زبانی تاریخ کے کام اور درپیش مشکلات۔3

پرائیویسی

محیا حافظی
ترجمہ: سید ضمیر رضوی

2025-6-1


انٹرویو دینے والے کی پرائیویسی کا تحفظ، زبانی تاریخ کے انٹرویوور کے فرائض میں سے ایک ہے۔ زبانی تاریخ میں پرائیویسی، ہر شخص اور اس کی یادوں کے درمیان حد اور محترمانہ فاصلہ ہے۔ فرضی طور پر ہر شخص کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1۔ شناختی معلومات(شناختی کارڈ، شادی، تعلیم وغیرہ کی معلومات)

2۔ ذاتی معلومات(تنخواہ، رہائش گاہ وغیرہ)

3۔ پرائیویسی(نجی انفرادی اور سماجی اعمال اور رویے)

پرائیویسی کے نجی حصے میں زبانی تاریخ کے انٹرویوور کو بھی اس بارے میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن وہ حصہ جو معاشرے سے جڑا ہوتا ہے، وہی پرائیویسی ہے جس کی اشاعت کی باریکیوں کی رعایت اور طریقۂ کار ملحوظ خاطر ہے۔

اس تناظر میں انٹرویوور کے کسی شخص کی پرائیویسی میں داخل ہونے اور سوال کرنے کی حدود کا تعین، بہت اہمیت کا حامل ہے۔ البتہ ان ذاتی امور کے متعلق سوال کرنے کی اجازت ہے جو انٹرویو کے عمل کو متاثر کرتے ہیں؛ لیکن ان ذاتی امور کے متعلق سوال کرنا، منع ہے جو انٹرویو کے عمل کو متاثر نہیں کرتے۔ مثلاً: اس بارے میں معلومات حاصل نہیں کرنی چاہیے کہ کسی شخص کے اپنی زوجہ کے ساتھ تعلقات اچھے تھے یا برے۔ اسی طرح راوی کی گھریلو زندگی کے ذاتی معاملات کے بارے میں بھی سوالات نہیں پوچھنے چاہئیں۔

12 نومبر 2014 کو ہونے والے اجلاس میں کابینہ نے اشاعت اور معلومات تک آزاد رسائی کے قواعد و ضوابط کی قرارداد منظور کی، جس کے آرٹیکل۔1 میں پرائیویسی کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

پرائیویسی، کسی شخص کی زندگی کی وہ حدود ہیں کہ جس کے متعلق وہ دوسروں سے توقع رکھتا ہے کہ اس کی رضامندی یا پیشگی اطلاع یا قانونی حکم یا عدالتی حکم کے بغیر ان حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے، جیسے کہ جسمانی پرائیویسی، ای میل کے ذریعے کسی شخص کی معلومات تک رسائی حاصل کرنا، باتیں سننا، دیکھنا، داخل ہونا، موبائل فون، خط، رہائش گاہ، گاڑی اور کرائے پر لی ہوئی ذاتی جگہیں جیسے ہوٹل اور کشتی، اسی طرح ہر وہ چیز جو قانون کے مطابق کسی فرد یا ادارے کی ذاتی پیشہ ورانہ سرگرمی سمجھی جاتی ہے، جیسے تجارتی دستاویزات، ایجادات اور دریافتیں۔[1]

ہر ایک کی پرائیویسی، معاشرے کی ریڈ لائنز ہوا کرتی ہیں۔ کچھ ممالک میں کسی شخص کی مالی معلومات اور میڈیکل ریکارڈ بھی اس کی پرائیویسی میں شامل ہوتے ہے۔ یہ امر بنیادی طور پر مشہور افراد یا سیاستدانوں کے لیے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایسی رپورٹس موجود ہیں کہ انٹیلیجنس ایجنسی جیسے سی آئی اے نے مختلف طریقوں سے لوگوں کی میڈیکل معلومات جمع کی ہیں۔

اسلامی ثقافت اور ایرانیوں کی اخلاقی روایت میں بھی پرائویسی کا تحفظ، لازم اور ضروری ہے؛ لیکن کچھ معاملات میں پرائیویسی کی کوئی درست اور واضح تعریف نہیں ہے۔ فرض کریں کہ ایک مینیجر اپنے ورکنگ گروپ میں کسی شخص کو کام پر رکھتا ہے۔ اگر اس شخص کے مینیجر کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سوال پوچھا جائے تو یہ سوال پوچھنا اس مینیجر کی پرائیویسی میں شامل نہیں ہوگا۔ ہر شخص اپنی ذمہ داری کے دائرۂ کار میں جو بھی اقدام کرتا ہے وہ اس کی پرائیویسی میں شامل نہیں ہوتا۔

زبانی تاریخ میں ہم، لوگوں کی پرائیویسی کی رعایت کے پابند ہیں۔ زبانی تاریخ کے پیشہ ورانہ اخلاق کی رعایت کی وجہ سے بھی پرائیویسی کا خیال رکھا جانا چاہیے اور دینی ثقافت اور احکام کی وجہ سے بھی؛ لیکن پرائیویسی میں داخل اور خارج امور کو جدا کرنا بہت اہم ہے۔ پرائیویسی وہ چیز ہے جس کا انٹرویو کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جب جنگ کے ایک کمانڈر سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ: ’’کیا فلاں آپریشن کے دوران اسے ڈر لگا تھا؟‘‘ تو یہ پرائیویسی میں شامل نہیں ہے؛ لیکن محاذ کے دوران نماز شب پڑھنے کے متعلق سوال کرنا، اسی شخص کی پرائیویسی میں شامل ہوگا۔

بہت سے لوگ پرائیویسی کا بہانہ بناتے ہوئے اپنی معلومات اور یادوں کو نامکمل بیان کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ دوسرے لوگ، اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے لوگوں کی پرائیویسی میں مداخلت کردیتے ہیں۔ پرائیویسی، ایک بہت باریک لکیر ہوتی ہے جس کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ جب ہم زبانی تاریخ کے لیے کسی شخص کی معلومات حاصل کرتے ہیں تو ہمیں ان ذاتی امور میں مداخلت کا حق نہیں ہے کہ جو اس کے فرائض سے مربوط نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر جنگ کا ایک کمانڈر  محاذ کے قریبی شہر میں کوئی گھر لے کر اپنے گھر والوں کو وہاں منتقل کرتا ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی سوال کیا جائے تو یہ اس شخص کی پرائیویسی میں دخل اندازی نہیں ہے۔ دوسری جانب اگر کسی دوسرے شخص نے ایسا نہ کیا ہو تو اس سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ اس کے گھر والے تہران میں کیسے زندگی گزار رہے تھے۔

وہ تمام نجی معاملات جو انٹرویو کے موضوع سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں وہ نجی نہیں ہوتے اور ایک عوامی پہلو رکھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہر ایک کی پرائیویسی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہر شخص کے لیے پرائیویسی کی تعریف مختلف ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کی شادی کے متعلق معلومات، اس کی پرائیویسی ہو؛ لیکن دوسرے شخص کے لیے شادی، پرائیویسی نہ سمجھی جائے۔ اس بات کا انحصار اس چیز پر ہے کہ اس شخص کی شادی کا انٹرویو کے موضوع میں کیا کردار ہے۔

تاریخ شفاہی کے کاموں کو انجام دیتے وقت، پرائیویسی کے عناصر کو بھی پہچاننا چاہیے اور اس شخص کے مطابق پرائیویسی کی حدود کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ جتنی کسی شخص کی ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے اتنا ہی اس کی پرائیویسی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب کوئی شخص اعلیٰ عہدے تک پہنچتا ہے تو وہ خود کو عوام کی نظر اور رائے عامہ کے لیے زیادہ کھل کر پیش کرتا ہے۔ ایک دوسرے سے جڑے لوگوں کی پرائیویسی کی نوعیت، ان کے معاشرے میں کردار کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ ثقافتی، عرفی اور دینی پہلو کے علاوہ بعض صورتوں میں پرائیویسی کی حدود کا تعین قانون کرے گا۔

اس سلسلے میں اگر راوی خود ان حدود میں داخلے کے لیے راضی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ لیکن انٹرویوور کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ وہ اس شخص کی پرائیویسی میں مداخلت نہ کرے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ نہ مغربی لوگوں کی طرح تجسس کرتے ہوئے کسی شخص کی زندگی میں داخل ہونا چاہیے اور نہ دوسرے کچھ لوگوں کی طرح پرائیویسی کی رعایت کرنے کے بہانے نامکمل معلومات پیش کرنی چاہیے۔ کچھ انٹرویوورز، پرائیویسی میں مداخلت کے ڈر سے کچھ سوالات پوچھنے سے اجتناب کرتے ہیں؛ اس کے برخلاف کچھ دوسرے لوگ، پرائیویسی میں شامل معاملات کے بارے میں سوال پوچھ کر راوی کو پریشان کردیتے ہیں۔

ایک اور چیز جس پر توجہ دی جانی چاہیے وہ تیسرے شخص کی پرائیویسی کا تحفظ ہے۔ اگر راوی اپنی گفتگو میں کسی اور شخص کا ذکر کرے تو پیشہ ورانہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے۔ اگر اس تیسرے شخص کے بارے میں ہونے والی باتیں مثبت ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ لیکن اگر اس نقل قول میں کوئی منفی پہلو ہو تو جس شخص کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے اس کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے۔

 


[1]  آیین نامہ اجرایی قانون انتشار و دسترسی آزاد بہ اطلاعات  



 
صارفین کی تعداد: 28


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
فتح اللہ جعفری کی روایت

22 ستمبر 1980(31 شھریور1359)، مسلط کردہ جنگ کا آغاز

اگرچہ دویرج سے گزرنے میں دشمن کو ڈر تھا اور اسے احتیاط کرنی پڑی لیکن عراقی بعث فوج نے چم سری کی سرحدی چیک پوسٹ پر قبضے کے بعد دریائے دویرج کے مشرقی بلند مقامات پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔