پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 32
دوبارہ عراق اور اس بار ’سہ رگہ ت‘ گاؤں
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-3-2
1968(1347) کے موسم گرما کے اواخر میں، ہم دزلی گاؤں سے عراق میں داخل ہوئے اور عراق میں کردستان کے ضلع خُرمال کے ایک قریبی گاؤں ’’سہ رگہ ت‘‘ میں سکونت پذیر ہوگئے۔ چند ماہ تک میں نے جناب حاجی ماموستا ملا صدیق کی خدمت میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور کتاب ’تصریف ملا علی‘ پڑھی۔ ایک دن جناب ماموستا نے کسے کو ہمارے پاس بھیجا اور پیغام بھیجا: ’’جناب حسین بیگ وکیلی جوانرودی کے گھر آپ کی دعوت ہے، آجائیں۔‘‘
حسین بیگ صاحب قبیلے کے سردار اور جوانرود کے مشہور بیگ زادوں میں سے تھے کہ جنہوں نے ایران کے شہنشاہی(بادشاہی) نظام کی مخالفت کی وجہ سے جوانرود کو چھوڑ کر عراق ہجرت کرکے، وہاں پناہ لے لی تھی۔ وہ، جوانرود اور شمشیر کے بیگ زادوں اور قبیلے کے قریب 20 افراد کے ساتھ، سہ رگہ ت گاؤں میں رہتے تھے اور مرحوم ملا مصطفیٰ بارزانی صاحب کی آرگنائزیشن اور کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے تحفظ کے سائے میں زندگی گزار رہے تھے۔ ہماری اور ماموستا کی دعوت، ایک حیرت انگیز بات تھی۔
جب ہم ان کے گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور پھل اور چائے وغیرہ کے بعد انہوں نے ہمیں دعوت دینے کی وجہ بتائی اور کہا: ’’سالوں سے پاوہ شہر کے خانقاہ گاؤں کی رہنے والی ایک خاتون ہمارے گھر میں کام کر رہی ہے۔ جب وہ ہمارے گھر آئی تھی تو وہ چھوٹی لڑکی تھی اور اب چونکہ وہ بڑی ہوگئی ہے اس لیے میں شرعی احکامات کا خیال رکھنے کے لیے اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور میری نظر میں آپ لوگ، نکاح پڑھنے اور گواہ بننے کے لیے بہترین لوگ ہیں۔‘‘
جناب ماموستا نے امام ابو حنیفہ کے مذہب کی پیروی کرتے ہوئے، والد کی اجازت کے بغیر ان دونوں کا نکاح پڑھ دیا اور ہم اس نکاح کے گواہ بن گئے۔
ہمیں وہاں رہتے ہوئے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ میرے دوست اور دیرینہ ساتھی، ملا عبد الرحمٰن نے کہا: ’’ میں (عراق کے کردستان کے صوبۂ حلبجہ کے)خُرمال شہر جا رہا ہوں۔ مجھے وہاں کچھ کام ہے۔‘‘
میں نے کسی قسم کی مخالفت کے اظہار یا ساتھ چلنے کی گزارش کے بغیر، اسے الوداع کہہ دیا۔ کچھ دنوں تک مجھے اس کی کوئی خبر نہیں تھی اور اس بے خبری کی وجہ سے میں بہت پریشان اور اس کے سلامتی کے لیے فکرمند رہا۔ کچھ عرصے بعد، مجھے ایک خط ملا جس کے پیچھے لکھا تھا: ’’تمہارا بھائی رحمان، سلیمانیہ سے۔‘‘
ان دنوں، سلیمانیہ جانا بہت مشکل تھا؛ خاص طور پر ایرانیوں کے لیے۔ اگرچہ ایرانیوں کی آمد و رفت بہت زیادہ تھی، لیکن آمد و رفت کے دوران جوانوں پر بہت سختی کی جاتی تھی۔ ملا عبد الرحمٰن نے معجزانہ طور پر چیک پوسٹیں اور چوکیاں پار کرلی تھیں۔ خط پڑھ کر اس کی سلامتی کے حوالے سے میری فکریں ختم ہوگئیں۔
حلبجہ اور خُرمال شہر اور اسی طرح سے شہرزور(سلیمانیہ شہر کے اردگرد کا ایک بڑا علاقہ) کے گاؤں پیشمرگہ پارٹی کے قبضے میں اور سید صادق اور سلیمانیہ شہر، عراق کی قومی حکومت کے شدید کنٹرول میں تھے۔ میں نے خط پڑھا۔ اس نے لکھا تھا: ’’میں عبد الرحمٰن رحیمی، سید صادق، عربت اور سلیمانیہ شہر میں عراقی حکومت کی چیک پوسٹوں پر عربوں کی سختی کے باوجود، اپنے شیخ کی مدد سے سلیمانیہ پہنچ گیا تھا اور میں حاجی خان مسجد میں زیر تعلیم ہوں۔‘‘
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ شیخ کی مدد سے اس کی مراد کسی خاص شخص کا نام لینا تھا یا کسی خاص شیخ کی مدد سے اس نے بعثی حکومت کی چیک پوسٹیں پار کی تھیں۔ عبد الرحمٰن کے چلے جانے سے مجھے پہلے سے زیادہ اکیلا پن محسوس ہونے لگا۔ دو ماہ بعد، میں سہ رگہ ت گاؤں سے خُرمال کے مشرق میں واقع، گلپ گاؤں چلا گیا اور میں نے ماموستا ملا ہادی حق شناس سے علم نحو کی کتاب ’شرح ملا جامی‘(شرح عبد الرحمٰن ابن احمد جامی، ابن حاجب کی کتاب الکافیۃ کی نحوی مباحث کی شرح) شروع کردی۔
میں ایک سال تک حلبجہ شہر کے نواحی گاؤں، گُلپ کے مدرسے میں رہا۔ گلپ کی مسجد کے پڑوس میں تین کمرے تعمیر کیے گئے تھے، جن میں سے ایک کمرہ، اسٹور اور باورچی خانہ تھا اور باقی کے دو کمرے طلبہ کے رہنے کی جگہ تھے۔ طالب علموں کے حالات اچھے تھے۔ کبھی کبھار میں تفریح اور اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے عَنَب جیسے گاؤں اور خُرمال شہر جایا کرتا تھا کہ جہاں میں پہلے جا چکا تھا۔ میں قابل بن چکا تھا اور میں نے مقدماتی دروس ختم کرلیے تھے، تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میں تین طالب علموں کو پڑھا بھی رہا تھا۔
صارفین کی تعداد: 96








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
الذین و الذینہ / دوپہر کے کھانے کا وقت ہے / ہمیں بھوک لگی ہے
اس زمانے میں ابھی تک لوگ ساواک کے نام سے ڈرتے تھے لیکن اس سب کے باوجود، ہم نے پیدل مارچ میں جانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور ہم نے پرنسپل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ اسکول کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے پرنسپل بچوں کو جانے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئیں"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

