پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 30
کانی میران
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-2-15
اگلے دن، ہم ماموستا ملا رشید کالی کے نام لکھا ہوا، دورود کے شیخ صاحب کا خط لے کر کانی میران کے لیے روانہ ہوگئے؛ وہ گاؤں جس کی مسجد میں شیخ صاحب کے لوگوں کے مطابق حال ہی میں طالب علموں کی رہائش کے لیے حجرے بنائے گئے تھے۔ ہم دورود کے پرانے روڈ کے ذریعے مریوان چل پڑے۔ مریوان، تفلی اور قلعہ چی گاؤں کے ساتھ واقع تھا۔ ہم وہاں سے باشماق بارڈر(عراق کے پنجوین شہر سے ملا ہوا، مریوان کے مغربی جنوب کا ایک سرحدی گاؤں) پر واقع کانی میران کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہم رات کو ذکریان گاؤں(دزلی کا ایک نواحی گاؤں) پہنچے اور مغرب کی نماز کے بعد کاک خلیل نامی ایک بھائی ہمیں اپنے گھر لے گئے اور ہماری مہمان نوازی کی، خدا، قیامت میں اسے جزائے خیر دے۔
کُرد لوگ، چاہے احساسات کی وجہ سے ہی سہی، پاک دل ہوتے ہیں۔ وہ اسلام سے محبت کرتے ہیں اور دین سے عشق کی وجہ سے طالب علموں اور علماء سے بھی محبت کرتے ہیں۔ کاک خلیل کے پاس ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جس میں وہ خود، ان کی جوان زوجہ اور اکلوتا بچہ رہتے تھے۔ رات کو ہم سب اسی کمرے میں سو گئے۔ ان کی زوجہ، بچے کے گہوارے کے دوسری جانب دیوار کے ساتھ، ماں باپ کے بیچ میں گہوارہ اور کاک خلیل کی اس جانب ہم دو لوگ، بالکل گھر کے فرد کی طرح۔
اگلے دن، ہم کانی میران جانے کے لیے درگاہ شیخان(گاؤں) کے لیے روانہ ہوئے۔ برفانی طوفان اتنا شدید تھا کہ چٹانوں سے گزرتے وقت، ہوا برف کو ہمارے منہ پر مار رہی تھی۔ ایک طرف تو ہم احتیاط کر رہے تھے کہ پہاڑ سے نیچے نہ گر جائیں اور دوسری طرف ہم اس راستے کا بھی دھیان رکھ رہے تھے جسے کسی حد تک برف نے ڈھک دیا تھا کہ ہم راستہ نہ بھٹک جائیں، لیکن بدقسمتی سے ہم راستہ بھٹک ہی گئے اور تین گھنٹے تک بھٹکنے کے بعد ہم درہ دزلی(سروآباد شہر سے 28 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نسبتاً بڑا گاؤں) کی طرف مڑ گئے۔ خدا نے ہمیں مرنے سے بچا لیا اور بڑی زحمتیں اٹھانے کے بعد ہم عصر کی نماز کے وقت، درگاہ شیخان(مریوان شہر کا ایک نواحی گاؤں) پہنچے۔
درگاہ شیخان میں، ہم نے رات کو گاؤں کے ایک مولانا صاحب، ماموستا ملا عارف کو زحمت دی اور اگلے دن ہم زریوار جھیل(کردستان صوبے میں، مریوان شہر کے مغرب میں تین کلومیٹر کے فاصلے پر میٹھے پانی کی جھیل اور اس صوبے کا ایک سیاحتی مقام) کے کنارے کنارے کانی میران کی طرف چل پڑے۔ سب کچھ جم چکا تھا اور زریوار جھیل کسی چٹیل میدان کی طرح پوری جمی ہوئی تھی۔ ہم بڑی مشکل سے مغرب تک بردہ رشہ گاؤں(مریوان شہر کے مغرب میں دس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نواحی گاؤں جو 2012/1397 میں شہر بن چکا ہے) پہنچے۔ ہم مسجد چلے گئے۔ ماموستا ملا محمد جو مِل چہ ور(چکنی گردن) کے نام سے مشہور تھے، بردہ رشہ کے مدرس تھے۔ ان کے کچھ طالب علم تھے۔ طالب علموں میں سب سے قابل اور ان کا بڑا، ملا عبد الرحمٰن گوشخانی نامی شخص تھا۔ ہم نے رات ان کے حجرے میں گزاری اور ان کے رات کے سادہ سے کھانے میں سے کھایا جو انہوں نے گاؤں والوں سے جمع کیا تھا۔ اگلے دن ہم کانی میران کے لیے نکل پڑے۔ بردہ رشہ سے کانی میران کا فاصلہ تقریباً آدھے گھنٹے کا تھا۔ ہم پیدل گئے اور ماموستا ملا رشید کالی صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ ہم نے شیخ صاحب کا خط، ماموستا کو پیش کیا، انہوں نے عاجزی، جوش اور احترام کے ساتھ خط پڑھا اور گرم جوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور کہا: ’’میں اگلے تین ماہ تک ہی یہاں مقیم ہوں اور عارضی طور پر یہاں آیا ہوں، تب تک میں آپ کی خدمت میں ہوں۔‘‘
ہم تین ماہ تک کانی میران میں رہے۔ ہمارا حجرہ اور زندگی گزارنے کی جگہ ایک خالی کمرہ تھا جو مسجد کے برابر میں بنا ہوا تھا۔ وہ بھی کیسا کمرہ! ہم نے بڑی زحمتوں کے بعد اسے تیار کیا۔ انہوں نے ہمیں مسجد سے قالین کے دو بوسیدہ ٹکڑے اور ایک لکڑی اور کوئلے سے چلنے والا ہیٹر دیا۔
جن دنوں ہم کانی میران میں تھے، وہ ہماری زندگی کے بدترین دن تھے۔ ٹھنڈے موسم اور ہیٹنگ کے مناسب انتظامات کے فقدان نے مجھے ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا کردیا جس کے آثار کا مقابلہ میں آج تک کر رہا ہوں۔ اس بیماری کے بعد ابھی بھی میں وضو کے لیے ٹھنڈا پانی استعمال نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود بیماری، در بدری اور متعدد نقل مکانیاں ہمیں درس اور پڑھائی سے غافل نہیں کرتی تھی۔ میں نے علم صرف کی کتاب ’’تصریف ملا علی‘‘ اور ملا عبد الرحمٰن صاحب نے علم نحو کی کتاب ’’اظہار‘‘ کی پڑھائی ماموستا ملا رشید کی خدمت میں جاری رکھی۔
صارفین کی تعداد: 70
![](images/sharing/print.png)
![](images/sharing/twitter.png)
![](images/sharing/email.png)
![](images/sharing/facebook.png)
![](images/sharing/google.png)
![](images/sharing/linkedin.png)
![](images/sharing/pinterest.png)
![](images/sharing/sapp.png)
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 2
’’میں محمد جواد کے اخلاق و عادات کو بخوبی جانتی تھی۔ میں بہت اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ اتنی جلدی گھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یعنی جب تک سارے قیدی رہا نہیں ہوجاتے وہ بھی نہیں آئیں گے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔![](pic/banner_box/81.jpg)
![](pic/banner_box/89.jpg)
![](pic/banner_box/249.jpg)