت دوسرے قیدیوں سے مختلف تھا، لیکن قیدی مختلف بہانوں سے، خاص طور پر بیماری کے بہانے، کلینک جاتے اور اپنے پیغامات پناہ گزینوں تک پہنچاتے تھے۔

 



 
صارفین کی تعداد: 10


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

منافقین کے نیرنگ

جب عراقی پناہ گزین بنانے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے منافقین سے مدد مانگی۔ منافقین، جنہوں نے اپنی زیادہ تر جنگی قوت "فروغ جاویدان" آپریشن میں کھو دی تھی اور نئے افراد کی ضرورت محسوس کر رہے تھے، صدام کی درخواست کو قبول کر لیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔