زبانی تاریخ  میں سوالات کی اہمیت کتاب " میریام " کی روشنی میں

تحریر: دکتر خسرو قبادی

ترجمہ: سید مقدس حسین نقوی

2025-10-22


"زبانی تاریخ" کیا ہے اور تاریخی مطالعات میں اس کی کیا اہمیت ہے؟


کیا یہ تاریخ کی ایک شاخ ہے، یا تاریخ نگاری کا ایک طریقۂ کار، یا پھر ایک ایسا اکتشافی وسیلہ جو مؤرخ کو خام مواد فراہم کرتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیشہ زیرِ بحث رہ سکتے ہیں۔

میں اس تعریف پر زیادہ توجہ دیتا ہوں جو انٹرویو پر مبنی زبانی تاریخ کو تاریخ نگاری کی ایک صورت قرار دیتی ہے۔ اس طریقے میں جب مختلف روایات کو ایک ساتھ رکھا جاتا ہے تو ایک نظامی نقطۂ نظر کے ساتھ کسی واقعہ یا عہدِ تاریخ کا ایک جامع تصور سامنے آتا ہے۔

اس بنیاد پر، جب ہم "انٹرویو" کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد  انٹرویو لینے والے اور انٹرویو دینے والے کے درمیان ایک تعمیری تعامل ہوتا ہے۔ انٹرویو کرنے والا تین اہم مرحلوں میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے:

  1. راوی کا انتخاب — یعنی ایسے شخص تک پہنچنا جو ماضی یا تاریخ سے متعلق سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس لیے انٹرویو کرنے والا بذاتِ خود ایک مؤرخ ہوتا ہے۔ اس کے پاس تاریخ کا پس منظر ہوتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ کچھ ابہامات، کمیاں اور رکاوٹیں موجود ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔ اس طرح وہ تحریری تاریخ نگاری کا ایک تکمیلی کردار بھی ادا کرتا ہے۔
  2. انٹرویو کے دوران مداخلت — جب راوی اپنی بات بیان کر رہا ہو تو انٹرویو کرنے والا، پہلے سے تیار کردہ سوالات کے علاوہ، دورانِ گفتگو نئے سوالات اٹھا کر وضاحت طلب کرتا ہے، تاکہ زیادہ درست اور مفصل معلومات حاصل کی جا سکیں۔
  3. حتمی تدوین — متن کی آخری صورت گری میں بھی انٹرویو کرنے والے کا اثر نمایاں رہتا ہے۔

یہ نکتہ جس پر میں یہاں زور دینا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تاریخِ شفاہی میں سوالات محض استفہامی نوعیت کے نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات وہ استنباطی یا استدلالی بھی ہوتے ہیں۔ یعنی انٹرویو کرنے والا، انٹرویو دینے والے سے مزید وضاحت، تشریح اور اپنے دلائل پیش کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس پہلو سے انٹرویو کرنے والا محض ایک غیر فعال سننے والے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور یہی خصوصیت یادداشت نویسی یا واقعاتی بیان کو زبانی تاریخ سے ممتاز کرتی ہے۔ ایک معنی میں یہ ایک ذہن (جو معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے) کی دوسرے ذہن (جو تاریخ کی نمائندگی کرتا ہے) سے براہِ راست ملاقات ہے، اور اس اعتبار سے انٹرویو کرنے والا ایک نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ کبھی وہ سقراط کی طرح سوال کو جنم دیتا ہے اور ایسا ماحول بناتا ہے کہ انٹرویو دینے والا وہ بات زبان پر لے آئے جو مدتوں اس کے ذہن اور دل میں پوشیدہ تھی۔ اسی موقع پر ہارورڈ یونیورسٹی کے "پروجیکٹ آف اورل ہسٹری" پر یہ تنقید کی جا سکتی ہے کہ چونکہ اس میں انٹرویو کرنے والے کا کردار تقریباً معدوم ہے، اس لیے اسے "زبانی تاریخ "قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس طرح تاریخِ شفاہی کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:

  1. تحریری تاریخ نگاری کی تکمیل کا ذریعہ۔
  2. تاریخ کے معمہ خیز پہلوؤں کو حل کرنے کا راستہ۔
  3. حال کے زمانے کی تاریخ۔
  4. ماضی اور حال کے درمیان ایک پل۔
  5. سماجی موت سے بچاؤ کا ایک وسیلہ، یعنی اس میں معاشرے کے تمام طبقات کو تاریخ کی تدوین میں شریک کیا جاتا ہے، جو تاریخ نگاری میں عوام کی راہنمائی کا طریقہ ہے، کیونکہ ماضی میں یہ کام صرف صاحبان اقتدار کی اجارہ داری میں تھا اور زبانی تاریخ دوسروں کو بھی اس میں شریک ہونے کا موقع دیتی ہے۔
  6. روایات کے تجزیے کو نظریہ پردازی کی حد تک لے جانا۔

اس گفتگو کے پس منظر میں ایک کتاب کا ذکر بے محل نہ ہوگا:" میریام" — جو محترمہ رباب صدر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے — مؤسسۂ ثقافتی و تحقیقی امام موسیٰ صدر کی اشاعت ہے اور تاریخِ شفاہی کی ایک روشن مثال ہے۔ اس کتاب کا نام، لبنان کی جنگ کے دنوں میں محترمہ صدر کے ایک فرضی نام سے ماخوذ ہے۔

کتاب کی سات ابواب پر مشتمل فصل بندی، جن کے عنوانات ہیں : "برائے بھائی، برائے مہربانی، برائے امید، برائے زندگی، برائے امن، برائے آزادی، اور برائے انسان" — سب کے سب ایک خاص لطافت اور معنوی نزاکت کے حامل ہیں۔

اس کتاب میں انٹرویو کرنے والے کی مؤثر موجودگی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ محترمہ رباب صدر خود اعتراف کرتی ہیں: "میں ان مباحث میں جانا نہیں چاہتی تھی، مگر آپ کے سوالات نے میرا کام آسان کردیا اور میں نے انٹرویوز جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ انٹرویو لینے والا اپنی مہارت سے انٹرویو دینے والے میں شوق و رغبت پیدا کرسکتا ہے اور سوالات کے جواب دینے میں اس کے انگیزے  کو بڑھا سکتا ہے۔ کتاب یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ سوالات پوچھنے میں انٹرویو لینے والے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور اس نے اس آزادی سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

کتاب کی ایک نمایاں خوبی یہ  بھی ہے کہ انٹرویوز کا آغاز اسی موضوع سے کیا گیا جو غالباً قارئین کے لیے سب سے زیادہ کشش رکھتا ہے — یعنی " امام موسیٰ صدر کا اغوا" — اور سب جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی بہن رباب صدر کے پاس کہنے کو بہت اہم باتیں موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس باب کے بیشتر سوالات استنباطی نوعیت کے ہیں۔

مختصراً، آغاز سے انجام تک، کتاب میں انٹرویو لینے والے کا کردار نہ صرف استفہامی بلکہ استنباطی اور استدلالی سوالات کے ذریعے نمایاں رہتا ہے۔ مجموعی طور پر "میریام" کو انٹرویو لینے والے اور دینے والے کے درمیان بہترین تعاون اور مکالمے کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔

کتاب  "میریام"حمید قزوینی کی تحریر ہے، جو سن 2024 میں ۶۶۲ صفحات پر مشتمل، درمیانے سائز میں اور نرم جلد کے ساتھ شائع ہوئی۔ یہ کتاب، مؤسسۂ ثقافتی و تحقیقی امام موسیٰ صدر کی" زبانی تاریخ سیریز" کی نویں جلد ہے۔

 

ـــــ عضو هیئت علمی پژوهشگاه علوم انسانی و مطالعات اجتماعی جهاد دانشگاهی۔

 

 



 
صارفین کی تعداد: 30


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
رضا امیرسرداری کے بیانات سے اقتباس

مرصاد

مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے "آئل سٹی" کے مسئلے کو ہر ممکن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے تجزیے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ "اگر ہم نے ابھی تک "نفت شھر" یعنی "آئل سٹی" کو برقرار رکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسرے خطوں میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔