جزیرے کے کتے

ابراہیم خلج

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-2-27


ہماری جان پہچان فٹ بال کھیل کے ذریعے ہوئی تھی۔ ہم کیچڑ والی زمین پر پلاسٹک کے جوتے پہن کر دوڑتے تھے۔ وہ لوگ ایک ٹیم میں تھے اور ہم مخالف ٹیم میں؛ توپ خانے کے نگہبان کے سامنے آپریشن انٹیلیجنس کے ساتھی۔

میں ان دونوں کو روزانہ دیکھتا تھا۔ شام کے وقت وہ لوگ غوطہ خوری کا لباس پہن کر آتے تھے اور دریائے اروند کے بنکرز کے کنارے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے کہ اندھیرا ہو اور وہ پانی میں اتریں۔ کبھی تو میں انہیں ٹاور کے اوپر سے دیکھتا تھا اور کبھی جب میں دیر سے واچ ٹاور سے نیچے آتا تھا اور بنکر کے سامنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر باتوں میں مشغول ہوتا تھا تب انہیں دیکھتا تھا۔

اس دن شام کو میں جتنی دیر بھی ٹاور پر بیٹھا انتظار کرتا رہا، بیس نے توپ خانے کو فائرنگ کی اجازت نہیں دی۔ میں دوسرے دنوں کی نسبت جلدی نیچے آگیا۔ اسی وقت وہ دونوں(غلام اور عباس) غوطہ خوری کا لباس پہنے پانی کی طرف آرہے تھے، ان کے کمانڈر حاجی محسن بھی ان کے ساتھ تھے۔ ہم نے سلام دعا کی اور وہ لوگ کھڑے ہو کر اذان کا انتظار کرنے لگے۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔ انہوں نے نماز پڑھی اور پھر قبلے کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوئے اور ایک بار سورہ حمد اور تین بار قل ھو اللہ پڑھ کر چلے گئے۔

اس رات، حاجی محسن صبح تک پانی کے پاس بیٹھے رہے۔ کئی بار جب میں بنکر سے باہر آیا تو میں نے انہیں پانی کے پاس اُکڑو بیٹھے یا ٹہلتے دیکھا۔ وہ بہت پریشان تھے۔

ہر روز کی طرح میں صبح ٹاور کے اوپر چلا گیا۔ میں نے دوربین کو سیٹ کیا اور اپنے سامنے کے علاقے پر نظر ڈالی۔ جزیرۂ ’ام الرصاص‘ مجھے نظر آرہا تھا۔ پانی کے کنارے کے بنکرز، جزیرہ کے بیچ کا خالی علاقہ، نخلستان اور وہ پُل جو جزیرہ کو خشکی سے جوڑتا تھا۔ کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ سب کچھ گزشتہ دنوں جیسا ہی تھا۔

میں دوپہر تک بے کار رہا۔ فائرنگ کی اجازت نہیں دی گئی جب سورج آسمان کے بیچ پہنچا تو میں نیچے آگیا۔ میں نے دوپہر کا کھانا کھایا اور دوبارہ اوپر چلا گیا۔ میں مزید کافی دیر تک انتظار کرتا رہا لیکن وائرلیس اسی طرح بند تھا۔

میں اپنے خیالوں میں تھا کہ میں نے دیکھا کہ اچانک جزیرہ میں ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں اور اس کے بعد فوجی، جزیرے میں پھیل گئے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی۔ وہ کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ سرکنڈوں کو ادھر ادھر ہٹا رہے تھے، ہر جگہ چھان رہے تھے اور ہر طرف جا رہے تھے۔

اچانک سرکنڈوں کے بیچ سے دو سیاہیاں باہر نکلیں اور جزیرے کے بیچ کے خالی علاقے کی طرف دوڑیں۔ میں نے دوربین سے ان کا پیچھا کیا۔ انہوں نے غوطہ خوری کا لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ ایک پَل کے لیے رکے، انہوں نے ایک دوسرے سے کچھ کہا اور دونوں الگ الگ سمتوں میں بھاگ گئے۔ میں نے دوربین سے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ سرکنڈوں میں غائب ہوگئے۔

عراقی فوجی آہستہ آہستہ قطاریں بنانے لگے۔ انہوں نے ایک دستہ بنایا اور ڈھونڈنا شروع کیا؛ بالکل غیرملکی  فلموں کی طرح، وہ سرکنڈوں کو پیروں سے کچل رہے تھے اور آگے بڑھ رہے تھے۔

دوسرے طرف میں نے کچھ کتوں کو دیکھا جو ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور فوجی ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ کتے زمین کو سونگ کر آگے بڑھ رہے تھے۔

فوجیوں نے سرکنڈوں کو آگ لگادی۔ جزیرے کی فضا میں دھواں پھیل گیا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ کتے ایک جگہ جمع ہوگئے تھے۔ سرکنڈوں کے بیچ سے کوئی اٹھا۔ دھویں میں وہ مجھے سیاہ سایہ لگ رہا تھا۔ کتوں نے اسے گھیر لیا۔

وہ زمین پر گر پڑا۔ کتے اس پر جھپٹ پڑے۔ فوجی پہنچے اور انہوں نے غوطہ خور کو زمین سے اٹھایا اور اسے مُکے اور لاتیں مارنے لگے اور اسے گھسیٹ کر پانی کے کنارے والے بنکرز کی طرف لے گئے۔

پتہ نہیں کتنی دیر لگی لیکن شور شرابا ختم ہوگیا۔ عراقی ابھی تک جزیرے میں پھیلے ہوئے تھے اور دوسرے غوطہ خور کو ڈھونڈ رہے تھے۔ کس کو، علی کو یا غلام کو؟۔۔۔

میں بیٹھ گیا، لیکن وائرلیس اسی طرح بند تھا۔

دوبارہ فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ میں جلدی سے اٹھا۔ عراقی پانی کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور پانی کی طرف گولیاں چلا رہے تھے۔ میں نے دوربین کو پانی کی طرف گھمایا لیکن مجھے کچھ نہیں دکھا۔ میں نے ٹاور کے نیچے دیکھا، حاجی محسن نے گاڑی اسٹارٹ کی اور تیزی سے آبادان کی طرف چلے گئے۔

وہ مغرب کے وقت واپس آئے اور ان کے ساتھ ایک غوطہ خور بھی تھا۔ وہ بتا رہے تھے کہ وہ پانی میں اتر گیا تھا اور چونکہ اس کے پیروں میں ’’فنز‘‘ نہیں تھے اس لیے پانی کا بہاؤ اسے کھنیچ کر آبادان کی طرف لے گیا تھا۔

کچھ دنوں بعد، آپریشن ’والفجر۔8‘ شروع ہوا۔ پھر میں نے ان ساتھیوں کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا لیکن اس دن کا دوربین کا منظر میں کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔[1]

 

 

 

[1]۔ غلام کیانی پور نے آپریشن ’کربلا۔5‘ کے دوران شہادت پائی اور علی سیف الٰہی سن 1990(1369) میں دشمن کی قید سے لوٹ آئے۔

دو ھفته نامه کمان، ش1، ص8۔



 
صارفین کی تعداد: 132


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

الذین و الذینہ / دوپہر کے کھانے کا وقت ہے / ہمیں بھوک لگی ہے

اس زمانے میں ابھی تک لوگ ساواک کے نام سے ڈرتے تھے لیکن اس سب کے باوجود، ہم نے پیدل مارچ میں جانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور ہم نے پرنسپل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ اسکول کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے پرنسپل بچوں کو جانے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔