پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 45
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-6-10
بوکان اور مہاباد(شہر) کا سیاسی سفر
1976 کے موسم خزاں میں، ایک دن ماموستا سید جلال نے کہا: ’’تیار ہوجاؤ! کل ہمیں ’سوارہ ایلخانی زادہ‘ کے ایصال ثواب کی تقریب میں شرکت کے لیے بوکان جانا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’سوارہ کون ہے؟‘‘
انہوں نے بتایا: ’’سوارہ، ایک شاعر، ایک کُردی ریڈیو اناؤنسر اور بڑے گھر سے تعلق رکھنے والا جوان تھا۔ دو دن پہلے تہران میں ٹریفک حادثے میں اس کا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘
میں نے بہت اصرار کیا کہ مجھے ساتھ جانے والوں میں سے نکال دیا جائے اور میں نے کہا میں بہت پریشان ہوں مجھ میں آمد و رفت کا حوصلہ نہیں ہے۔ ماموستا مجھے نکالنے پر تیار نہیں ہوئے اور میں مجبوراً ماموستا کے ساتھ اس سفر پر گیا۔
ہم، بانہ کے دوسرے کچھ طالب علموں اور لوگوں کے ساتھ بوکان کے لیے روانہ ہوئے۔ شام کے وقت سوارہ کے چچا قاسم صاحب کے گھر پہنچے۔ سوارہ صاحب کے ساتھ کام کرنے والے کچھ ساتھی، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نمائندگی کرتے ہوئے سنندج، کرمانشاہ اور تہران سے بوکان آئے ہوئے تھے۔ اس رات ہم کافی دیر تک قاسم صاحب کے گھر میں تھے۔ وہاں موجود لوگ آدھی رات تک بحث و مباحثے میں مشغول رہے۔ احمد مفتی زادہ، ماموستا سید جلال حسینی اور قاسم صاحب مفید اسلامی پروگرامز جیسے اقتصاد اسلامی کی بحث، کا دفاع کر رہے تھے اور دوسرے گروہ کی تنقیدوں کا جواب دے رہے تھے۔ دوسرے گروہ میں کرمانشاہ اور تہران کُردی ریڈیو کے کُرد اناؤنسرز اور ملازمین اور بوکان کے کچھ تعلیم یافتہ لوگ شامل تھے جن کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ یہ پہلی بار تھا کہ جب میں مفتی زادہ صاحب کو قریب سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے پہلے کُردستان میں، بہائیت کے خطرے کے حوالے ان کی کیسٹس سنی تھیں۔
رات کو سونے کے لیے ہم مفتی زادہ صاحب کے سسر اور صلاح الدین اور عبداللہ مہتدی[1] کے والد مرحوم ماموستا ملا عبدالرحمٰن مہتدی کے گھر گئے۔ مرحوم ماموستا ملا عبدالرحمٰن مہتدی اپنی زندگی میں تہران کی الہیات یونیورسٹی میں فقہ شافعی کے صاحب مسند تھے اور ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر اسعد شیخ الاسلام کے والد، جناب ماموستا شیخ الاسلام، ان کی جگہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ مہتدی صاحب کے گھر کے صحن میں ایک چھوٹا حوض تھا۔ ماموستا سید جلال رات کے آخری پہر میں وضو کر رہے تھے۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے کہا: ’’مجھے میرے بھائی شیخ عزالدین[2] کا نظریہ اور طریقہ کار صحیح نہیں لگتا اور بدقسمتی سے وہ ’صلاح‘ کے موقف کی تصدیق کر رہا ہے۔‘‘
ان کی مراد صلاح مہتدی تھا جسے تبریز یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا تھا، اس رات وہ قاسم صاحب کے گھر میں اسلامی پروگرام کی مخالفت کرنے والے گروہ میں شامل تھا اور مسلسل اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا۔
رات کو ہم سوگئے اور اگلے دن بوکان کے بزرگوں کے ساتھ مہاباد چلے گئے۔ مرحوم سوارہ ایلخانی زادہ کے لیے مہاباد کے بزرگوں اور ریڈیو مہاباد کی جانب سے ایصال ثواب کی اور اعزازی تقریب منعقد ہونی تھی۔
دوپہر کے کھانےکے لیے ہم عباسی صاحب کے گھر میں تھے اور ہماری مہاباد کے امام جمعہ جناب شیخ عزالدین حسینی کے ساتھ ملاقات تھی۔ شام کو ہم سید مسجد چلے گئے۔ مسجد میں اور اس کے آس پاس کافی سارے لوگ جمع تھے۔ اعلان ہوا کہ اس تقریب میں جناب ملا عبداللہ احمدیان اور جناب احمد مفتی زادہ خطاب کریں گے۔ جناب شیخ عزالدین نے جناب مفتی زادہ کو مخاطب کرکے کہا: ’’مفتی زادہ صاحب، گزشتہ رات بوکان میں ساواک نے کچھ جوانوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ بہت آرام اور احتیاط سے گفتگو کریں۔‘‘
احمدیان صاحب کے بعد مفتی زادہ صاحب نے ’معاشرے کو بعثت انبیاء اور رسولوں کے منصوبوں کی ضرورت‘ کے عنوان سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور بالکل واضح طور پر طاغوت، شیخ اور پہلوی حکومت پر حملہ کردیا اور موجودہ دور میں طریقت اور تصوف کو شاہ کی آمریت کی خدمت قرار دے دیا۔ ان کے عقیدہ یہ تھا کہ مسجد میں لوگوں سے توسل کرنا، استغاثہ کرنا اور ندا دینا ایک طرح سے طاغوت کا ساتھ دینا ہے اور فعل حرام ہے اور آیۂ ’’وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ للہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللہِ أَحَداً‘‘(سورۂ جن آیت 18) کی تفسیر کی۔ اس دوران مسجد میں ایک مولانا کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: ’’مفتی زادہ صاحب، ’لاتدعوا‘ سے مراد ’لاتعبدوا‘ ہے؛ ورنہ اگر ہم مسجد میں کہیں ’یا رسول اللہ‘ ’یا عبد القادر جیلانی‘ تو یہ کہاں غیراللہ کی عبادت ہے؟!‘‘
مفتی زادہ صاحب کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے اس مولانا کو مخاطب کرکے کہا: ’’بیٹھ جا، بیٹھ جا جاہل!‘‘
تقریب کی صورتحال بگڑتی جارہی تھی اور لوگ بھی مسجد کے باہر سے نعرے بازی کر رہے تھے۔ بالآخر ہنگامہ آرائی کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوگئی اور ہم بانہ لوٹ آئے۔ مہاباد کی سید مسجد کی وہ تقریب اور مفتی زادہ صاحب کی سخت اور انقلابی تقریر جو انہوں نے حکومتی اور فوجی سربراہان اور علاقے کے مشائخ کے بزرگ جناب شیخ معصوم کی موجودگی میں کی تھی، سالوں بعد بھی میرے ذہن سے محو نہیں ہوئی۔
[1] عبد اللہ مہتدی ولد حاجی رحمان، سن 1949 میں بوکان شہر میں پیدا ہوئے۔ مہتدی صاحب(جمہوریہ مہاباد کے ایک وزیر) نے سن 1969 میں ایران کے کچھ کُرد یونیورسٹی طلباء جن میں فؤاد مصطفیٰ سلطانی اور محمد حسین کریمی شامل تھے، کے ساتھ مل کر کوملہ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
[2] عزالدین حسینی(1922 بانہ ۔ 2011 سویڈن) نوجوانی میں طلبگی اختیار کرلیتے ہیں اور جوانی میں عرفی نام ’ہوین‘ کے ساتھ ’کُردستان احیائے نو سوسائٹی‘ میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں۔ ’کوملہ پارٹی‘، اس سوسائٹی اور دوسرے کچھ گروہوں کے ملنے سے تشکیل ہوئی۔ اس کے باوجود کہ وہ ایک مذہبی شخصیت اور عالم دین ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، وہ کُردستان کی لڑائیوں میں کوملہ کے کمیونسٹی گروہ کے فعال رکن تھے۔
صارفین کی تعداد: 66








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
کامیابی کے بعد
میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ میں، ساواک کے سابقہ دفتر گیا اور ڈاکٹر نژاد حسینیان، مجید حداد عادل، علیرضا محسنی، علی عزیزی، حاجی کاظم، معیری صاحب اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہم نے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

