ان امریکیوں کو سزا، جنہیں ناموس سمجھ میں نہیں آتی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-5-5
مسلسل تین راتوں تک میں، موجودہ لالہ ہوٹل جو ان دنوں انٹرکانٹینینٹل ہوٹل کہلاتا تھا، گیا اور میں نے ایسے رقت آمیز مناظر دیکھے جنہوں نے میری روح کو بری طرح زخمی کردیا۔ یقین مانیے تیسری رات میری حالت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ ہوٹل سے نکلنے کے بعد میں ایک کونے میں زمین پر بیٹھ کر رونے لگا اور میں نے کافی دیر تک گریہ کیا۔ اس رات میں نے ایسا منظر دیکھا جو ایک ڈراؤنے خواب کی طرح میرے ذہن پر نقش ہوگیا اور میرے دل و دماغ پر ناقابل فراموش زخم چھوڑ گیا۔ 50 سے 70 سال کے ادھیڑ اور بوڑھے امریکی مرد، اس سرزمین کے بیٹیوں اور عزتوں کے ساتھ جو دل میں آرہا تھا وہ کر رہے تھے، وہ سب کچھ ایسا نہیں تھا جسے میں برداشت کر پاتا۔ اس رات میں غصے اور نفرت سے اتنا بھرا ہوا تھا کہ اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک جیپ میں بارود بھر کر انٹرکانٹینینٹل ہوٹل پر خودکش حملہ کردوں تاکہ ان شیطان صفت غیرملکیوں کو بھی واصل جہنم کردوں اور خود کو بھی اس تکلیف سے نجات دے دوں۔
اس رات، جب میں ہمارے ٹھکانے پر پہنچا تو میں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ اسی فیصلے کے بارے میں شہید بروجردی کو بتایا۔ ہمیشہ کی طرح انہوں نے اپنی میٹھی اور دل کو چھولینے والی گفتگو سے مجھے تسلی دی اور کہا: ’’ہمیں خود کو مٹانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جن لوگوں کو مٹنا چاہیے اور اس ملک سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے وہ کوئی اور ہیں کہ اگر خدا نے چاہا تو ہم اس ملک کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کردیں گے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے ساتھیوں نے غیرملکی مشیروں پر حملے کے لیے بہتر جگہوں کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے مجھ سے ان جگہوں کا جائزہ لینے کو کہا۔ اس طرح ہم نے اگلی راتوں میں خوانسالار جیسی جگہوں کا جائزہ لیا۔ خوانسالار ایک مشہور ریسٹورنٹ تھا جسے امریکیوں نے اپنی ٹھکانہ بنا لیا تھا اور تقریباً ہر رات ہی وہاں فسق و فجور کا بازار گرم ہوتا تھا۔
خوانسالار ریسٹورنٹ، ارجنٹینا چورنگی پر واقع تھا۔ میں نے شہید احمدی کے ساتھ مسلسل کئی راتوں تک وہاں آنا جانا کیا اور حملے کی منصوبہ بندی کے لیے درکار تمام معلومات اکٹھا کرلیں، جیسے حملے کے آغاز کی جگہ، حملے کی نوعیت وغیرہ۔ اس کے ساتھ ہی ان راتوں میں ہمارا رویہ ایسا تھا کہ اس جگہ پر ہماری موجودگی پر کسی کو شک نہ ہو۔ ہم بہت آرام سے اور اسٹائلش کپڑوں میں ریسٹورنٹ جاتے تھے۔ ہم وہاں کے ویٹروں اور خاص طور پر گارڈز کو اچھی ٹپ دیتے تھے اور گرم جوشی کے ذریعے ان کا اعتماد حاصل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ کاروائی کی کامیابی کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے کچھ راتوں تک ہم وہاں اپنے ساتھ خالی سوٹ کیسز بھی لے جاتے رہے تاکہ ہمارا یہ سامان ویٹروں اور گارڈز کی نظروں میں ایک عام سی اور معمول کی بات بن جائے اور کاروائی کی رات انہیں اس سامان پر شک نہ ہو۔
ایک رات ہم کھیل کے لباس میں جاتے تھے اور دوسری رات کوٹ پینٹ اور ٹائی لگا کر، تاکہ ہم خود کو ریسٹورنٹ کا باقاعدہ گاہک ظاہر کرسکیں اور ریسٹورنٹ کے ملازمین کے ساتھ ساتھ اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ بنانے والے مہمانوں کا بھی مکمل اعتماد حاصل کرسکیں۔
آخرکار تمام تر احتیاطی تدابیر اور دور اندیشیوں کے ساتھ کاروائی کی رات آپہنچی۔ جیسی ہی ہم دھماکہ خیز مواد سے بھرے سوٹ کیسز لے کر ریسٹورنٹ کے لیے روانہ ہوئے اسی وقت سے شہید احمدی کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا، گویا اسے پہلے سے ہی الہام ہوگیا تھا کہ اس رات وہ شہادت کے بلند درجے پر فائز ہوجائے گا۔ اس کے چہرے پر نور تھا اور وہ بہت پرجوش تھا۔
میں نے دھماکہ خیز مواد کو ڈیٹونیٹر کے ایکٹیویٹ ہونے کے 90 سیکنڈ بعد پھٹنے کے لیے سیٹ کیا تھا۔ میں نے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ دو ڈیٹونیٹر لگائے تھے کہ اگر ایک کام نہ کرے تو دوسرا کام کردے تاکہ کاروائی کی کامیابی کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جاسکے۔
ہم ان سوٹ کیسز کے ساتھ اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچے۔ روز رات کی طرح، ہم نے کھانے کا آرڈر دیا اور کھانا کھایا۔ پھر میں نے شہید احمدی سے گزارش کی کہ وہ ریسٹورنٹ سے باہر چلا جائے۔ میں نے ایسا اس کی حفاظت کے لیے کیا۔ جب وہ ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا تو میں نے خفیہ طور پر ڈیٹونیٹرز کو ایکٹیویٹ کردیا۔ پھر میں پورے اطمینان کے ساتھ ریسٹورنٹ سے نکل گیا، یہاں تک کہ میں نے نکلتے وقت، ویٹر اور گارڈ کو ٹپ بھی دی تاکہ کسی کو میرے رویے پر شک نہ ہو۔
ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے وقت میں نے دیکھا کہ شہید احمدی، ریسٹورنٹ کی طرف واپس جا رہا ہے۔ میں نے مضبوطی سے اس کا بازو پکڑ لیا اور کہا: ’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ گویا کوئی آواز یا کوئی طاقت اسے ریسٹورنٹ کی طرف کھینچ رہی تھی، اس نے جواب دیا: ’’میں اپنا بیگ وہاں بھول گیا ہوں۔‘‘ مجھے لگتا ہے کہ کسی گارڈ نے اس سے کہا ہوگا کہ وہ اپنا بیگ، ریسٹورنٹ میں بھول گیا ہے۔ میں نے بڑی پریشانی سے اس سے کہا: ’’نہیں بھائی، بیگ ہم بعد میں اٹھا لیں گے۔‘‘
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ گویا اس کا مقدر یہی تھا کہ اس رات وہ جام شہادت نوش کرے، کیونکہ میں نے بہت مضبوطی سے اس کا بازو پکڑا ہوا تھا، عام حالت میں وہ اسے چھڑا کر ریسٹورنٹ کی طرف نہیں جاسکتا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں کیسے اس واقعے کے بارے میں بتاؤں کہ ہمارے محترم مخاطبین اسے صحیح طریقے سے سمجھ پائیں، لیکن یہ واقعہ ہوا۔
اس نے جھٹکے سے خود کو میری گرفت سے چھڑوا لیا اور تیزی سے ریسٹورنٹ اور دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے کی جگہ کی طرف چلا گیا۔ جیسی ہی میں نے سڑک پار کی تو ایک زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ دھماکے کے وقت وہ دھماکے کی جگہ کے بہت قریب تھے یقیناً اس کی شہادت ہوگئی ہے۔
اس واقعے نے مجھے بہت دکھی کردیا۔ میں بہت تکلیف دہ حالات سے گزر رہا تھا۔ میں لڑکھڑاتا ہوا ارجنٹینا چورنگی تک پہنچا۔ گویا میں خواب دیکھ رہا تھا، میں اپنے برابر سے گزرنے والی ایمبولینسوں اور پولیس کی گاڑیوں کے آوازیں سن رہا تھا۔ ایک پل کے لیے تو میں اپنے آپ کو دلاسہ دے رہا تھا کہ شاید کوئی معجزہ ہوگیا ہو اور شہید احمدی زندہ بچ گیا ہو۔ میں تیزی سے دوڑتا ہوا دھماکے کی جگہ پر واپس پہنچا۔ اس امید پر کہ شاید بھیڑ کے بیچ، میں انہیں دیکھ سکوں۔ تقریباً 10 منٹ تک میں وہاں مجمع میں انہیں ڈھونڈتا رہا، لیکن اندر سے میں جانتا تھا کہ یہ جھوٹی امید ہے اور وہ خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں ساواک بھی پہنچ گئی۔ میں نے جس نوعیت کے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اس سے پوری عمارت، ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے امدادی عملہ، دھویں کے بیچ سے امریکیوں کے لاشے باہر لا رہا تھا۔ کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے تھے جنہیں تیزی سے ایمبولینس کی طرف لے جایا جارہا تھا۔
ساواک والے بھی جائے وقوع پر موجود لوگوں کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہاں مزید رکنا مجھے ٹھیک نہیں لگا اور پھر میں اس جگہ کے لیے روانہ ہوگیا جہاں مجھے شہید بروجردی سے ملنا تھا۔ جب میں فیضیہ پہنچا تو شہید بروجردی کو دیکھ کر میں خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں انہیں گلے لگا کر دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ وہ مسلسل مجھ سے پوچھ رہے تھے: ’’عباس کہاں ہے، علی؟ عباس کہاں ہے؟‘‘ اور میرے پاس انہیں دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد جب وہ سجمھ گئے کہ کیا ہوا ہے تو انہوں نے اپنی ہمیشہ کی متانت کے ساتھ مجھے تسلی دی اور کہا: ’’تم کس بات پر پریشان ہو؟ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے مقدس مقصد اور اسلام کی راہ میں شہید ہوگیا۔ کیا ایسا ہوسکتا تھا کہ تم اس کی جگہ شہید ہوجاتے!‘‘
میں دھاڑیں مار کر رو رہا تھا اور وہ شہید احمدی کی استقامت اور اس کی دوسری خوبیوں کے بارے میں بات کر رہے تھے جنہوں نے اسے شہادت کے لائق بنایا۔ اس وقت صرف ایک چیز سے مجھے تھوڑا حوصلہ ملا اور وہ شہید بروجردی کا مسلسل مجھے یہ امید دلانا تھا کہ شہادت کا راستہ میرے لیے بھی کھلا ہے اور ممکن ہے کہ بہت جلد یہ سعادت مجھے بھی نصیب ہوجائے۔ جب میں تھوڑا سنبھلا تو روتے روتے میں نے کہا: ’’کاش ایسا میرے ساتھ ہوجاتا۔ کاش ایسا ہوا ہی نہ ہوتا۔‘‘ میں نے کئی بار خود کو کوسا کہ اس دن میں، شہید احمدی کو اپنے ساتھ لے کر ہی کیوں گیا۔ میں مسلسل کہہ رہا تھا: ’’میں اکیلا اس کاروائی کو انجام دے دیتا۔ کاش اسے اپنے ساتھ لے کر ہی نہ جاتا۔‘‘
بعد میں، اسپتال پہنچنے پر ہمیں پتہ چلا کہ شہید احمدی، ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ کٹنے سے شہید ہوگئے ہیں۔
اگرچہ شہید احمدی کی شہادت اور ان سے جدائی ہم سب کے لیے بہت سخت تھی لیکن اس کے باوجود ہم اپنے عظیم مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے۔ ہمیں پہلے کی منصوبہ بندی کے مطابق اس واقعے کی تشہیر بھی کرنی تھی۔ اسی لیے ہم نے بڑے پیمانے پر فارسی اور انگریزی زبان میں اطلاعیے چھپوائے اور پورے ملک میں بانٹے۔ ہم نے اس کام یعنی اطلاعیوں کو بانٹنے کے کام کو مختلف صوبوں اور شہروں میں موجود اپنے لوگوں کے ذریعے انجام دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے اتنے بہتر طریقے سے اپنی معلومات کی حفاظت کی تھی کہ ہمارے اپنے ہی اکثر لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ یہ کاروائی ہم نے انجام دی ہے۔
ان اطلاعیوں میں، ’صف‘ آرگنائزیشن نے ملک میں امریکیوں اور اسرائیلیوں کی موجودگی اور ان کی متعدد غیر اخلاقی حرکتوں سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا تھا اور انہیں تنبیہ کی تھی کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو آگے مزید کاروائیاں بھی جاری رہیں گی۔
خوانسالار ریسٹورنٹ کے دھماکے کا آپریشن اور بڑی تعداد میں امریکی مشیروں کی ہلاکت سے عالمی ردعمل سامنے آیا۔ خاص طور پر اس کاروائی سے امریکیوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ بعد میں موصول ہونے والی اطلاعات سے ہمیں پتہ چلا کہ اس دھماکے کے بعد امریکیوں نے بڑے پیمانے پر اپنی افراد کو ایران سے نکال لیا ہے۔ جو لوگ باقی بھی رہ گئے تھے وہ اکثر فوجی تھے جو جنگی اور عسکری مہارتوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔
خوانسالار ریسٹورنٹ کے بم حملے کے بعد، ہم نے اس بس پر بم حملے کا منصوبہ بنایا جو امریکیوں کو ان کی رہائش گاہ سے دفتر لے کر جاتی تھی۔ اس منصوبے میں شہید شکوری میرے ساتھ تھے۔ ہم نے طے کیا تھا کہ ہم انہی دستی بموں کے ذریعے دھماکے کریں گے جنہیں بنانے کا طریقہ میں معزز مخاطبین کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں۔
اس کاروائی کو انجام دینے کے لیے بھی پہلے کچھ دن تک ہم نگرانی اور منصوبہ بندی کرتے رہے۔ اسی لیے کچھ دن تک میں اور شہید شکوری، موٹرسائیکل پر مطلوبہ جگہ پر جاتے رہے اور بس کا پیچھا کرتے رہے۔ کاروائی والے دن ہم ایئرفورس روڈ پر پہنچے، میں موٹرسائیکل چلا رہا تھا اور شہید شکوری نے بس کے اندر دستی بم پھینکا۔ اس دن ہم سمجھ رہے تھے کہ قریب سات امریکی مارے جائیں گے لیکن بعد میں پریس کے ذریعے ہمیں پتہ چلا کہ اس بم دھماکے میں کم از کم سترہ امریکیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔
لیکن اس کاروائی کا واقعہ بھی پڑھنے لائق ہے۔ اس دن ہم تیزی سے بس تک پہنچے اور ہارن بجا کر ڈرائیور سے راستہ مانگنے لگے۔ اسی شور شرابے میں اکثر مسافروں نے ہمیں دیکھ لیا۔ پھر جب بس تھوڑا کنارے گئی تو ہم آسانی سے ایک کھڑکی کے پاس پہنچ گئے۔ شہید شکوری نے جلدی سے کھلی کھڑکی سے دستی بم جلا کر بس کے اندر پھینک دیا۔ ہم تھوڑا ہی دور گئے تھے کہ بم پھٹ گیا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ہم موٹرسائیکل پر قابو نہ رکھ سکے اور زمین پر گر گئے۔ دھماکے سے شہید اشکوری کی آنکھیں بھی متأثر ہوگئی تھیں اور اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کی ٹانگ بھی زمین پر گرنے کی وجہ سے زخمی ہوگئی تھی۔ جب میں اس کے پاس پہنچا اور اسے اٹھانے کے لیے میں نے پیچھے سے اسے پکڑا، تو اس نے مجھ سے کہا: ’’علی مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا، تمہیں خود مجھے موٹرسائیکل پر بٹھانا ہوگا۔‘‘ میں نے اس سے کہا کہ گھوم جائے اور پھر میں نے اسے پیٹھ پر ڈال لیا اور بڑی مشکل سے اسے موٹرسائیکل پر بٹھایا۔ پھر میں نے موٹرسائیکل اسٹارٹ کی اور ہم فرار ہوگئے۔ ہم ایئرفورس روڈ سے نکل گئے اور کچھ دیر بعد خراسان روڈ پر پہنچ گئے۔ وہاں ہمیں کچھ پانی ملا تو میں نے اس کا منہ دھلایا۔ اس کی آنکھیں تقریباً ٹھیک ہوگئی تھیں اور وہ دوبارہ دیکھ پارہا تھا۔ تب مجھے سمجھ میں آیا کہ اس کی عارضی نابینائی، دھماکے کی لہر کی وجہ سے تھی، لیکن اس سے پہلے مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس کی گھٹنا بھی زخمی ہوا ہے یا نہیں۔ مجھے اس کی خون آلود پینٹ اور جوتہ نظر آیا۔ میں نے اسے دوبارہ اٹھانا چاہا تو اس نے کہا: ’’مجھے کچھ نہیں ہوا۔ بس چھوٹی موٹی چوٹ آئی ہے۔ میں چل سکتا ہوں۔‘‘ اس طرح سے ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہا اور الگ ہوگئے۔
بم دھماکوں کی کاروائیوں خاص طور پر خوانسالار ریسٹورنٹ اور امیریکیوں کی بس پر بم حملے میں ہماری اور ’صف‘ آرگنائزیشن کی کامیابی نے حکومت اور امریکیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہم ان لوگوں میں اس خوف و ہراس کو واضح طور پر محسوس کر رہے تھے۔ اس کے بعد نہ حکومت اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی اور نہ ہی امریکی اور اسرائیلی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کاروائیوں کے بعد میں کئی مرتبہ انٹرکانٹینینٹل ہوٹل گیا، لیکن اب اس ہوٹل میں نہ کسی امریکی کا نام و نشان تھا اور نہ ہی ان فحش اور شرمناک پارٹیز کا۔ اس طرح سے اس ہوٹل پر دوبارہ حملہ نہیں کیا گیا کیونکہ اب یہ ایک خاموش اور پرسکون جگہ بن چکا تھا۔
منبع: مبارزہ بہ روایت علی تحیری، تدوین مرتضی میردار، ویراستار شیما آشتیانی، تھران، مؤسسہ فرھنگی مطبوعاتی ایران، 1401، ص 131۔137
صارفین کی تعداد: 65








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
ان امریکیوں کو سزا، جنہیں ناموس سمجھ میں نہیں آتی
انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے ساتھیوں نے غیرملکی مشیروں پر حملے کے لیے بہتر جگہوں کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے مجھ سے ان جگہوں کا جائزہ لینے کو کہا۔ اس طرح ہم نے اگلی راتوں میں خوانسالار جیسی جگہوں کا جائزہ لیا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

