خشاب ھای پر از تکبیر[تکبیروں سے بھرے (بندوق کے) میگزین]
محیا حافظی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-10-1
کتاب ’’خشابھای پر از تکبیر(تکبیروں بھرے میگزین)‘‘، سپاہ پاسداران کے کرنل قدرت اخریان کی یادیں، کو سن 2022 میں ’حفظ آثار و نشر ارزش ھای دفاع مقدس(فاؤنڈیشن)‘ آذربایجان غربی نے شائع کیا۔ انٹرویو اور کتاب کی ایڈیٹنگ کو ژیلا مُرادی نے انجام دیا ہے۔ کتاب کے سرورق پر راوی کی جزیرۂ مجنون(1985) میں گردن میں گیس ماسک پہنے تصویر موجود ہے۔
یہ کتاب، راوی کی تحریر سے شروع ہوتی ہے اور اس میں ان کی 1964 سے 2021 کی یادیں ہیں۔ کتاب میں مقدمے اور پیش لفظ کے بعد 26 ابواب ہیں، جن کے ساتھ تصاویر، دستاویزات اور فہرست اعلام کو ضمیمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس کتاب کو لکھنے کے لیے 2 گھنٹے کے 40 انٹرویو سیشنز اور 85 سے زیادہ ضمنی اور اصلاحی سیشنز منعقد کیے گئے ہیں۔
راوی، شرقی آذربائیجان(ہشترود) میں پیدا ہوئے۔ وہ 2 سال کے تھے جب ان کے گھر والوں نے ارومیہ ہجرت کی۔ انہوں نے اپنے والد سے اس ہجرت کی وجہ کچھ یوں سنی تھی: ’’اس زمانے میں گویا رواج تھا کہ گاؤں کی خواتین باری باری وڈیرے(خان) کے گھر کے کام کرنے جاتی تھیں۔ جب میری والدہ کی باری آئی تو میرے والد نے اجازت نہیں دی کہ وہ وڈیرے کے گھر کے کام کرنے جائیں۔ یہ بات میرے والد اور وڈیرے کے درمیان کشیدگی کا باعث بنی۔ وڈیرہ جانتا تھا کہ اگر اس نے کچھ نہ کیا تو ممکن ہے کہ دوسرے گاؤں والے بھی ایسا کریں۔ اس نے میرے والد کی ساری جائیداد ضبط کرلی اور انہیں گاؤں سے نکال دیا۔‘‘ انقلاب اسلامی کی کامیابی تک راوی اپنے بھائی کے سلائی کے کارخانے میں کام کرتے تھے۔
1978 کے موسم خزاں میں، جس دکان میں راوی کے بھائی کا کارخانہ تھا اس کا مالک ریڈیو سن رہا تھا۔ راوی نے اس سے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا: خبریں سن رہا ہوں۔ انہوں نے امام خمینی(رہ) کا نام خبروں میں سنا اور عسکر صاحب سے ان کے بارے میں پوچھا۔ اس کے بعد انہوں نے خبریں سننا شروع کردیں اور اپنے مسجد کے دوست کے بلاوے پر دکان کے قریب ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی۔ آخر میں گرفتاری کے ڈر سے ننگے پاؤں دکان تک پہنچے۔ پھر وہ’اعظم‘ مسجد زیادہ جانے لگے اور انقلابی تحریک کے امور میں شرکت کرنے لگے۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد، راوی کا سپاہ میں بھرتی ہونے کا بہت دل تھا۔ سن 1981 کے وسط میں، حسین علائی صاحب نے جامع مسجد میں تقریر کی، جو اس وقت، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ارومیہ کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے جوانوں سے سپاہ میں بھرتی ہونے کو کہا؛ یہاں تک جن لوگوں نے لازمی ملٹری سروس بھی نہیں کی تھی وہ بھی بھرتی ہوسکتے تھے۔ یہ بات راوی کے اپنے گھر والوں سے بات کرنے کی سند بن گئی تھی۔
اس کے بعد، وہ اپنی اہواز اور محاذ پر تعیناتی سے لے کر چھٹی اور گھر والوں کے بارے میں کہتے ہیں: ’’جب میں دوسری بار گھر لوٹا تو حامد بڑا ہوچکا تھا اور بیٹھنے لگا تھا۔ تیسری بار وہ گھٹنیوں چلنا سیکھ رہا تھا۔ آخری بار جب میں جنوب اور سنندج سے واپس آیا تو حامد باآسانی گھٹنیوں چل رہا تھا۔ جب میں اس کے پاس گیا تو وہ مجھ سے دور بھاگ گیا۔ میرے مالک مکان ’’جلال مشہدی‘‘ نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے: ’’بھائی جان! تم اس طرح چھٹی پر آیا کرو کہ تمہارا بچہ کم از کم تمہیں پہچان تو لے۔‘‘
کچھ عرصے بعد، دزفول بیس میں اپنے دوست کی فون کال کے ذریعے انہیں پتہ چلا کہ ان کے والد کے گھر پر بمباری ہوئی ہے۔ اسی رات وہ اپنی بٹالین سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے حوالے سے بے فکر ہوجاتے ہیں، لیکن جب وہ ارومیہ جاتے ہیں تو شہر میں ہُو کا عالم تھا۔ یہ بیان کتاب کے پس ورق پر بھی موجود ہے: ’’تندوروں اور ضروری جگہوں کے علاوہ پورا شہر بند پڑا تھا اور سب لوگوں نے آس پاس کے دیہاتوں میں پناہ لے لی تھی۔ بمباری کو تین چار دن گزر چکے تھے۔ میں پیدل ہی وحدت روڈ چلا گیا۔ روڈ پر کوئی نہیں تھا۔ وہاں سے قہرمانی گلی قریب تھی۔ میں اپنی گلی تک پہنچا۔ گلی میں ایک دو لوگوں نے پک اپ ٹرک میں پیچھے کچھ رکھا اور جلدی سے چلے گئے۔۔۔ میں نے آدھی وردی اور آدھا عام لباس پہنا ہوا تھا۔ میرے پیروں میں بوٹس تھے اور میرے پاس بیگ تھا۔ اگر کوئی مجھے دیکھتا تو اسے پتہ چل جاتا کہ میں جنگی علاقے سے واپس آیا ہوں۔ گلی کے کونے پر ہمارے گھر کے بالکل سامنے ایک گاڑی پر بم گرا تھا اور وہ پوری طرح جل چکی تھی اور اس کی چیسس وہیں تھی۔‘‘
جولائی 1988، قرارداد کو قبول کرنے کے ایک ہفتے بعد، جنگی علاقے میں گولہ باری ہوئی۔ راوی کہتے ہیں ہمیں جواب دینا تھا۔ گولہ بارود ختم ہونے کے بعد حمید مسلسل ڈائریکشنز بتا رہا تھا اور فائرنگ کروانا چاہتا تھا۔ وہ وائرلیس پر کہتا تھا 10 مارو۔ میں کہتا تھا راجر(سمجھ گیا)۔ 20 مار دیے۔ میں ہر بار اللہ اکبر کہتا تھا۔ میرے پاس گولہ بارود نہیں تھا اور میں اس سے جھوٹ بول رہا تھا۔ میں صرف تکبیر بلند کرتا تھا لیکن مارٹر گولہ نہیں نکلتا تھا۔ سلماس بٹالین بلندی سے ہمیں کَوَر دے رہی تھی اور گولے فائر کر رہی تھی۔ میں صرف تکبیر کہہ کر ان کی مدد کر رہا تھا۔
کرنل اخریان کا سن 1995 کا اہم مشن، ارومیہ میں پولیو ویکسین کی مہم تھا۔ یہ مہم، وزارت صحت کی تھی اور انہوں نے سپاہ کے سربراہان سے طے کیا تھا کہ اس مہم کو بسیج کو شامل کرتے ہوئے چلایا جائے۔ ایک بٹالین تشکیل دے دی گئی اور 10 افراد پر مشتمل 25 گروپس نے اس کام کو انجام دیا۔
آخر میں راوی خاندان کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کہ میں صرف چھٹی کے دنوں میں ہی گھر میں ہوتا تھا لیکن پھر بھی میں اپنے 2 بیٹوں اور 2 بیٹیوں کی تربیت سے غافل نہیں تھا۔ انہوں نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ ان کے بچوں کو محبت کی کمی محسوس نہ ہو۔
صارفین کی تعداد: 46








گذشتہ مطالب
- خشاب ھای پر از تکبیر[تکبیروں سے بھرے (بندوق کے) میگزین]
- گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
- بعقوبہ کیمپ میں گمنام قیدیوں کے درمیان بیتے ہوئے کچھ ماہ
- منافقین کے بارے میں مطالعاتی کورس
- حاجی حسین فتحی کا حج سے واپسی پر اظہار خیال
- رونے کے بجائے ہنس رہی تھی
- مدرسہ فیضیہ کے حادثے کے بارے میں ڈاکٹر باقر کتابی کی روایت
- سردار محمد جعفر اسدی کی یادوں سے
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

