سردخانے میں شاہ کے ایجنٹوں کے جرم کی ویڈیو بنانا

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-3-21


اس دن(30 دسمبر 1978 / 9 دی 1357، مشہد ) پورے شہر میں افراتفری تھی؛ اسپتال میں کسی طرح، اسٹور میں کسی طرح، دوسری جانب سینما بھی جل رہا تھا۔ میں نے تو یہاں تک سنا کہ کچھ لوگوں نے ’’انجمن ایران و امریکہ‘‘ جیسے مراکز یا غیر ملکیوں سے تعلق رکھنے والی جگہوں کو بھی آگ لگادی ہے۔ یہ جھڑپیں مغرب تک جاری رہیں، آہستہ آہستہ اندھیرا ہوگیا اور لوگ منتشر ہوگئے۔ میں بھی گھر کی طرف چلا گیا۔ معمولاً جب میں گھر پہنچتا تھا تو اپنی والدہ اور بچوں کو دن کے واقعات کے بارے میں بتاتا تھا کہ ایسا ہوا ویسا ہوا۔ کبھی کبھار میری والدہ پریشان ہوجاتی تھیں لیکن چونکہ وہ جانتی تھیں کہ میں اس قسم کا انسان نہیں ہوں کہ اگر وہ کہیں گی کہ نہ جاؤ تو میں ان کی بات سن لوں گا، لہٰذا وہ صرف اتنا ہی کہتی تھیں کہ اپنا خیال رکھنا! اس رات مشہد کے اسپتالوں نے اعلان کیا کہ زخمیوں کے لیے انہیں خون کی ضرورت ہے۔ عام طور پر جب یہ خبر نشر ہوتی تھی تو کافی سارے لوگ خون دینے چلے جاتے تھے۔ رات کے قریب دس بجے میں نے اپنا کیمرہ اٹھایا اور خون دینے اور اس دن کے شہداء کے جنازوں کی ویڈیو بنانے کے لیے اسپتال کی طرف چل پڑا۔ نکلنے سے پہلے میں نے فون پر نعیم آبادی سے شہناز اسپتال کے سامنے ملنے کو کہا۔ کرفیو لگنے میں دو تین گھنٹے رہ گئے تھے، جب میں اسپتال پہنچا تو میں نے گارڈ سے پوچھا کہ کیا صورتحال ہے؟ اس نے بتایا: ’’کچھ لاشیں لائی گئی ہیں لیکن زیادہ تر لاشوں کو شاہ رضا اسپتال لے گئے ہیں۔‘‘ نعیم آبادی کے ساتھ میں سیدھا سردخانے کی طرف چلا گیا۔ وہاں ہم نے کچھ میتوں کی درازیں کھولیں اور انہی چند شہیدوں کی ویڈیو بنائی پھر ہم جلدی سے سردخانے سے باہر آگئے تاکہ کرفیو لگنے سے پہلے شاہ رضا اسپتال پہنچ جائیں۔ ہمارے پاس خون دینے کا بھی وقت نہیں تھا۔ جب ہم جلدی میں ہال سے باہر آرہے تھے تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ خون دینے کے لیے ہال میں بیٹھے ہیں۔ اتفاق سے ان لوگوں میں، میں نے شریعتمدار صاحبہ کو دیکھا جو فری سینما کورس میں میری کلاس فیلو تھیں۔ جب میں نے غور کیا تو دیکھا کہ ان کی آستین اوپر تھی اور انہوں نے ابھی ابھی خون دیا تھا۔ میں نے ان سے سلام دعا کی اور کہا: ’’رات کے اس وقت آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’مجھے پتہ چلا کہ خون کی ضرورت ہے تو میں خون دینے آگئی۔‘‘ شریعتمدار صاحبہ، طالبہ تھیں اور وہ چادر پہنتی تھیں۔ وہ بہت پردہ دار تھیں۔ وہ بھی اس وقت جب اکثر خواتین بے پردہ تھیں۔ جب انہوں نے میرے کندھے پر کیمرہ دیکھا تو پوچھا: ’’آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا: ’’ہم نے سردخانے میں شہداء کی تصویریں کھینچی ہیں اور اب ہم شاہ رضا اسپتال جارہے ہیں۔‘‘ جیسے ہی میں نے یہ کہا تو وہ کہنے لگیں: ’’میں بھی چلوں گی۔‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں! آپ نے ابھی خون دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی طبیعت خراب ہوجائے اور کرفیو بھی لگنے والا ہے۔ اس اسپتال کا سردخانہ بھی باغ سے نیچے جا کر ہے۔ رات کے اس وقت جانا خطرناک ہے۔‘‘ میں نے انہیں جتنا بھی سمجھایا وہ نہیں مانیں اور اصرار کرنے لگیں کہ میں بھی چلوں گی۔ آخرکار ہم تین لوگ نعیم آبادی کی ٹویوٹا کار میں بیٹھ کر چلے گئے۔ شاہ رضا اسپتال کا گارڈ  اسپتال میں دھرنے کے زمانے سے مجھے جانتا تھا اور پہلے بھی میں سردخانے کی ویڈیو بنانے کے لیے جا چکا تھا۔ بہت آسانی سے ہم گاڑی لے کر اسپتال کے درختوں کے بیچ پہنچ گئے جو ایک باغ جیسے تھے اور گاڑی کو وہاں پارک کردیا۔ سردخانہ ایک پرانی اور بڑی عمارت کے نیچے واقع تھا اور ہم انہی درختوں کے بیچ سے وہاں چلے گئے۔ باغ میں ایک ہولناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ قریب رات کے گیارہ بجے سے زیادہ کا وقت تھا کہ جب گارڈ نے ہمارے لیے دروازہ کھولا اور کہا جلدی سے تصویریں وغیرہ کھینچ لو اور چلے جاؤ۔ چونکہ میں پہلے سے جانتا تھا کہ پاور ہاؤس سردخانے کے ہال کے آخر میں ہے اسی لیے میں اپنے ساتھ ایک لمبا تار لے کر گیا تھا۔ میں نے تار کا سرا جس میں پلگ بھی نہیں تھا نعیم آبادی کو دے دیا۔ اس رات اس کے پاس کیمرہ نہیں تھا۔ میں نے کہا: ’’آپ نیچے جائیں اس تار کو بجلی کے ساکٹ میں لگائیں اور اسے پکڑ کر رکھیں۔‘‘ میں نے شریعتمدار صاحبہ سے کہا کہ آپ سردخانے کے باہر سے میرے لیے فلڈ لائٹ کو پکڑ کر رکھیں۔ شہداء کے جنازے سردخانے کے ہال کے ایک کمرے میں رکھے تھے۔ جب میں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ جنازوں کو زمین پر ایک کے اوپر ایک رکھا ہوا تھا اور ان کے جسم کے کسی نہ کسی حصے پر گولی لگی تھی۔ ان میں سے کسی کو بھی کفن نہیں دیا گیا تھا اور انہیں انہی خون آلود کپڑوں میں رکھا ہوا تھا۔ درازوں کے اندر بھی جنازے بھرے ہوئے تھے جو شاید عام لوگوں کے تھے۔ میں نے اپنی پینٹ کے پائنچے چڑھائے اور خون آلود جنازوں کے بیچ چلا گیا۔

شریعتمدار صاحبہ کمرے کے باہر سے لائٹ پکڑی ہوئی تھیں۔ چونکہ میں گہرائی سے جرم کو دکھانا چاہتا تھا اس لیے میں لاشوں کے بیچ سے گزر رہا تھا تاکہ ان لوگوں کے باہر نکلے دماغوں اور ٹکڑے ہوئے جسم کے حصوں کی ویڈیو بنا سکوں جو کل تک ہمارے ساتھ تھے۔ ان کے بیچ مجھے ایک دو فوجیوں کی لاشیں بھی نظر آئیں۔ میں اسی طرح سے ویڈیو بنانے میں مشغول تھا کہ اچانک مجھے باغ سے ایک آواز سنائی دی کہ ’’جلدی باہر آؤ! فوجی آرہے ہیں۔‘‘ میں ہکہ بکہ رہ گیا۔ شریعتمدار صاحبہ کا بھی رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔ میں نے کہا شاید وہ ان فوجیوں کی لاشیں لینے آرہے ہیں۔ میں سردخانے کے کمرے سے باہر آگیا۔ میں چلایا: ’’ اصغر صاحب! اصغر صاحب! تار نکال دیں، وہ آگئے۔‘‘ نعیم آبادی ہال کے آخر میں تھے اور پاور ہاؤس کا شور انہیں کچھ سننے نہیں دے رہا تھا۔ میں کئی بار چلایا اور آخر میں انہوں نے سن لیا۔ ہم نے جلدی سے اپنا سامان جمع کیا اور سردخانے کا دروازہ بند کرکے باغ میں آگئے۔ وہاں کچھ خاص نہیں ہوا تھا بس لشکر چورنگی کی طرف سے شدید فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ آوازیں اتنی قریب سے آرہی تھیں کہ گارڈ کو لگا کہ فوجی اسپتال کے اندر آرہے ہیں۔ کرفیو لگنے میں کچھ ہی لمحے باقی تھے، ہم اسپتال کے دروازے کے سامنے جلدی سے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور میں وہیں سے گھر کی طرف پیدل چل پڑا۔ نعیم آبادی اپنی گاڑے میں شریعتمدار صاحبہ کو گھر چھوڑنے چلے گئے۔

 

منبع: انقلاب رنگ ھا، خاطرات شفاھی علیرضا خالقی، تدوین حسن سلطانی، قم، نھاد نمایندگی مقام معظم رھبری در دانشگاہ جبھہ فرھنگی انقلاب اسلامی، 1394، ص 131۔134.



 
صارفین کی تعداد: 93


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

جو کام بھی ہوسکے

خواندگی کی تحریک کی معلمہ، زہرا میر جلیلی کی یاد
جیسے ہی کلاس ختم ہوئی تو ہم خط لکھنے بیٹھ گئے۔ اب خواتین نے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ہر کوئی مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے دل کی باتیں لکھ رہا تھا۔ ہر پیکٹ میں ہم نے ایک خط رکھا اور اسے سی کر بند کردیا۔ پھر میں نے الرضا(ع) مسجد[1] کیمپ کے انچارج کو بتایا کہ شمس الشموس مسجد[2] بھیجے جانے لیے پیکٹس تیار ہیں۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔