پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 47
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-10-7
نوریاب واپسی اور والدہ کی تمنا کا پورا ہونا
اکتوبر 1976 کے آغاز میں، میں عارضی طور پر نوریاب میں ٹھہر گیا۔ سب سے پہلے، میرے دماغ میں دو چیزیں چل رہی تھیں دو انتخاب؛ خدمت(ملازمت) کی جگہ اور زوجہ کا انتخاب۔ پہلے انتخاب میں، میں تردد کا شکار تھا کہ اپنے آبائی گاؤں نوریاب میں ہی رک جاؤں اور نماز جماعت اور نماز جمعہ پڑھا کر لوگوں اور اپنے گاؤں والوں کی خدمت کروں یا کسی دوسری جگہ چلا جاؤں۔
نوریاب میں کوئی مستقل، امام مسجد نہیں تھا۔ جناب خلیفہ محمد سعید پیاب، نامنظم طور پر روز کی نمازوں کی جماعت کراتے تھے، لیکن ان میں نماز جمعہ کی امامت کی صلاحیت نہیں تھی۔ گاؤں کے کچھ ٹرسٹیز میرے پاس آئے اور تعلیم مکمل ہونے اور میری نوریاب واپسی پر مبارک باد دینے اور خوش آمدید کہنے کے بعد انہوں نے مجھے نوریاب گاؤں کے امام مسجد اور امام جمعہ بننے کی پیشکش کی۔ جب میں نے لوگوں کا خیر مقدم دیکھا تو اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ پہلے قدم پر، میں نے اپنے ساتھ تین چار طالب علموں کو جمع کیا اور روز کی جماعت اور نماز جمعہ کی جماعت کے علاوہ طالب علمی کے مختلف علوم کی تدریس میں مشغول ہوگیا۔ میرا روز کا اکثر کام، طالب علموں کی تربیت تھا اور اس کے ساتھ میں لوگوں کے دینی اور معاشرتی امور کو بھی انجام دیتا تھا۔
گاؤں میں کچھ عرصہ رکنے کے بعد میں نے خاص طور پر اسکول کے طالب علموں کو قرآن اور علوم دینی حاصل کرنے کا مشتاق پایا۔ میں نے مسجد میں اور گاؤں کے راستوں پر ایک اطلاعیہ تیار کرکے لگوادیا اور اس کے ذریعے قرآن سیکھنے کا شوق رکھنے والے نوجوانوں اور اسکول طالب علموں سے تقاضا کیا کہ وہ عمّ پارہ لے کر مسجد کی شب جمعہ کی کلاسوں میں شرکت کریں۔(دستاویز)
میرا اطلاعیہ بظاہر اطلاعیہ تھا، لیکن وہ ایک سیاسی بیانیہ زیادہ لگ رہا تھا:
’’عزیز نوجوانو اور طالب علمو! چونکہ آج اسلامی معاشرہ فساد کی جانب بڑھ رہا ہے اور اسلام کے نور کی روشنی مسلسل تاریک ہوتی جارہی ہے اور ہم مسلمانوں کے سامنے، کفر اور الحاد کی آگ دن بدن بھڑکتی۔۔۔‘‘
اپنے کام کی جگہ کا تعین کرنے اور نوریاب گاؤں میں رکنے کے فیصلے کے بعد، میں دوسرے انتخاب میں لگ گیا۔ کافی عرصے سے میرے گھر والے مجھ سے شادی کرنے کا کہہ رہے تھے۔ ہمارے علاقے کے رواج کے مطابق، ہم نے کچھ گھرانے تلاش کیے اور ان میں سے اہم گھرانوں کے بارے میں معلومات کرائی اور کچھ گھرانوں کو خبر کی اور کچھ سے رجوع کیا، لیکن ہمارے رشتے میں ہر جگہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ آگئی یہاں تک کہ آخر میں ہم، میری موجودہ زوجہ کا رشتہ لینے دری بر[1] گاؤں چلے گئے۔ ان کے والد، محمد علی کریمی صاحب، ایک متدین شخص تھے اور مسافروں اور بھٹکے ہوؤں کے لیے ان کا گھر ٹھہرنے کی جگہ تھا۔ پاوہ سے نوسود اور عراق جانے والے، راستے میں ان کے گھر کو آرام کی جگہ قرار دیتے تھے۔ محمد علی صاحب میری والدہ کے رشتہ دار تھے اور میری والدہ کے پہلے رابطے پر ہی انہوں نے ہمارے ارادرے کا خیر مقدم کیا اور کہا: ’’میری ایک خواہش تھی کہ میری کسی ایک بیٹی کی شادی کسی مولانا سے ہو کہ جس میں میرے مطابق، دنیا کی خیر بھی ہے اور آخرت کی بھی۔ اگر ہمارا داماد، مولانا یا متدین شخص ہوگا تو وہ ہمارے لیے دعا کرے گا، ایک نیک اولاد کی طرح میرا اور میری زوجہ کا احترام کرے گا اور ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھے گا۔‘‘
ہمارے رشتے کا جواب دینے اور قبول کرنے کے بعد، چونکہ وہ ہمارے معاشی حالات سے آگاہ تھے، وہ بھاری مہر اور جہیز پر اڑے نہیں اور خاص خاص لوگوں کی، کم خرچ اور سادہ سی تقریب پر راضی ہوگئے اور یہ وعدہ پورا ہوگیا۔ پھر ایک دوسری نشست میں، ماموستا ملا عمر ولدبیگی نے کچھ رائج سکوں کے مہر کے ساتھ ہمارا نکاح پڑھا۔ 4 نومبر 1976 بروز جمعرات کو شادی کی تقریب بھی منعقد ہوگئی۔ آہستہ آہستہ میری زوجہ کو میرے حالات کی عادت ہوگئی اور مالی اور سہولیات کی مشکلات کے باوجود وہ ایک طالب علم کے ساتھ ایک سادہ زندگی گزارنے پر راضی ہوگئیں۔
ہم نے ایک سادہ سی تقریب منعقد کی۔ نوریاب مدرسے کے طالب علموں اور مدعو مولاناؤں نے تقریب میں حضور اکرم(ص) کی مدح میں کئی قصیدے پڑھے۔ ہمارے ہاں رسم تھی کہ دلہن کے گھر کے قریب پہنچنے پر دولہا خوشی کے طور پر جمع ہوئے حاضرین بالخصوص جوانوں پر قند یا چاکلیٹ پھینکتا تھا، لیکن میں اعتقادی اصولوں اور فقہی احکام کا بہت پابند تھا اور میں نے مولویت کے لباس کی حرمت کی خاطر اپنی قومی اور علاقائی رسومات کو بھی نہیں اپنایا۔ میری کوشش تھی کہ میں دینی احکامات پر عمل کروں، میرے اس رسم کو توڑنے پر کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا اور اس کے لیے، میں خدا کا شکر گزار ہوں۔
گھر والوں سے گیارہ سال اور سات ماہ کی جدائی کے بعد، میں اپنی والدہ کی حوصلہ افزائی اور دعاؤں سے دین کی پاسداری اور وعظ و نصیحت کے مقام تک پہنچ گیا، اس بار بھی شادی کے معاملے میں انہی کی حوصلہ افزائی اور ترغیب پر میں نے اپنے آدھے دین کو کامل کرلیا اور اپنی شفیق ماں اور زوجہ کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ ہماری زندگی کے سب سے خوبصورت دن وہ تھے کہ جب میری والدہ ہمارے ساتھ تھیں یا شاید یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ہم ان کے ساتھ تھے۔
لطف خدا اور اپنی والدہ کے مشورے کے سائے میں، میں عالم دین، مبلغ دین اور گھر گھرستی والا بن گیا۔ شادی کے ایک سال بعد ہم صاحب اولاد ہوئے۔ خدا اور میری والدہ کی محبت کے علاوہ مالی لحاظ سے میرے پاس زیادہ پیسہ نہیں تھا۔ میرے دوستوں اور رشتہ داروں کی آمدنی بھی میری ہی طرح تھی اور وہ بھی میری اتنی مدد نہیں کرسکتے تھے کہ زندگی کی مشکلات میں میرا ساتھ دیتے۔
گاؤں کے ٹرسٹیز نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ماہ کی تنخواہ کے علاوہ پانچ طالب علموں کی تعلیمی اور رہائشی فیس، حق الزحمت کے عنوان سے پانچ سو تومان کا بھی انتظام کریں گے۔
میں نے اپنی زندگی اپنے بھائی صالح صاحب کے اپنے گھر کے ساتھ بنائے ایک چھوٹے سے کمرے سے شروع کی۔ طلوع آفتاب کے وقت مسجد میں کچھ طالب علم میرا انتظار کر رہے تھے کہ جو کچھ میں نے ان بارہ سالوں میں سیکھا تھا اس کا حاصل میں انہیں سکھاؤں۔ میں انہیں اپنی اولاد کی طرح سمجھتا تھا اور دل کی گہرائیوں سے ان سے محبت کرتا تھا۔ درحقیقت میں ان میں اپنے آپ کو دیکھتا تھا۔
شادی کے ایک سال اور تین دن بعد، 7 نومبر 1977 کو خداوند متعال نے ہماری چھوٹی سی اور محدود سی زندگی کو ایک امانت تحفے میں دی۔ اس تحفے نے مجھ سے زیادہ دو ماؤں کو خوشی دی؛ میری بوڑھی والدہ اور میری بیٹے کی جوان والدہ کو۔ ہمارے پہلے بچے کے مبارک قدموں سے ہماری زندگی میں امید اور تازگی آگئی۔ فقہی حکم کے مطابق، نومولود کی ولادت کی چوتھی رات، قرآن سے فال نکالنے پر مجھے مُسلم نام ملا اور مُسلم بن عقیل کے نام پر ہم نے نومولود کا نام مُسلم رکھ دیا؛ اس نیت سے کہ رسول اکرم(ص) کے اہل بیت کے ایک فرد کے نام پر ہم گھر میں ایک نام رکھیں، شاید ہمارے اس اقدام سے رسول اکرم(ص) کو خوشی ہوئی ہو۔ میں نے اس کے کان میں اذان و اقامت کہی اور مُسلم، ہمارے گھر کا چراغ بن گیا۔
[1] دری بر، پل دوآب کے قریب ایک گاؤں ہے جو جنگ کے دوران پوری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ سپاہ نے گاؤں کے اندر ایک فیلڈ اسپتال قائم کیا تھا لیکن بدقسمتی سے جنگ کے بعد اس اسپتال کا لوہا سریا اور دوسری چیزیں بیچے جانے کی وجہ سے دفاع مقدس کی سب سے خوبصورت نشانی ہاتھ سے چلی گئی۔
صارفین کی تعداد: 62








گذشتہ مطالب
- 18 سالہ نوجوان کی پٹائی
- ماموستا 47
- شہید سید اسد اللہ لاجوردی کے بیانات سے اقتباس
- خشاب ھای پر از تکبیر[تکبیروں سے بھرے (بندوق کے) میگزین]
- گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
- بعقوبہ کیمپ میں گمنام قیدیوں کے درمیان بیتے ہوئے کچھ ماہ
- منافقین کے بارے میں مطالعاتی کورس
- حاجی حسین فتحی کا حج سے واپسی پر اظہار خیال
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
18 سالہ نوجوان کی پٹائی
مجھے گرفتار کر کے اسی افسر کے پاس لے گئے اور اس کے حکم پر مجھ پر تشدد کیا۔ وہ مجھے لٹا کر میری ٹانگوں پر کوڑے برساتے اور پھر اس لیے کہ میری ٹانگوں پر سوجن نہ آئے، مجھے بھاگنے کو کہتے؛ زمین بھی ریتلی تھی، میں ٹانگوں کے اس درد کے ساتھ بہت مشکل سے بھاگ پاتا،"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

