طاہر اسداللہی کی کتاب "برادران قلعہ فراموشان" پر ایک نظر
بعقوبہ کیمپ میں گمنام قیدیوں کے درمیان بیتے ہوئے کچھ ماہ
انتخاب: جعفر گلشن روغنی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2025-9-25
"صبح ، دبلے پتلے اور سفید چہرے والے کیپٹن، جس کی عمر 25 یا 26 سال تھی ، نے اعداد و شمار لیے اور ناشتے کے بعد سب کے سامنے کمر پر ہاتھ رکھ کر ٹہلتے ہوئے بولا: "کل سے تم نے اٹھتے بیٹھتے "مرگ بر خمینی" کہنا ہے ورنہ تمہارا وہ حال کروں گا کہ تم موت کی تمنا کرو گے۔" کیا ہم امام کی توہین کر سکتے تھے؟! ہم سب امام خمینی کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنے لوگوں اور سرزمین کے دفاع کے لیے عراقی فوجیوں کے مدمقابل کھڑے تھے اور اپنے پیاروں کے آرام اور سکون کی خاطر سب سے سخت دنوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے ۔ بیرک کے انچارج نے قیدیوں سے بات چیت کی تاکہ ایسا راہ حل نکالا جائے تا کہ اس عراقی افسر کی بات پر بظاہر عمل بھی ہو جائے اور کسی کو سزا بھی نہ ملے، سب نے جو اپنے افکار انڈیلے تو نتیجہ یہ نکالا کہ ہم اٹھتے بیٹھتے کہیں گے: "مرد است خمینی"؛ یعنی "خمینی مرد ہے"۔ اگلے دن، وہی کیپٹن ایک اور بد اخلاق عراقی افسر، جس کا نام ھیاوی تھا، کے ساتھ آیا اور ہمارے سامنے کھڑا ہوا، اور جب اس نے دیکھا کہ ہم اٹھتے بیٹھتے وہی نعرہ لگا رہے ہیں جو وہ چاہتا تھا تو وہ خوشی اور اطمینان سے دوسری بیرکوں میں چلا گیا۔ دو دن بعد ہی کیپٹن آگ بگولہ ہوئے ہمارے پاس آیا اور ہمارے نعروں کو غور سے سنا، اور جب اسے معلوم ہوا کہ ہم اس کو دھوکہ دیا ہے تو اس نے افسر ھیاوی اور سپاہی کاظم سے کہا کہ ایک ایک کر ہمیں لائن سے باہرنکالے تاکہ اس کے سامنے ہم " مرگ بر خمینی" کے کا نعرہ لگا ئیں۔۔۔ ھیاوی نے ایک سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان کو گریبان سےپکڑا اور امام کی توہین کرنے کو کہا ؛ نوجوان نے انکار کر دیا، جس پر اس افسر نے اپنا حکم دہرایا اور کہا : "توہین کرو اور اپنی جان چھڑا لو"۔ یہ سن نوجوان نے کہا: "پہلے تم کہو "مرگ بر صدام"؛ پھر میں کہوں گا.. ھیاوی اور سپاہی کاظم نے نوجوان قیدی کو بہت مارا ،یہاں تک کہ اس کے سر اور چہرے سے خون بہنے لگا... اور پھر وہ لوگ گروپ 14 اور 15 کے جوانوں کو چار گھنٹے تک سینے کے بل لٹا کر گھسیٹتے رہے اور ھیاوی اور کاظم تار سے بنے ہوئے تازیانے ان پر برساتے رہے۔ جب کیمپ کا انچارج تھک گیا تو قیدیوں کے سارجنٹ کے پاس گیا اور اس سے "مرگ بر خمینی" بولنے کو کہا! اس نے اونچی آواز میں دو مرتبہ کہا: "مرگ بر صدام"؛ پھر بولا :"تمہیں کس نے یہ حق دیا ہے کہ مجھ سے میرے رہبر کی توہین کرواو؟"۔
مذکورہ بالا واقعہ طاہر اسداللہی کی کتاب سے ماخوذ ہے جس کا عنوان ہے: "برادران قلعہ فراموشان"، اس کے مصنف 30 فیصد جنگی معذور ہیں اور ان کی اس کتاب کو سورہ مہر پبلی کیشنز نے 2024کے موسم سرما میں ساسان ناطق کی کاوش سے شائع کیا ہے۔ راوی اکتوبر 1965میں اردبیل میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سپاہی کے طور پر ذوالفقار رینجرز کی 58ویں ڈویژن کی 183ویں بٹالین میں 27 ماہ خدمات انجام دیں۔ 27 جولائی 1988 کو، اپنی سروس کے آخری ایام میں، اور جنگ بندی کے اعلان کے چند دن بعد، انہیں بعثی قوتوں نے کرمانشاہ کے سرحدی علاقے "نفت شہر" میں اس وقت پکڑ لیا جب وہ گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے ۔ انہوں نےانتہائی کرب و تکلیف اور ذلت و خواری میں 25 ماہ عراقی بعثیوں کی قید میں گزارے۔ ، اور آخرکار 13 ستمبر 1990 کو رہا ہو کر وطن واپس آ ئے۔ اگرچہ ان کی 125 صفحات کی یادداشتیں حجم میں زیادہ بڑی نہیں لگتی ہیں، لیکن وہ اہم ضرور ہیں۔ انہوں نے بعقوبہ کیمپ میں ایرانی قیدیوں کی اسیری کے حالات پر قلم اٹھایا ، جو خاص طور پران ایرانی قیدیوں کے لیے تھا جن کا نام اتہ پتہ کچھ بھی ریکارڈ میں نہیں رکھا جاتا تھا۔
راوی ایک ایسی جگہ کا ذکر کرتا ہے جس میں ایک ہزار لوگوں کے لیے چار شیڈ اور پانچ سو لوگوں کے لیے الگ چار شیڈ تھے۔ اور یہ ریڈ کراس کے زیر نگرانی کیمپوں کی فہرست میں شامل نہیں تھے اور کئی ہزار ایرانی قیدی، بعثیوں کے چنگل میں زندگی کے انتہائی کٹھن ایام گزار رہے تھے۔ افسران، جیل کے محافظوں، اور کیمپ کے اہلکاروں نے جو چاہا وہ ان قیدیوں کے ساتھ سلوک کیا اوریہ لوگ کسی اصول، قانون یا بین الاقوامی ضابطے کے پابند نہیں تھے۔ عراقی افسر نے ہمارے بارے میں کہا کہ ہم لاپتہ قیدی ہیں، اور ریڈ کراس اور ایران نہیں جانتے کہ ہم زندہ ہیں یا مر چکے، اور وہ (عراقی) جیسا ان کا جی چاہے ہمارے سلوک کر سکتے ہیں۔ (ص 52)
اس کتاب کی تشکیل کے طریقے میں کچھ قابل ذکر نکات ہیں، جن پر (یادداشتوں )واقعات کی وثاقت اور حوالہ جات کے لحاظ سے غور کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کتاب کے مقدمے کے مطابق یہ یادداشتیں آقائے ساسان ناطق نے 10 گھنٹے اور 41 منٹ کے انٹرویو کے دوران حاصل کیں۔ یادداشتوں کے متن کو تقویت دینے کے لیے ان کے دو گواہوں اور ساتھیوں شہرام الطافی اور علی اصغر خانی، جو دونوں بعقوبہ کیمپ میں قید میں تھے، سے 1 گھنٹہ 26 منٹ تک انٹرویو کیا گیا اور مذکورہ بالا انٹرویوز کی بنیاد پر کتاب مرتب کی گئی۔ بالآخر، کتاب ان روایات یا واقعات کو کہانی کی صورت میں بیان کرتی ہے جس کے 19 ابواب ہیں۔
پہلے باب میں فوجی دور کی یادیں اور قید ہونے کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں مصنف نے گھریلو حالات اور خاندان کے افراد کی تعداد، والد کی ملازمت اور اردبیل میں طرز زندگی کو بیان کیاہے۔ اسی طرح ہر دوسرے باب میں قید کے زمانے کے حالات اور فوجی دور تک کے سالوں کو مرحلہ وار بیان کیا گیا ہے؛ یعنی کتاب کے طاق نمبر ابواب میں قید و اسارت کے دور کی یادیں شامل ہیں، اور جفت نمبر ابواب میں بچپن کی گھریلو یادوں سے لے کر محاذ پر آنے تک کے واقعات درج ہیں ۔
اگرچہ کتاب میں پیش کیا گیا متن اور مواد راوی کی یادوں کا نتیجہ ہے لیکن قلم اور تحریر کا انداز بتاتا ہے کہ متن کو کہانی یا داستان سے مشابہ تحریر کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتاب ایک "یادوں کی کہانی" ہے، لیکن کتاب کی ادبیات اور تحریر میں بہت ساری ظاہری و باطنی خوبصورتیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ متن مکمل طور پر تاریخی نہیں ہے اور نہ ہی راوی کے الفاظ، جملات اور گفتگو کا نتیجہ ہے۔
اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اس بات کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ راوی اردبیل میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہے اوراس کی مادری زبان آذری ہے۔ دوسری طرف مصنف بھی آذری ہے اس لیے انٹرویو غالباً آذری زبان میں لیا گیا تھا۔ مصنف نے اپنی فہم و فراست سے متن کا فارسی میں ترجمہ کر کے کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے مگر کچھ آذری الفاظ اور جملے کتاب میں باقی ہیں اور ان کے ترجمے حاشیہ میں دیئے گئے ہیں۔ طرز تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ الفاظ اور جملے راوی کے اظہار کی قطعی عکاسی نہیں کرتے، بلکہ مصنف کے قلم اور طرز تحریر کے عکاس ہیں، حالانکہ وہ راوی کی یادوں پر مبنی ہیں۔ متن کی پیشکش اور تحریر میں مصنف کا کردار بالکل واضح ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مصنف نے کتاب کے تعارف میں انٹرویو کی آذری زبان کا ذکر نہیں کیا۔
کتاب کی خوبیوں اور چھوٹی چھوٹی خامیوں کے بارے میں بھی کچھ نکات بیان کیے جا سکتے ہیں۔ شروع میں مصنف نے کتاب کے عنوان اور یادداشتوں کے لیے اس عنوان کے انتخاب کے بارے میں کچھ نہیں کہا، ایک ایسا عنوان جو بظاہر ہمیں افسانوی کتابوں کی یاد دلاتا ہے۔ مناسب ہو تاکہ کتاب کے تعارف میں اس نام کے انتخاب کی وجہ بتا ئی جاتی۔
صفحہ 24 پر، ہمیں ایک عجیب جملہ ملتا ہے: " میرے والدکو بینک سے 100,000 تومان قرض لیے کئی ماہ بیت چکے تھے۔ وہ ہمارے گھر میں ایک تہہ خانے اور پہلی منزل اور سڑک کے رخ دو دکانیں بنانے کے لیے مزدوروں اور مستریوں کو لائے، " یہ جملہ ذہن میں سوال پیدا کرتا ہے: کیا پہلی منزل پہلے نہیں بنائی جاتی تاکہ پھر اس پر باقی منزلیں بنائی جائیں؟ بعد میں گھر کی پہلی منزل کیسے بنائی گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مصنف نے پہلی منزل کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی بات نہیں کی بلکہ مراد تعمیر شدہ پہلی منزل کا بچا کھچا یا اصلاحی کام تھا ۔ ایک صفحے کے بعد، ہمیں ایک عربی فقرہ ملا جو غلط طریقے سے درج اور نقل کیا گیا ہے: "ایرانی قیدی، تم محفوظ ہو، یا اللہ، روح۔" ایسا لگتا ہے کہ "یا اللہ" کی ریکارڈنگ غلط ہے۔ اس کی اصلاح ئوں ہوگی کہ جس عراقی سپاہی نے ایرانی قیدی کو پکڑا ہے اس کا مطلب ہے "یالہ" یعنی جلدی کرو۔ اور جملہ "یالہ روح" کا مطلب ہے "جلدی جاؤ۔"
کتاب کے صفحہ 27 پر، راوی، عراقی فوجیوں میں سے ایک فوجی سےبات کرتا ہے جو پلٹ کر اس سے ترکی میں بات کرتا ہے۔ "ایک افسر بڑبڑاتا ہوا ہماری طرف آیا، جس کی عمر 45 سال کے لگ بھگ تھی، جب وہ آیا تو اس نے ترکی زبان میں پوچھا: کیا ہم میں کوئی ترک ہے؟ میں نے کہا: میں ترک ہوں"۔ اس نے پوچھا: "یہ دونوں ترک نہیں ہیں کیا؟ " میں نے کہا :"وہ بھی ترک ہیں"؛ تو اس پر اچانک اس نے صدام پر لعنت بھیجنا شروع کر دیا اور امام خمینی کے حق میں دعا کی۔ جب اس نے ہماری حیرت کو دیکھا تو اس نے کہا: "ڈرو نہیں، میں عراق کے شیعہ ترکوں میں سے ہوں۔" اب یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ عراق میں ترک باشندے نہیں ہیں، بلکہ ترکمنی زبان بولنے والے ترکمان ہیں، اور ان کی زبان اور ترکی زبان میں کافی شباہت پائی جاتی ہے۔ ایران کے ترکمنوں کے برعکس، جو سنی ہیں، اورعراق کے ترکمان شیعہ ہیں اور خاص طور پر عراق کے شمالی صوبوں اور کرکوک کے قریب "طوزخرما" شہر میں رہتے ہیں۔
صفحہ 45 پر راوی نے اپنے پرائمری اسکول کے دنوں کی یادیں بیان کرتے ہوئے تین بار "جعفر اسلامی اسکول" کا ذکر کیا ۔ آڈیو ریکارڈنگ میں تینوں بار اسکول کا نام درست نہیں لیا گیا؛ اسکول کا درست نام "جعفری اسلامی اسکول" ہے۔ یہ اسکول ملک کے ان قومی اسکولوں میں سے ایک ہے جسے مرحوم حاجی شیخ عباس علی اسلامی نے 1941 کی دہائی میں طلبہ کو مناسب مذہبی تعلیم فراہم کرنے کے لیے تعمیر کیا تھا۔ اردبیل میں، یہ اسکول بھی 1962 میں "اوچدیکان" محلے میں مسجد کے ساتھ واقع حاجی شیخ صادق کے گھر میں قائم کیا گیا تھا، جو شہر کے پرانے محلوں میں سے ایک ہے۔
صفحہ 47 کی آخری سطر میں ایک ناقابل یقین جملہ بھی سامنے آتا ہے: "میرے والد گھر آئے، ان کے ہاتھوں میں ایک مچھلی تھی جس کا انہوں نے خود شکار کیا تھا اور ناقابل یقین بات یہ ہے کہ اس مچھلی کی لمبائی تقریباً 4 میٹر تھی! وہ ایک بڑی مچھلی کا شکار کر کے خوش تھے اور میں اسے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا"۔ 4 میٹر لمبی مچھلی !حقیقت سے بہت دور کی بات لگتی ہے اور وہ بھی دریائے خزر ( بحیرہ کیسپین ) میں!۔ صفحہ 99 کے وسط میں، جب راوی اپنے ہائی اسکول کے دنوں اور الجبرا کے استاد کی کم علمی کے بارے میں بات کر تا ہےتو اچانک ایک غیر متعلقہ عبارت کا سامنا ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ نمونہ پڑھنے اور متن کی منتقلی کے مرحلے کے دوران نادانستہ طور پر ایسی غلطی ہوئی ہے، ملاحظہ کریں: "چند طلباء نے پرنسپل کو بتانا چاہا کہ یہ استاد الجبرا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ، بہتر ہوگا کہ ہمیں کوئی دوسرا استاد دے دیں۔ کبھی کبھی، بھائی تعارف اور خلیل پاسداروں کے کام کی سختی کے بارے میں بات کرتے، اور ان کی انہی باتوں سے مجھے پاسداروں سے ہمدردی سی ہو گئی تھی۔ استاد کے گھر والے استاد کی اسی تنخواہ پر گزارا کرتے تھے اور اگر انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا تو یقیناً ان کے گھر والے مشکل میں پڑ جاتے۔"
لیکن اگر ہم کچھ صفحات پر ضروری وضاحتی حاشیہ کی کمی کو نظر انداز بھی کر دیں، جیسے کہ صفحہ 52 اور 53، اردبیل میں نیار گاؤں اور علی آباد چوک کے تعارف کے حوالے سے، کتاب کے آخر میں تصویروں کا انتہائی خراب معیار، اور انڈیکس (اعلانات کی فہرست) کی کمی، تو بھی کتاب کا بہترین، منفرد اور ارزشمند متن اس کی اہمیت کے لئے کافی ہے۔ اس تناظر میں صفحہ 38-51، 40، 89 اور 119 پر شہید قیدیوں کی یادیں اور ان کی شہادت کی کیفیت کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ یہ یادیں، جن میں سے کچھ بہت دردناک اور تکلیف دہ ہیں، ہمیں اس اہم مسئلے کی یاد دلاتی ہیں کہ بعثی کیمپوں میں شہید ہونے والے قیدیوں کی شناخت اور ان کے حالات کے بارے میں تحقیق ضروری ہے۔ وہ شہداء جو بہت کسمپرسی اور تنہائی کے عالم میں صعوبتیں سہتے ہوئے شہید ہو گئے۔ جیسے آپ ان سطور میں ملاحظہ کر یں: "تیسرے دن ہماری بٹالین کے دو جوانوں کو وہاں لایا گیا، ان کے بدن سوجھے ہوئے تھے اور ہاتھوں اور چہروں پر زخم تھے اور وہ خون کی الٹیاں کر رہے تھے؛ وہ ڈاکٹرز جو مہدی (حاجی علی خانی) کی شہادت کے بعد کافی مہربان ہو گئے تھے، ان کا معائنہ کرنے کے لیے آئے، ان کے چیک اپ کے انداز سے مجھے لگا کہ ان کو جوانوں کی بیماری کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی، اگلے دن صبح جب ہم جاگے تو کیا دیکھا کہ ان دو میں سے ایک جوان خون کی الٹی کرنے کے بعد شہید ہو چکا تھا۔ (ص 40)
اگرچہ کتاب کا تمام مواد خاص طور پر کتاب کے طاق نمبر کے ابواب میں ایام اسیری سے متعلق یادداشتیں قابل مطالعہ ہیں اور قیمتی معلومات پر مشتمل ہیں لیکن کچھ مقامات پر اس دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ پندرھویں باب میں شمالی ایران کے رہایشی ایک قیدی کا ذکر آتا ہے جس نے دو عراقیوں (افسر ھیاوی اور سپاہی کاظم) کو بہت مارا ، اتنا مارا کہ وہ دونوں مرتے مرتے بچے؛ ان کی پھینٹی لگا نے کے بعد اس نے کیمپ میں خود پاگل ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مذکورہ دو عراقی فوجیوں نے ایرانی قیدیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا، وہ ان پر ہر طرح کا ستم روا رکھتے تھے ۔ عراقیوں کی پٹائی کے بعد اس شمالی قیدی نے پہلے امام زمانہ ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خدائی کا دعوا کر دیا۔ ظاہری ہیکل میں مضبوط اور طاقتور یہ شمالی قیدی اصل میں تائیکوانڈو کا بھی ماہر تھا، اس نے موقع پاتے ہی پہلے سپاہی کاظم کو پکڑا اور اس کے چہرے اور سر پر لاتوں اور مکوں کی بارش شروع کر دی،" مارنے کا ساتھ ساتھ وہ بروسلی کی آوازیں بھی منہ سے نکال رہا تھا ، اس کےپہلے وار سے ہی جو کاظم زمین پر گرا تو پھر اس نے اسے اٹھنے ہی نہیں دیا، اس کے منہ اور ناک سے مسلسل خون بہہ رہا تھا"۔ (صفحہ 108-109) کچھ دنوں بعد، کیمپ کے بداخلاق عراقی افسر "ھیاوی" کی باری آگئی، مذکورہ قیدی نے اسے بھی بہت مارا، ھیاوی "مجھے بچاو؛ مجھے بچاو" کی فریاد بلند کر رہا تھا ۔ اسے بچانے کی غرض سے کاظم اور چند دوسرے سپاہی آ گئے،سپاہی کاظم نے خود تو آگے بڑھنے کی جرات نہیں کی لیکن باقی سپاہی شمالی قیدی سے افسر کو بچانے میں کامیاب ہو گئے اور قیدی کو دو دن کے لیے قید تنہائی میں ڈال دیا اور بہت مارا لیکن اس کے "پاگل" ہونے کی وجہ سے اسے بیرک میں واپس بھیج دیا" البتہ جب قیدیوں کی رہائی کی تاریخ کا اعلان ہوا تو شمالی قیدی نے سب قیدیوں کو بتایا کہ: " بھائیو !میری بات غور سے سنو؛ میں نعوذ باللہ نہ تو امام زمانہ ہوں اور نہ خدا، ایران جا کر آپ لوگ میرے پاگل ہونے کا ڈھنڈورا مت پیٹنا، خدا کی قسم میں پاگل نہیں ہوں، میرا مقصد ان (دو) ظالموں کی پھینٹی لگانا تھا ، کیونکہ وہ ہمارے جوانوں پر بہت ظلم کرتے تھے ور یہ کام میں بظاہر پاگل بن کر ہی کر سکتا تھا، میں سچ میں پاگل نہیں ہوں، براہ کرم آپ سب بھی مجھے پاگل مت سمجھیں (ص 130)
کیمپ کے حالات اور قیدیوں کی صحت اور کھانے پینے کے مسائل، قیدیوں میں جاسوسوں اور ضمیر فروش قیدیوں کی سرگرمیاں اور ان کے لیے عراقیوں کی مدد، کیمپ کی ڈسپینسری اور سٹی ہسپتال میں زخمی قیدیوں کے علاج ، قیدیوں کا ساتھ دینے والے چند عراقی شیعہ محافظوں کے حالات ، قیدیوں کو امام خمینی کی توہین کرنے پر مجبور کرنے،قیدیوں کی طرف سے عراقی ٹی وی چینل میں فنی خرابی ایجاد کر کے کیمپ میں ایرانی قومی ترانہ نشر کرنے، قیدیوں اور عراقیوں کے درمیان فٹ بال میچ، کربلا کی زیارت کے لیے جانے والے کچھ قیدیوں کی پٹائی اور قیدیوں کے درمیان امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی جھوٹی خبریں پھیلائے جانے جیسے کئی دیگر دلچسپ واقعات اس کتاب میں شامل ہیں۔ البتہ کتاب کا انیسواں باب، جو کہ آخری باب ہے، قید سے رہائی کے بارے میں ہے، جسے پڑھتے ہوئے قاری کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں؛ جیسے یہ تحریر ملاحظہ کریں: "ہمارے سونے کے لیے لحاف اور گدوں پر مشتمل بستر لگا دئیے گئے، میری نگاہ والدہ کے رنگین بستر پر پڑی،قید میں تو مجھے یہ بستر بھی بہت یاد آتے تھے، میں کھڑا ہو کر اپنی والدہ کے رنگین بسترکو دیکھتا رہا... میں لیٹنے ہی والا تھا کہ میرے بھائی "تعارف" نے میرا ہاتھ پکڑ کر آہستہ سے کہا، "ہماری ماں نے اتنے سالوں میں نہ تو گوشت کھایا ہے اور نہ ہی پیٹ بھر کر کبھی کھانا کھایا ہے۔ جب بھی ان سے کہا کہ اپنا خیال رکھیں اور کھانا ٹھیک سے کھالیں، تو ان کا یہی جواب ہوتا تھا کہ میرا بیٹا قیدمیں ہے ،کیا پتہ اسے کھانا دیا گیا یا نہیں؛ تو میں بھلا کیسے پیٹ بھر کے کھانا کھا لوں!"۔ (صفحہ 136)
صارفین کی تعداد: 103








گذشتہ مطالب
- خشاب ھای پر از تکبیر[تکبیروں سے بھرے (بندوق کے) میگزین]
- گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
- بعقوبہ کیمپ میں گمنام قیدیوں کے درمیان بیتے ہوئے کچھ ماہ
- منافقین کے بارے میں مطالعاتی کورس
- حاجی حسین فتحی کا حج سے واپسی پر اظہار خیال
- رونے کے بجائے ہنس رہی تھی
- مدرسہ فیضیہ کے حادثے کے بارے میں ڈاکٹر باقر کتابی کی روایت
- سردار محمد جعفر اسدی کی یادوں سے
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

