حاجی حسین فتحی کے بیانات سے اقتباس
گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2025-9-28
اہواز شہر کے محلے "کمپ" کی مسجد صاحب الزمان ہماری خاموش سرگرمیوں کا مرکز تھی جو اب افشا ہو چکی تھی۔ برادر خانی اور ان کے دوستوں کی مدد سے ہم نے گرما گرم کھانا تیار کر کے مورچوں کی طرف روانہ کیا۔ ہم خود بھی گلی کوچوں کے جوانوں اور بازاروں میں کام کاج کرنے والے برادران کے ساتھ جنگی علاقے میں پہونچے اور اوور کوٹ، جرابیں اور گرم کپڑے سپاہیوں میں تقسیم کیے اور مسجد واپس آگئے اور پھر سے جنگی متاثرین اور بے گھر افراد کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ متفقہ طور پر طے پایا کہ کھانا تیار کرتے وقت ایک دیگ اضافی بنائی جائے اور اسے جنگی متاثرین اور بے گھر افراد میں تقسیم کیا جائے ۔ پرویز اپنے پک اپ ٹرک میں محاذ سے مسجد تک اور مسجد سے ان محلوں میں جہاں جنگی متاثرین اور بے گھر افراد ٹھہرے ہوئے تھے مسلسل جاتا اور ہر بار کئی دوست یار اس کے ساتھ کھانا تقسیم کرنے جاتے۔ ہماری ان مصروفیات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور رفتہ رفتہ مسجد سپاہیوں کے لیے چھاؤنی میں بدلتی جا رہی تھی۔ ہم نے مسجد کے ساتھ ہی چند شاور لگائے اور سونے کی جگہ بھی بنا دی تاکہ اہواز میں جس کو بھی رات گزارنی ہو وہ نہا دھو کر صاف کپڑے پہن سکے۔
ہم نے جلد خراب ہونے والی چیزوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے کچھ ریفریجریٹرز اور فریزر خریدے۔ برادر خانی نے سپاہیوں کے لیے نہانے دھونے، ان کی بنیانیں جرابیں دھونے اور کبھی کبھی گرم کپڑے تیار کرنے کے فرایض بھی سنبھالے ہوئے تھے اور کھانے پینے اور بنیادی ضروریات کی اشیاء سے بھرے ٹرک تہران اور دیگر شہروں سے مسجد میں بھیجے جاتے۔ تھوڑے عرصے بعد، ہم نے سوسنگرد میں ایک جگہ بنائی تاکہ وہاں سوسنگرد اور کرخہ کے آس پاس سپاہیوں کے لیے کھانا بناکر ان میں تقسیم کیا جاسکے۔ شہید چمران گروپ [1]، جسے غیر منظم جنگی ہیڈکوارٹر کہا جاتا تھا، عراقی فوج کے ساتھ گوریلا جنگ لڑتے ہوئے اس علاقے میں موجود تھا، اور رفتہ رفتہ جنگ میں شدت آگئی، اور تہران کی زامیاد فیکٹری سے کچھ برادران اہواز آئے اور سوسنگرد پل کے ساتھ والے اسکول میں پڑاؤ ڈالا۔ وہ سپاہیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ضروری کام انجام دیتے تھے۔ مقامی لوگوں نے سپاہیوں اور جنگی زخمیوں کی مدد کے لیے " زینبیہ" کے نام سے طبی کیمپ بھی بنا ڈالا۔
میں نے محسوس کیا کہ ہمیں سپاہیوں کے لیے پینے کے پانی اور نہانے دھونے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر پانی کے ٹینکرز کی اشد ضرورت ہے۔ میں نے زامیاد فیکٹری کے برادران سے رابطہ کیا اور اپنی تجویز ان کو پیش کی جس پر یہ طے پایا کہ میں لوہے کی چادریں فراہم کروں گا اور وہ پانی کے ٹینکر بنانے کے لوازمات لے کر آئیں گے اور یہیں پر مختلف علاقوں کے لیے پانی کے ٹینکر بنائیں گے۔ میں نے عمومی بسیج کے سرکردہ برادران سے رابطہ کیا اور لوہے اور جستی (گالوانائیز)کی چادروں کی درخواست کی۔ انہوں نے متعلقہ شعبہ سے بات کی اور کافی مقدار میں چادریں تیار کر کے ہمارے پاس بھیج دیں۔ جب چادریں اور ٹینکر بنانے کا سامان آیا تو روزانہ 2000 لیٹر والے چھے ٹینکر بنائے گئے اور ہم نے ہر علاقے کی ضروریات کے مطابق ٹینکر مختلف مقامات پر بھیج دئیے۔ دھیرے دھیرے ہم نے آرڈرز لیے تاکہ جب ہم اگلے مورچوں یا جنگی علاقوں کا جائزہ لینے جائیں، جہاں بھی ٹینکر کی ضرورت ہو، ہم وہاں کے انچارج کو حکم دیں تو وہ جا کر ٹینکر اٹھا لے۔
ایک دن شام کے وقت گیلان سے چاول کا ٹرک آیا۔ ڈرائیور مسجد میں آیا اور بولا ٹرک جلدی خالی کریں، ہمیں واپس جانا ہے"؛وہ بہت جلدی میں تھے۔ میں نے جوانوں سے کہا کہ جلد از جلد ٹرک سے سامان اتار دو اور ساتھ ہی ڈرائیور سے کہا کہ شاید آپ لوگ سہ راہے چوک سے گزر نہ پائیں ۔ وہاں سےرات کو ٹریفک گزرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر آپ نہ جا سکے تو رات کو یہیں واپس آجائیں اور صبح تک آرام سے سو جائیں ۔ اس نے سمجھا کہ میں اسے خواہ مخواہ روکنا چاہتا ہوں، اس نے ہمارا سامان اتارا اور جلدی سے واپس روانہ ہو گیا۔ ایک گھنٹے بعد وہ دوبارہ آ گیا اور سر جھکائے بولا کہ آج رات رہنا ہے اور سونے کے لیے جگہ چاہیے۔ میں نے اسے مسجد میں رات گزارنے کے لیے ایک کمبل دیا۔ اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا جو بظاہر اس کا شاگرد لگ رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے، انہوں نے کمبل اٹھائے اور بستر لگا دیا۔ اس رات، میں شادگان آنے والے بے سرو سامان افراد کے لیے سامان لے کر ان کے پاس لے جانا چاہتا تھا۔ سامان تیار ہو چکا تھا لیکن ہمارے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی۔ میں نے مسجد میں سلائی کی ایک چھوٹی سی میز لگا رکھی تھی اور اس پر مٹی کے تیل کا چراغ جلا کر سامان کی فہرست لکھ رہا تھا۔ ڈرائیور اور اس کا شاگرد میرے پاس بیٹھ گئے اور پوچھا: "تم کیا کر رہے ہو؟ "میں نے پلٹ کر پوچھا، "کیا آپ یہاں پہلے نہیں آئے ہیں؟ پہلی بار محاذ پر آئے ہیں؟" اس نے "ہاں" میں جواب دیا۔ میں نے کہا، "میں آپ کی واپسی کے اصرار کو سمجھتا ہوں، میں نے آپ سے بار بار کہا کہ آپ رات کو اس علاقے سے باہر نہیں جا سکتے،لیکن آپ نے میری بات نہیں مانی۔" میں نے ان کو جنگی صورتحال ، بےگھر ہونے والوں افراد اور ہم جو کام کر رہے تھے اس کے بارے میں بتانا شروع کیا اور کہا کہ: "یہاں دو دل دہلا دینے والے حالات ہیں، ایک یہ کہ سرحدوں اور مورچوں پر جان ہتھیلی پر رکھ کر کچھ لوگ لڑ رہے ہیں اور اپنی روزمرہ کی خوراک میں بھی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن وہ تمام پریشانیوں کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں تاکہ دشمن ہمارے ملک میں داخل نہ ہونے پائے، دوسرا یہ کہ دشمن نے سرحدوں پر گولہ باری کی ہے جس سے وہاں کے مقامی لوگ عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان ، سبھی بے گھر ہو گئے ہیں اور ان کی امید سب سے پہلے خدا ہے، پھر لوگ؛ وہ لوگ جو دور دراز کے شہروں میں سکون سے رہ رہے ہیں، میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہے اور پھر واپسی کے لیے بھی ہمیں رات کو سفر کرنا پڑتا ہے، اس لیے میں ابھی لسٹ تیار کر رہا ہوں تاکہ کل ایک گاڑی کا انتظام ہوتے ہی روانہ ہو سکوں"۔
اس نے پوچھا: " تو کیا آپ کے پاس گاڑی نہیں ہے؟" میں نے نفی میں جواب دیا۔ اس نے تجویز پیش کی: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو لے جاؤں؟" میں نے اس کے ماتھے کو چوما اور شکریہ ادا کیا اور کہا، "تو پھرابھی سو جانا بہتر ہے تاکہ ہم صبح کی نماز کے بعد نکل سکیں۔" میں نے لالٹین بجھا دی اور ہم میں سے ہر فرد کمبل لیا اور ہال کے ایک ایک کونے میں سو گیا۔ صبح کی نماز کے بعد ہم شادگان کی طرف روانہ ہوئے۔ تہران بازار کے کئی لوگ وہاں انتظار کر رہے تھے۔ جب ہم سہ راہے سے گزرے تو اچانک میں نے ٹرک کے "سائیڈ مرر" میں دیکھا کہ کوئی شخص اپنا کوٹ اتار کر ہوا میں لہرا رہا ہے اور ہمیں کسی چیز کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم نے ٹرک روکا اور اسے ریورس گیئرمیں ڈال دیا. اس شخص نے پریشانی میں اونچی آواز سے پوچھا، "کہاں جا رہے ہو؟" میں نے کہا: " سربندر اور وہاں سے شادگان"۔ اس نے اسی انداز میں کہا : "تم سیدھے عراقی محاذ کی طرف جا رہے ہو، اگر تم کچھ سو میٹر آگے جاتے تو عراقی تمہیں پکڑ لیتے"۔ اس نے ہمیں درست راستے پر ڈالا اور ہم نے اللہ کے شکر کے ساتھ اس کا بھی شکریہ ادا کیا اوردوسرے راستے سے شادگان پہنچ گئے۔ ہم نے لوگوں میں سامان تقسیم کیا اور دوستوں سے ملاقات کے بعد اہواز واپس آگئے۔ ہم مغرب کے وقت مسجد پہنچے۔ میں نے شروع میں جس شخص کو ڈرائیور کا شاگرد سمجھا تھا وہ " خوش قلب" نامی کوئی آدمی تھا، جو "رودبند لنگرود" کا رہنے والا تھا اور ڈرائیور کے ساتھ جنوبی علاقے کی صورتحال دیکھنے آیا تھا۔ اس نے پوچھا کہ یہ سامان کہاں سے لا رہے ہو؟ میں نے کہا کہ تہران میں ہم مساجد اور اجتماعات میں جنگی محاذوں، سپاہیوں اور جنگی متاثرین کی ضروریات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں اور بازار کے برادران اور مختلف عوامی طبقات کی اسلامی انجمن کی طرف سے ہمیں جو بھی مدد ملتی ہے ہم جمع کرتے ہیں اور اسے یہاں تک پہنچاتے ہیں۔ لوگ کسی چیز سے دریغ نہیں کرتے، وہ ہمیں رقم اور ضرورت کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ہم کوئی بڑا کام نہیں کر رہے، لوگ تحفے دیتے ہیں اور ہم ان کو شایستہ افراد تک پہونچا دیتے ہیں ۔ اگر آپ رکنا چاہتے ہیں تو ہم کل اس امداد کا ایک اور حصہ متعلقی علاقے میں لے جائیں گے۔
وہ دونوں افراد جو اس رات اتنی جلدی میں تھے اور رات کو ہی واپس جانا چاہتے تھے، اب وہ کئی دنوں کےلیےٹھہرگئے اور ہم ان کے ٹرک کے ذریعے تمام علاقوں میں ضروری سامان لے جاتے۔ خدا حافظی کرتے وقت خوش قلب صاحب نے کہا: "جب میں لنگرود پہنچوں گا تو میں اپنے ہم شہریوں کو وہ سب بتاؤں گا جو میں نے دیکھا ہے اور سامان کے ساتھ واپس آؤں گا۔" ان کے جانے کے بعد ہم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تہران واپس آگئے۔ اگلے ہفتے جب ہم اہواز واپس آئے تو میری نگاہ خوش قلب صاحب پر پڑی جو ملک کے شمال سے سامان کے گیارہ ٹرک لے کر مسجد پہونچے ہوئے تھے۔ وہ مدد کے لیے آبادان جانا چاہتے تھے لیکن آبادان محاصرے میں تھا اور شہر میں داخل ہونے کا واحد راستہ پانی تھا اور اسی راستے سے ضروریات زندگی کا سامان پہونچانا ممکن تھا۔ خوش قلب نے وہ سامان کشتی کے ذریعے آبادان پہونچایا اور دس دن کے بعد واپس آیا اور کہا: "آبادان شہر کو مدد کی اشد ضرورت ہے، میں دوبارہ آؤں گا اور سیدھا آبادان جاؤں گا۔"[2]
[1] شہید مصطفی چمران، وزیر دفاع اور فاسد جنگی ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر، جو "دہلاویہ" میں شہید ہوئے۔
[2] آغا میرزائی، محمد علی، سرائے سلیمان خان، خاطرات حاج حسین فتحی، پیش کسوت بسیج اصناف بازار، فاتحان پبلشنگ، 2012، صفحہ۔ 123.
صارفین کی تعداد: 83








گذشتہ مطالب
- خشاب ھای پر از تکبیر[تکبیروں سے بھرے (بندوق کے) میگزین]
- گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
- بعقوبہ کیمپ میں گمنام قیدیوں کے درمیان بیتے ہوئے کچھ ماہ
- منافقین کے بارے میں مطالعاتی کورس
- حاجی حسین فتحی کا حج سے واپسی پر اظہار خیال
- رونے کے بجائے ہنس رہی تھی
- مدرسہ فیضیہ کے حادثے کے بارے میں ڈاکٹر باقر کتابی کی روایت
- سردار محمد جعفر اسدی کی یادوں سے
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

