نجف میں ایرانی نوجوانوں اور جوانوں کی تربیت
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-3-5
ایران میں ’’رضوی نیشنل پرائمری اسکول‘‘ اور ’’مرکز مذہبی بحث و تنقید‘‘ کے قیام کے بعد کے اپنے تجربے کی بنا پر نجف میں، شروعاتی سالوں سے ہی مجھے نوجوانوں اور جوانوں کے لیے دکھ ہوتا تھا اور مجھے ان کے مستقبل کی فکر ہوتی تھی اور میں کوشش کرتا تھا کہ حتی الامکان انہیں صحیح سمت میں لے جاؤں۔ نجف میں بھی یہ فکریں مجھے چین نہیں لینے دیتی تھیں اور میں کچھ کرنا چاہتا تھا تاکہ اس ہدف کو حاصل کرسکوں، لیکن مجھے دوسروں کی مدد کی ضرورت تھی۔ اسی زمانے میں آیت اللہ شاہرودی نے ’نیشنل پرائمری اسکول‘ قائم کیا تھا اور ایرانی، افغانی، پاکستانی اور دوسرے فارسی زبان طالب علموں کے بچے اس اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ دوسری جانب ایرانیوں کے اسکول، سرکاری تھے اور ان کے اخراجات ایرانی حکومت اٹھاتی تھی، اس کے بعض اساتذہ، ساواکی تھے۔
میں ان بچوں کی تربیت کے حوالے سے کام کرنا چاہ رہا تھا لیکن میری ان تک رسائی نہیں تھی۔ میرے صرف ایک دو دوست تھے کہ جن پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا؛ ان میں سے ایک حسن زادہ کاشمری صاحب تھے جو آیت اللہ شاہرودی کے اسکول میں پڑھاتے تھے۔ میں نے ان سے بات کی کہ وہ بچوں کی تربیت شروع کریں اور انہیں اس سمت لے کر آئیں، وہ مان گئے اور اس کام میں لگ گئے۔ ایک دو میٹنگز کے بعد ایک دن وہ گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’حالات خراب ہوگئے ہیں اور بچے مجھے مارنا پیٹنا چاہتا ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’کیوں آپ نے کیا کیا؟‘‘ انہوں نے بتایا: ’’میں نے شاہ کے خلاف یہ بات کردی۔‘‘ میں نے کہا: ’’ابھی یہ باتیں نہیں کرنی تھیں۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’اب کیا کریں؟‘‘ میں نے کہا: ’’اس سے پہلے کہ وہ آپ کو مار ڈالیں، آپ ان کے گھر جائیں اور ان سے بات کریں اور کہیں کہ مجھ سے غلطی ہوگئی اور معاملے کو ٹھنڈا کریں۔‘‘ اس کے بعد میں انہیں مسلسل بتاتا تھا کہ اس مرحلے میں آپ کو کیا کرنا ہے۔ وہ مسلسل مجھے رپورٹ دیتے رہتے تھے اور میں بھی اپنی پوری کوشش کرکے ان کی رہنمائی کرتا تھا۔ کچھ عرصے بعد شیخ حسین علی انصاری نجف آبادی صاحب نے بھی ایک نوجوان کے ذریعے کام شروع کردیا اور وہ بھی مشغول ہوگیا۔ میں نے مشورہ دیا کہ میں بچوں سے ملاقات کروں گا اور پھر میں نے ان کے لیے عربی ادب اور جامع المقدمات کی کلاس شروع کردی۔ میں ان میں سے کچھ بچوں کو پڑھاتا تھا، پھر ان کے کچھ دوست بھی آنے لگے اور آہستہ آہستہ وہ لوگ رشد کرنے لگے۔ انصاری صاحب، قدیری نامی ایک چھوٹے سے اسکول میں بچوں کی تربیت کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ بچے شروع میں جن کے بارے میں حسن زادہ صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ انہیں مارنا چاہتے ہیں اور وہ اس بات کے معتقد تھے کہ آپ ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں؛ ہمارا گوشت، کھال اور ہڈیاں، شاہ کے پیسوں سے بڑھی ہیں، اب وہ کہہ رہے تھے کہ ہم، شاہ کے خلاف کیسے سرگرمیاں انجام دیں؟ اب حالات ایسے ہوگئے تھے کہ کچھ عرصے بعد وہ بچے راتوں کو ایرانیوں کے اسکول جاتے تھے اور شاہ اور اس کی بیوی کی تصویریں ہٹا دیتے تھے اور اسکول کی دیواروں پر ’شاہ مردہ باد‘ لکھ دیتے تھے اور اگلے دن وہیں پڑھائی کرتے تھے۔ وہاں کے کچھ اساتذہ جو ساواکی تھے، وہ یہ دیکھنے کی پوری کوشش کر رہے تھے کہ یہ کون سے بچے ہیں؟ یہاں تک کہ ان میں سے ایک استاد نے بچوں کو پریشان کرنا شروع کردیا، لیکن جب اسے بچوں کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑا تو پھر مزید اس نے اس کام کی جرات نہیں کی اور اس طرح سے یہ بچے، نجف کے انقلابیوں میں شامل ہوگئے اور وہ نجف میں بہت سی انقلابی سرگرمیاں انجام دیتے تھے اور یہ بھی امام کی برکات میں سے تھا۔
منبع: خاطرات سال ھای نجف، ج 2، تھران، نشر عروج، چ 1، 1389، ص 38۔39.
صارفین کی تعداد: 71








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
الذین و الذینہ / دوپہر کے کھانے کا وقت ہے / ہمیں بھوک لگی ہے
اس زمانے میں ابھی تک لوگ ساواک کے نام سے ڈرتے تھے لیکن اس سب کے باوجود، ہم نے پیدل مارچ میں جانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور ہم نے پرنسپل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ اسکول کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے پرنسپل بچوں کو جانے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئیں"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

