حاج یکتا کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

مترجم: یوشع ظفر حیاتی

2025-9-1


آدھی رات کی ٹھنڈ اور سوزش میرے گیلے کپڑوں کے اندر بستی جارہی تھی اور میں کانپ اٹھا تھا۔ گولہ باری رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں علی دنیادیدہ اور حسن مقیمی کے ساتھ آگے نکل چکا تھا۔ بقیہ افراد ہمارے پیچھے تھے۔ اتنا بے پرواہ کہ جیسے ہم اپنی ہی سرزمین پر ہوں۔ ابھی ہم فاؤ، بصرہ اور ام القصر کے سہ راہ پر پہنچے ہی نہیں تھے کہ ایک عراقی جیپ ہماری آنکھوں کے سامنے آگئی۔ وہ جیپ دوڑاتا ہوا ہماری طرف آرہا تھا۔ ایک جوان آر پی جی لے کر سڑک کے بیچوں بیچ آگیا۔ جیپ کی لائیٹ آر پی جی مارنے والے پر پڑی۔ اس نے زور سے بریک لگایا۔ اس نے ہمیں ابھی ہی دیکھا تھا۔ اسے یقین ہی نہیں آٰیا کہ ایرانی جوانوں کی اتنی بڑی تعداد اس کی سرحدوں کے اندر موجود ہے۔ اسکے پاس نہ آگے بڑھنے کا راستہ تھا نہ پیچھے جانے کا۔ دونوں نے ایک ساتھ جیپ کا دروازہ کھولا تاکہ نیچے کودیں کہ اچانک آر پی جی چلنے سے پورا علاقہ روشن ہوگیا۔

ہماری کمپنی فاؤ، بصرہ اور ام القصر کی سہ راہ سے عبور کرگئی۔ ہمارے پیچھے آنے والی کمپنی وہیں رک گئی تاکہ ہمیں بیک اپ دے سکے۔ اس سہ راہی پر ایک اینٹی ایئر کرافٹ اپنے حال پر ویسے ہی چھوڑی ہوئی تھی۔ فاؤ اور ام القصر ہائی وے کے سیدھے ہاتھ پر عراقی فورسز کا ایک ہیڈکوارٹر تھا۔ ایک مربع کی شکل کا بڑا کمپاؤنڈ جس کے چاروں طرف پشتے بنائے گئے تھے۔ اور کونوں میں مورچے بنے ہوئے تھے۔ ایک عراقی سیدھے ہاتھ والے مورچے میں چھپا بیٹھا تھا۔ اور فائرنگ کے ذریعے کسی کو بھی اندر گھسنے نہیں دے رہا تھا۔ ہم نے صبر کیا کہ اس کا ایمونیشن ختم ہو۔ علی دنیا دیدہ نے ایک جوان کو اس عراقی کے پیچھے سے بھیجا۔ دو لوگ مورچے سے ایک ساتھ باہر نکلے۔ عراقی چوہا بنا ہوا تھا۔ سر پر ہاتھ بندھے تھے، اپنے گاڑھے لہجے میں مسلسل طہران طہران چلا رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اگر اب بھی اس کے ہاتھ میں اسلحہ دے دیا جائے تو یہ ہم پر برسٹ کھول دے گا۔ اپنی آکری گولی تک وہ ہم سے لڑتا رہا تھا اور اب مظلوم بن رہا تھا۔ یہ طے نہیں تھا کہ رات ہونے اور کسی جگہ پر ٹکنے سے پہلے ہم کسی کو قیدی بنائیں گے۔ علی دنیا دیدہ نے ایک گولی اس پر خرچ کردی۔

ہم نے ہیڈکوارٹر کی پاک سازی شروع کی ہر چیز ایک اسٹیشن کے طور پر ہیڈکوارٹر کے بیچ میں چھوڑ دی گئی تھی۔ ہیڈکوارٹر کے کونے کھدرے میں ایک گمنام سی کلاشنکوف مل گئی۔ میں نے خوش ہو کر وہ کلاشنکوف اٹھا لی۔ میرے کندھے پر اسلحے کی خالی جگہ پر ہوگئی۔ اس محیط کے بیچوں بیچ ایک کنکریٹ کا مورچہ بنا ہوا تھا جس میں داخل ہونے کے لئے نیچے کی طرف چند سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ سیڑھیاں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک ہینڈ گرینیڈ مورچے کے اندر پھینکا کہ اگر کسی نے اس میں پناہ لی ہوئی ہو تو باہر نکل آئے۔ جوان ہر جگہ گھوم گھوم کر تلاشی لے رہے تھے۔ مجھے شدید بھوک سے کمزوری محسوس ہورہی تھی۔ ہم عراقی سرحدوں کے اندر کئی کلومیٹر پیدل چل کر آئے تھے۔ ایک جوان نے بیچ میں کھڑے ہوکر اذان دی۔ اس کی آواز میرے لئے آشنا تھی۔ لیکن پھر بھی میں اسے نہیں پہچانا۔ مجھے یہ الفاظ سننے کی کتنی ضرورت تھی۔:

        -غضبی جگہ پر نماز ہوسکتی ہے؟

        - پڑھ لو اس کا جواب میں دوں گا

جوان اس طرح بات چیت اور ہنسی مذاق کررہے تھے کہ جیسے انہیں واپس جانا ہی نہیں ہو۔ نماز کے بعد میں نے اپنی پشانی خاک پر رکھی۔ میرا دل گھبرا رہا تھا۔ کہیں ایسا نہ پچھلے آپریشنز کی طرح اترنے کا موقع ملے بھی یا نہیں۔

  •  خدایا ایک رات گذر گئی۔ نہیں معلوم مزید آپریشن ہے یا نہیں۔

جتنا زیادہ وقت گزرتا جارہا تھا میری گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔

  • عراقی عراقی !

میں چیخنے کی آواز سے اپنی جگہ سے لپک کر اٹھا۔ ایک جوان ہیڈکوارٹر کے بیچ میں موجود مورچے کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھنے کے لئے دوڑا۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی فوجی بیلٹ پکڑی ہوئی تھی تاکہ اس کی پینٹ نہ گر جائے۔ جس کسی نے بھی اسکی آواز سنی وہ سیڑھیوں کی طرف دوڑا۔ بے چارہ رفع حاجت کے لئے اس کنکریٹ کے مورچے میں گیا تھا۔ لٹرین کے اوپر ایک لکڑی کا تخت رکھا ہوا تھا۔ اس نے اس ہٹا کر جیسے ہی رفع حاجت کرنا چاہی تو اسے دو آنکھیں گھورتی ہوئی نظر آئیں۔ جب تخت کے نیچے تلاش کیا تو وہاں ایک عراقی افسر کا وحشتناک چہرہ اسے ہلتا ہوا نظر آیا۔ اپنی پینٹ کو اسی حالت میں آدھا ہاتھوں سے پکڑ کر باہر کی طرف بھاگا۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے مورچے کے اندر ہینڈ گرینیڈ پھینکا تھا۔ وہ بعثی آفیسر لکڑی کے تخت کے نیچے چھپا ہوا تھا جس کی وجہ سے اسکی جان بچ گئی۔ لیکن اب وہ ہمارے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتا تھا کیونکہ ہم نے چاروں طرف سے اسے گھیر لیا تھا۔ اتنے گاڑھے لہجے میں تعال تعال چلایا کہ میرا گلا بندھ گیا۔ بالآخر اس بعثی افسر نے ہم پر احسان کیا اور اوپر آگیا۔ اس کا موٹا تازہ جسم مورچے سے مشکل سے باہر آیا۔ میں حیرت زدہ رہ گیا کہ یہ تخت کے نیچے کیسے چھپا ہوا تھا۔ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح وہ بھی طھران کا پتہ پوچھ رہا تھا۔ جیسے ہی ہماری نظریں ادھر ہوئیں اس نے اندھیرے میں دوڑنا شروع کردیا اور علی دنیا دیدہ کا برسٹ اسکا پیچھا کرنے لگا۔ اسکی دلخراش چیخ بلند ہوئی۔ وہ چند قدم مزید دوڑا۔ اسکا جنزاہ بھی بھاگنا چاہ رہا تھا۔ ناگہان بے سدھ ہو کر گر گیا۔ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہمیں اپنی بھی ایک گھنٹے بعد کی خبر نہیں تھی۔ ہمارے پیچھے پانی تھا اور سامنے تاریکی۔ قیدی بنانا ایسا ہی تھا جیسے ہم نے اپنی دم پر جھاڑو باندھ لیا ہو۔ اس جھڑپ کے ختم ہونے کے بعد میں اپنے سر کے نیچے ہاتھوں کو موڑ کر لیٹ گیا۔ ستارے بادلوں کے پیچھے سے نکل نکل دیکھ رہے تھے۔ آسمان کہیں دور ہمارے ہی راستے پر تاریک اور روشن ہورہا تھا۔ ٹک ٹک کی آواز سے میرا سر پھٹ رہا تھا اور سردی کی وجہ سے میرا پورا بدن سنسنا رہا تھا۔



 
صارفین کی تعداد: 10


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

حاج یکتا کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا

اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح وہ بھی طھران کا پتہ پوچھ رہا تھا۔ جیسے ہی ہماری نظریں ادھر ہوئیں اس نے اندھیرے میں دوڑنا شروع کردیا اور علی دنیا دیدہ کا برسٹ اسکا پیچھا کرنے لگا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔