مہدی فرہودی کی یادوں کا ٹکڑا
کامیابی کے بعد
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-6-13
انقلاب کی کامیابی کے ایک دو ماہ بعد میں ایوان صدر گیا۔ وہاں سپاہ کے ساتھی بھی موجود تھے۔ مجھے شہید چمران کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔ ابراہیم یزدی صاحب اور عبد العلی بازرگان صاحب بھی تھے؛ چونکہ عبد العلی کے والد مجھے اچھی طرح جانتے تھے لہٰذا انہوں نے مجھے کچھ اختیارات دیے تھے۔
میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ میں، ساواک کے سابقہ دفتر گیا اور ڈاکٹر نژاد حسینیان، مجید حداد عادل، علیرضا محسنی، علی عزیزی، حاجی کاظم، معیری صاحب اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہم نے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
وہاں دستاویزی مرکز نامی ایک حصہ تھا کہ جہاں منافقین گھسنا چاہ رہے تھے، البتہ ہم سے پہلے کچھ لوگ وہاں جا چکے تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ساواک کے بہت سارے جاسوسی ادارے تھے۔ جب ہم کمروں میں داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں کے ونڈو شیڈز، سیمنٹ کے تھے۔ کمروں کو اس طرح سے بنایا گیا تھا کہ ہر گروہ اور محکمہ صرف اپنے ہی ملازمین کو جانتا تھا۔
ساواک کا ’باغ مہران‘ نامی ایک مرکز تھا جس میں بڑی بڑی عمارتیں تھیں اور انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ہم وہاں تک رسائی حاصل کرلیں گے۔ انہوں نے اپنا پیسہ، سونا اور ہیرے جواہرات، میزوں کی درازوں اور تجوریوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ زیادہ تر درازوں میں سکون اور نیند کی گولیاں مل رہی تھیں۔ ہم تجوریوں کو نہیں کھول پارہے تھے۔ اگر ہم ہینڈ گرینیڈ سے انہیں کھولتے تو دستاویزات برباد ہوجاتے۔ ہم ان کے ایک ملازم کو جو تجوریاں کھولنے میں ماہر تھا اس کے گھر سے لے کر آئے تو اس نے تجوریوں کے دروازے کھول دیے اور ہم دستاویزات، سونے اور ہیرے جواہرات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ البتہ بعض درازوں میں بھی بہت سارے دستاویزات موجود تھے اور ایک تجوری بھی تھی جو فائلوں سے بھری ہوئی تھی۔ ساواک کے 12 سے 13 ادارے تھے۔
پہلے میں نے اپنی تصویر اور فائل ڈھونڈی تو میں نے دیکھا کہ کس کس نے میری مخبری کی ہے اور میری زندگی سے متعلق معلومات لیک کی ہیں۔
ساواک نے اصفہان میں منصورون گروہ کے رکن، علی جہان آرا کے ساتھ نعمت اللہ زادہ اور بصیر زادہ کو بھی گرفتار کرلیا تھا اور علی تشدد کے دوران شہید ہوگیا تھا اور اس کے گھر والے اسے ڈھونڈ رہے تھے، میں نےساواک کے دستاویزات میں سے اس کی تصویر نکالی اور اس کی فائل ڈھونڈ لی۔
نعمت زادہ صاحب(لبنان میں ایران کے ثقافتی مشیر بن گئے تھے) جنہوں نے شاہ کے زمانے میں کئی سالوں تک خفیہ زندگی گزاری، ان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا، یعنی ساواک نے ان کی تصویریں چھپوا کر ایوی ایشن، ٹریول ایجنسیز اور بس ٹرمینلز کو بھیج دی تھیں اور مسلسل ان کا تعاقب کیا جارہا تھا۔ میں نے دستاویزات میں سے ان کی فائل بھی ڈھونڈ لی۔
ابھی ایران اور عراق کی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ شہید جہان آرا کے گھر والے ہمارے گھر آئے اور میں نے علی سے متعلق دستاویزات انہیں سونپ دیے۔ ہوا یہ تھا کہ علی، ساواک کے تشدد کے دوران شہید ہوگیا تھا، لیکن اس کے گھر والوں کو بتایا گیا تھا کہ چونکہ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا اس لیے اسے جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔ وہ تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کا طالب علم تھا۔
ساواک ایک بہت مضبوط اور بہت اچھی طرح آراستہ ادارہ تھا۔ ساواک نے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے طلباء کو ماہانہ 10 سے 20 تومان پر اپنا خبری مقرر کر رکھا تھا۔ مثال کے طور پر سیکنڈری اسکول میں جب میں نے ایک مضمون لکھا تو ساواک سے ماہانہ 5 سے 10 تومان والے میرے ایک ہم جماعت نے میرا ان سے تعارف کروایا تھا۔ یونیورسٹیز میں چاہے ملک کے اندر چاہے ملک کے باہر ہر جگہ یہی صورتحال تھی؛ یعنی ساواک نے ہر جگہ اپنے مخبر چھوڑے ہوئے تھے جو انہیں خبریں پہنچاتے رہتے تھے اور ساواک اپنی حکومت کو حفاظت کرنا چاہتی تھی۔[1]
تاریخ شفاھی :: پس از پیروزی (oral-history.ir)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، گروہ تاریخ، خاطرات مبارزہ و زندان، نشر عروج، چ اول، 1387، ص 98۔
صارفین کی تعداد: 30








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
کامیابی کے بعد
میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ میں، ساواک کے سابقہ دفتر گیا اور ڈاکٹر نژاد حسینیان، مجید حداد عادل، علیرضا محسنی، علی عزیزی، حاجی کاظم، معیری صاحب اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہم نے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

