پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 35

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-3-27


سہ رگہ ت (گاؤں) واپسی اور وعدہ خلافی

ہم نے سفر شروع کیا کہ شاید اس میں تفریح اور تنوع ہو۔ اپنے شہر سے باہر نہ نکلنے والے اور اپنے حجرے اور اپنے علاقے کے استاد پر اکتفا کرنے والے طالب علموں اور ہجرت کرکے عراق، مریوان، مہاباد یا بانہ جانے والے طالب علموں کے درمیان فکری اور اعتقادی فرق بالکل واضح تھا۔ جو طالب علم عراق جاتے تھے، وہ تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ مختلف گروہوں اور سیاسی رجحانات سے آشنا ہوتے تھے اور ان کی ذہانت اور ہوشیاری انہی ہجرتوں کی مرہون منت تھی۔ اسی طرح وہ لوگ جو پاوہ، جوانرود اور روانسر جیسے چھوٹے چھوٹے اور تاریک حجروں سے سلیمانیہ اور مہاباد جیسے حجروں میں جاتے تھے، وہ خود بخود سیاسی بحثوں کا حصہ بن جاتے تھے اور وہ فکری جمود کا شکار نہیں ہوتے تھے اور ان کی نظر میں ان کی ذمہ داری، روزانہ پانچ وقت نماز اور جمعے کی نماز پڑھانے تک محدود نہیں تھی۔

وہ اکیلا شخص جس نے مرانہ گاؤں چھوڑنے اور اس سفر میں ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا، جناب سید اسماعیل حسینی تھے جو شروع سے ہی گاؤں کے سردار، حسن سے لڑائی اور کھل کر اس کی مخالفت کرنے کے خلاف تھے۔ ہم نے اپنا چھوٹا موٹا سامان صوفی طالب کے گھر لے جا کر انہیں سونپ دیا تھا اور کانی سیف، نوی، چنارہ اور اپنے زِلم گاؤں کے راستے سہ رگہ ت گاؤں پہنچ گئے۔ گزشتہ سال کے موسم گرما میں، میں نے سہ رگہ ت گاؤں کو چھوڑا تھا اور 1969(1348) کی خزاں میں، میں دوبارہ ماموستا ملا صدیق کی خدمت میں جارہا تھا۔ پرانی جان پہچان کے سبب انہوں نے میرے لوٹ کر آنے پر گرمجوشی سے میرا استقبال کیا اور فرمایا: ’’کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ لوگ جائیں اور جا کر ایران سے اپنا سامان لے آئیں، اور پہلی فرصت میں اپنی پڑھائی شروع کردیں۔‘‘

اگلے دن دوبارہ ہم جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے پیدل، ایران اور مرانہ گاؤں کے لیے روانہ ہوگئے۔ رات کو ہم مرانہ کے پڑوس کے گاؤں لیو محمود بیگ میں گاؤں کی مسجد میں سوگئے اور اگلے دن صبح سویرے مرانہ چلے گئے۔ ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور عراق لوٹ آئے۔ مرانہ جاتے اور واپس لوٹتے وقت ہم لوگ احتیاط کر رہے تھے کہ کہیں وہ لوگ ہم پر شبخون نہ ماریں۔ البتہ چونکہ ہم چار لوگ متحد تھے، اس لیے مرانہ کے باسیوں میں ہمارا سامنا کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ ہماری گستاخی کرنے میں ان کی شرم نے ہماری طاقت کو مزید بڑھا دیا تھا۔ بعد میں ہم نے گاؤں والوں سے سنا کہ اس واقعے کے بعد، طالب علموں سے لڑائی جاری رہنے کے ڈر سے کوئی بھی دو دن تک گاؤں سے باہر نہیں جا رہا تھا۔

بہرحال، 1969(1348) کی خزاں کے اوائل میں، سہ رگہ ت گاؤں سے عراق کے ضلع خُرمال کی جانب ہماری ہجرت کے سبب، مرانہ گاؤں کا درس کا حجرہ بند ہوگیا۔ اس بار ہم نے تقریباً دو سال تک سہ رگہ ت گاؤں میں قیام کیا اور اس دوران میں صرف ایک مرتبہ اپنے گھر والوں سے ملنے گیا۔ میں نے سیوطی(عبد الرحمٰن بن ابی بکر بن محمد) کی لکھی، الفیہ(محمد بن محمد بن عبد الھر بن مالک بدر الدین کی تألیف جنہوں نے ادبیات عرب کو ہزار اشعار کی صورت میں نظم دیا ہے) کی شرح ’’بھجۃ المرضیۃ‘‘ ختم کرلی۔ البتہ اس کے ساتھ میں نے امام شافعی[1] کی فقہ سے متعلق، امام نبوی(نووی) کی لکھی کتاب ’’منہاج الطالبین‘‘ سے فقہ کا درس بھی پڑھا۔

علاقے کے علماء کے بزرگ، جناب ماموستا ملا محمد بہاء الدین کی موجودگی کی وجہ سے ہم خُرمال کے آس پاس کے طالب علم، علماء کے ساتھ ہر ہفتے خاص طور پر منگل کے دن، خُرمال جایا کرتے تھے۔ ہمارا سہ رگہ ت سے (خُرمال) جانا ایک طرح کی تفریح بھی تھا اور ہم وہاں بڑے بڑے علماء سے آشنا بھی ہوتے تھے۔

ایک دن عصر کی نماز کے بعد، خُرمال کی قدیمی مسجد کے صحن میں مجمع لگا ہوا تھا اور ایک شخص ان میں تقریر کر رہا تھا۔ تقریر کرنے والے کی شکل و صورت اور حلیہ، علماء جیسا نہیں لگ رہا تھا اور اس کے کپڑے اور عمامہ بھی مختلف تھا۔ ماموستا محمد بہاء الدین، ملا احمد، کاک محمود، ملا احمد نعمتی اور ملا عزت دزآوری جیسے بڑے علماء بھی سامعین میں شامل تھے۔ وہاں موجود افراد بہت غور سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں کہ جن کی تقریر سارے علماء اور طالب علم بیٹھ کر سن رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ’عریف(سارجنٹ) باقی ہورامی‘ ہیں۔ ’باقی‘، سارجنٹ رینک کے ایک فوجی تھے، جنہیں عراقی ان کے ملٹری رینک سے ’’عریف(سارجنٹ) باقی‘‘ بلاتے تھے۔ ان کا تعلق خُرمال سے تھا اور وہ ایک عقلمند، حکیم اور عمومی ثقافت سے بخوبی واقف شخص تھے۔ اس دن میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر خدا چاہے تو کچھ لوگوں کو ایک خاص قسم کی حکمت عطا کرتا ہے چاہے وہ کسی مکتب یا مدرسے میں پڑھے بھی نہ ہوں، اس طرح کے لوگوں کی  حکمت و دانائی ہر مُدرس اور طالب علم کے لیے مفید ہے اور کُرد قوم میں اس طرح کے عقلمند، ہوشیار اور سمجھدار افراد کم نہیں ہیں۔

طالب علموں کے معمول کے مطابق ہم منگل کی ایک رات خُرمال میں آرام کر رہے تھے اور اگلے دن خُرمال کے نواحی گاؤں دُجَیلہ کے پاس جشن آزادی منعقد ہونے والا تھا۔ اس وقت عراق کی حکومت، صدر حسن البکر کے پاس تھی اور صدام حسین، نائب صدر تھا کہ جس نے عراق کے کُردستان کے رہنما ملا مصطفیٰ بارزانی کے ساتھ 11 مارچ 1970 کی قرارداد پر دستخط کیے تھے۔ اس قرارداد میں عراقی حکومت نے سرکاری طور پر کُردوں کے حقوق اور خودمختاری کو تسلیم کیا تھا اور جنگ ختم ہوگئی تھی۔

کُردستان میں جشن کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ اگلی صبح، دس بجے ہم جشن کی تقریب میں جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ تقریباً بیس مولانا موجود تھے۔ ملا عزت دزآوری نے ملا غفور کلجینی نامی ایک طالب علم سے کہا: ’’دوپہر کے لیے کھانے پینے کا زیادہ انتظام کرنا۔ کُردوں کو آزادی ملی ہے، ہمیں بھی خوشی منانی چاہیے۔‘‘

ملا غفور نے ہورامی لہجے میں کہا: ’’ماموستا، کُردوں کو آزادی ملی ہے نہ ہورامیوں کو۔ ہم خود کو کیوں ہلکان کریں؟!‘‘

اس کی اس بات پر لوگ ہنسنے لگے۔ ایک چٹیل میدان میں تلاوت قرآن مجید اور تقریر کے ساتھ جشن کی تقریب شروع ہوئی اور پروگرام کے دوران اکثر لوگ، خاص طور پر جوانوں نے رقص بھی کیا۔

خُرمال آمد و رفت ہمارے لیے درسی ثمرہ بھی رکھتی تھی اور تفریح بھی۔ ایک دن خُرمال کی مسجد کے صحن میں ہم نے دو محترم علماء کو جھگڑا کرتے دیکھا۔ ہم نے گلپ گاؤں کے مُدرس اور امام مسجد ماموستا ملا ہادی حق شناس کو تپی صفا(حلبجہ کے نواحی) گاؤں کے مُدرس اور امام مسجد ماموستا سید نجم الدین کے ساتھ جھگڑا کرتے دیکھا۔ ماموستا ہادی، جناب شیخ عثمان نقشبندی کے مرید اور صوفی تھے اور ماموستا سید نجم الدین اخوان المسلمین کے ممبر تھے۔

نشست کے شروع میں وہ آرام سے بات کر رہے تھے اور ہم بھی کسب فیض کر رہے تھے لیکن آہستہ آہستہ بحث سنجیدہ ہوگئی اور تنقید بھی شدت اختیار کرگئی۔ ماموستا سید نجم الدین نے سید قطب کی ’تفسیر فی ظلال القرآن‘ کا حوالہ دیا اور ان سے کہا: ’’ملا ہادی صاحب، اس کتاب کو پڑھو تاکہ تمہیں کچھ علم آئے۔‘‘

ماموستا ملا ہادی نے غصے سے انہیں جواب دیا: ’’میری نظر میں ’تفسیر فی ظلال‘ ایک اخبار کی حیثیت رکھتی ہے اور میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ ’شرح گلنبوی و آداب و علم منطق‘ پڑھیں تاکہ آپ کو بات کرنے کا طریقہ آئے۔‘‘

بات جھگڑے کی طرف جارہی تھی کہ کچھ مولویوں کے بیچ بچاؤ کی وجہ سے تکرار ختم ہوئی۔ شروع میں اس نشست میں موجودگی ہمارے لیے مفید تھی کیونکہ ہم علمی لحاظ سے حوزہ کی ابتدائی سطح پر تھے لیکن بحث کے آخر میں ہمیں بہت دکھ ہوا، کیونکہ بحث، سخت رویے اور جھگڑے کی طرف چلی گئی تھی۔

تقریباً دو سال تک سہ رگہ ت میں پڑھائی اور زندگی، اچھی اور خوشگوار گزری۔ 1971(1350) کے موسم گرما میں، جناب ماموستا ملا صدیق حج کے کاروان کے مولانا اور سالار کی حیثیت سے حرمین شریفین جانے اور حج تمتع کا ارادہ رکھتے تھے۔ روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے ہم سے کہا: ’’عزیزو! میں حج پر جارہا ہوں، میرا سفر قریب ڈیڑھ مہینے کا ہوگا۔ مجھ سے پکا وعدہ کرو کہ میری غیر موجودگی میں تم لوگ گاؤں کی نماز جماعت اور جمعے کی نماز کو ترک نہیں کرو گے، خدا نے چاہا تو واپس آتے ہی میں آپ لوگوں کے پڑھائی کے پیچھے رہ جانے کی تلافی کردوں گا۔‘‘

ہم نے جناب ماموستا سے وعدہ کیا کہ ان کے سفر سے لوٹنے تک ہم گاؤں کے مذہبی امور انجام دیں گے۔ ماموستا مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈال دیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ہم ان کی غیر موجودگی میں اپنا وقت کیوں برباد کریں۔ اگر ہم بھی نہ ہوں تو گاؤں والے، امام مسجد اور امام جمعہ بنانے کے لیے خود ہی کسی کو ڈھونڈ لیں گے۔ وہ گئے اور ہم نے مدرسے کو بند کردیا اور گاؤں کو چھوڑ کر چلے گئے۔

اس وعدہ خلافی نے ہم پر، خاص طور پر مجھ پر چونکہ میں طالب علموں کا بڑا تھا، بہت برا اثر ڈالا۔ سہ رگہ ت سے جانے کے بعد، میں نے اپنے زندگی میں بے توفیقی کا ایک دور دیکھا جس کی وجہ میری نظر میں جناب ماموستا سے کیے ہوئے وعدے کو پورا نہ کرنا تھا۔ یہ چیز ہمیشہ مجھے پریشان کرتی رہی اور کر رہی ہے۔ بے توفیقی سے میری مراد، میری تعلیم کے معاملے میں بے توفیقی تھی۔ اس وقت تک مجھے ’’الفیہ‘‘ کے ہزار اشعار میں سے آٹھ سو اشعار یاد تھے اور کتاب ’’کافیہ‘‘ اور ’’تصریف ملا علی‘‘ کی عبارتیں اور کئی اور عبارتیں میں نے حفظ کر رکھی تھیں۔ اس واقعے کے بعد، میرا ذہن پریشانی کا شکار ہوگیا اور میں کم ہی اپنے روزانہ کے دروس کو حفظ کر پاتا تھا اور میری یادداشت بھی کمزور ہوگئی۔ آج بھی جب میں سہ رگہ ت کو یاد کرتا ہوں تو میں ذہنی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، فرماتے ہیں: ’’شَکوتُ إلیٰ وکیع سوء حفظی؛ فأرشدنی إلیٰ ترک المعاصی

و قال: إعلم بأن العلم فضل و فضل اللہ لایؤتہ العاصی۔‘‘

یعنی میں نے استاد وکیع ابن جراح ۔ صحاح ستہ کے ایک راوی ۔ سے اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے گناہوں کو ترک کرنے کی ہدایت کی اور کہا: ’’جان لو کہ علم، فضل اور نور ہے۔ خدا کا فضل اور نور گنہگار کے دل میں نہیں اترتا۔‘‘

1350(تقریباً 1971) کی دہائی کے شروع ہونے اور عراق میں بعث پارٹی کی حکومت اور ایران میں شہنشاہی(ایرانی بادشاہی) حکومت کے  کُرد نشین علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ہی، حالات کچھ اس طرح کے ہوگئے تھے کہ غیر ملکیوں پر پہلے سے زیادہ سختی کی جارہی تھی اور ان دو ملکوں کی سرحدوں سے آمد و رفت کو مزید منظم کردیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں، ملٹری چیک پوسٹس سے گزرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ دوسری طرف، ایران سے آنے والی خبریں، عراق میں رہائش پذیر طالب علموں اور کُردی غیر ملکیوں کے ساتھ برے سلوک کے لیے ایران کی ساواک کی بہانے بازی کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ ان سب سے زیاد اہم، وطن کی محبت اور گھر والوں سے لگاؤ تھا۔ وطن اور گھر والوں کی یہ محبت اس حد تک میرے لیے مستقل آزار کا باعث بن چکی تھی کہ اس نے میرے لیے بیرون ملک تعلیم جاری رکھنے کو ناممکن بنادیا۔ عراق میں پانچ سال کی غیر مستقل پڑھائی کے بعد، میں نے ہمیشہ کے لیے اس کے حجروں کو خیرباد کہہ دیا۔

 

 


[1]  محمد ادریس شافعی(150۔204 ہجری قمری)۔ آپ کا لقب ’ابو عبد اللہ‘ تھا اور آپ ’امام شافعی‘ کے نام سے مشہور ہیں، آپ فلسطین میں غزہ شہر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے مسلمانوں کے ساتھ مکے سے فلسطین، الرُباط، غزہ اور عسقلان ہجرت کی۔ شافعی کی ولادت کے کچھ عرصے بعد ہی غزہ میں ان کے والد کی وفات ہوگئی۔ والد کی وفات کے بعد شافعی اور ان کی والدہ مکے لوٹ آئے۔ شافعی کا نسب جناب عبد مناف سے ملتا ہے جو محمد ص ابن عبد اللہ کے جد امجد ہیں۔ امام شافعی، مکے میں فقہی علوم میں پیشرفت کرتے ہیں اور اس دیار کے ایک نمایاں عالم بن جاتے ہیں۔ شافعی، اہل سنت کے تیسرے بڑے فقیہ ہیں۔ شافعی مذہب، فقہ امامیہ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ محمد بن ادریس شافعی کے پیروکار، شافعی کے نام سے مشہور ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 75


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

جو کام بھی ہوسکے

خواندگی کی تحریک کی معلمہ، زہرا میر جلیلی کی یاد
جیسے ہی کلاس ختم ہوئی تو ہم خط لکھنے بیٹھ گئے۔ اب خواتین نے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ہر کوئی مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے دل کی باتیں لکھ رہا تھا۔ ہر پیکٹ میں ہم نے ایک خط رکھا اور اسے سی کر بند کردیا۔ پھر میں نے الرضا(ع) مسجد[1] کیمپ کے انچارج کو بتایا کہ شمس الشموس مسجد[2] بھیجے جانے لیے پیکٹس تیار ہیں۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔