شہید محمد جواد تندگویان کی اہلیہ
بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 1
انتخاب: فریبا الماسی
ترجمہ: سید ضمیر رضوی
2025-2-12
انہوں نے اسٹو کو مکس کیا اور اسے چکھا۔ سب کچھ تیار تھا۔ انہوں نے چولہا بند کردیا۔ انہوں نے فریج سے کھیرے، سلاد پتہ اور ٹماٹر نکالے، سلاد کے کٹورے کے پاس رکھے اور سلاد بنانے میں مصروف ہو گئیں۔ آج دوپہر کے کھانے پر سمیہ ہدیٰ اور یوسف آنے والے تھے اور انہوں نے یوسف کی پسندیدہ ڈش بنائی تھی۔ وہ سلاد پتہ کاٹنے میں مصروف تھیں کہ گھر کی گھنٹی بجی۔ وہی لوگ تھے؛ یوسف اور ہدیٰ۔ وہ لوگ وقت پر پہنچ گئے تھے۔ یوسف اپنی نانی کی گود میں لٹک گیا اور ان کا بوسہ لیا۔ وہ نانی سے اپنا انعام ملنے کا انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے بھی مسکرا کر یوسف کو دیکھا، فریج کا دروازہ کھولا اور ایک چاکلیٹ کا پیکٹ اپنے نواسے کو دیا۔
انہوں نے اس سے کہا: ’’لیکن بھولنا نہیں، اسے کھانے کے بعد کھانا، ٹھیک ہے بیٹا؟!‘‘
یوسف نے شرارت میں مسکرا کر کہا: ’’صرف ایک چھوٹا سا بائٹ!‘‘
نانی نے کہا: ’’کھانے کے بعد میرے بچے، کھانے کے بعد۔۔۔‘‘
یوسف نے خود اسے فریج میں رکھ دیا، وہ ہنسا اور باورچی خانے سے باہر بھاگ گیا۔ ہدیٰ نے بھی آگے بڑھ کر اپنی والدہ کا بوسہ لیا۔ اس نے کہا: ’’میں سلاد بنا لیتی ہوں! اگر آپ کو کوئی کام ہے تو کرلیں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’نہیں، مجھے کوئی کام نہیں ہے۔ بس مجھے دسترخوان لگانا ہے۔‘‘
ہدیٰ خاموشی سے کھیرے کاٹ رہی تھی کہ اس نے اپنی والدہ سے پوچھا:
’’آپ نے واقعی میں اس میگزین رپورٹر کو انٹرویو دیا ہے؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہاں، ایسا لگا جیسے میں نے اپنی پوری زندگی دوبارہ جی لی ہو۔ میری ساری یادیں تازہ ہوگئیں۔‘‘
ہدیٰ نے کہا: ’’مجھے بھی ایسا ہی لگا۔ ایسا لگا کہ جیسے افسردگی سے میرا دم گھٹ جائے گا۔ پرسوں میں بابا سے بھی ملنے گئی تھی!‘‘
انہوں نے پوچھا: ’’اکیلے؟‘‘
ہدیٰ نے کہا: ’’جی، اکیلے۔‘‘
والدہ کا چہرہ اتر گیا اور وہ سوچ میں پڑگئیں۔ ان کا دل نہیں مان رہا تھا کہ ان کی بیٹی اکیلے اپنے والد کی قبر پر جائے۔ انہیں اس کی فکر ہوتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی چھوٹی بیٹی دکھی ہو اور اسے تکلیف پہنچے۔ اس کے باوجود وہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی اب خود ماں بن چکی ہے اور اب وہ خود اپنی زندگی میں مصروف ہے۔
وہ خود جب ہدیٰ سے بھی زیادہ جوان تھیں تب وہ تین بچوں کی ذمہ داری اکیلی سنبھالتی تھیں۔ در حقیقت انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ صرف سات سال ہی گزارے تھے۔ بہت جلد ہی انہیں جدائی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا تھا۔ نئی زندگی شروع کرنے کے چند ماہ بعد ہی محمد جواد گرفتار ہوگئے تھے اور ساواک کے جیل میں پہنچ گئے تھے اور جنگ شروع ہونے کے بعد، ابتدائی دنوں میں ہی عراقی فورسز نے انہیں گرفتار کرلیا تھا اور پھر ان کی شہادت۔۔۔
وہ شروع سے ہی جانتی تھیں کہ ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ جواد نے رشتے کے وقت بہت صادقانہ لہجے میں ان سے کہا تھا:
’’ساواک کسی بھی وقت مجھے گرفتار کرسکتی ہے۔ آپ کو اس سے کوئی مسئلہ تو نہیں؟ ان حالات کے ساتھ آپ کو قبول ہے کہ ہم یہ نئی زندگی شروع کریں؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، مجھے منظور ہے۔‘‘
وہ ایسے گھر میں پلی بڑھی تھیں کہ جس کے اکثر افراد سیاسی سرگرمیوں سے آشنا تھے اور وہ خود بھی اس قسم کے افکار سے انجان نہیں تھیں۔ اسی لیے ان لوگوں نے نکاح کی مختصر سی تقریب بھی محمد جواد کے والد کے گھر منعقد کی تھی، چند ماہ بعد وہ بہت سادگی سے اپنے سسر کے گھر چلی گئیں اور اپنی ازدواجی زندگی وہیں شروع کی۔
جن دنوں جواد جیل میں تھے، وہ دو مرتبہ جواد کے والد والدہ کے ساتھ ان سے ملنے گئیں تھیں اور ہر بار ان کی بہت مختصر ملاقات ہوئی۔ جب مہدی پیدا ہوا تو ایک بار وہ اپنے بچے کے ساتھ بھی اپنے شوہر سے ملنے گئیں تھیں۔ یہ ملاقاتیں اتنی مختصر ہوتی تھیں کہ صرف سلام دعا کا ہی موقع ملتا تھا۔ بس اتنا ہی۔ صرف ایک بار ایسا ہوا تھا کہ زیادہ وقت ملا اور محمد جواد اپنی بیوی سے کچھ کہہ پائے:
’’آپ قم جائیں، اور علماء سے کہیں کہ یہاں ہمیں باجماعت نماز نہیں پڑھنے دی جاتی۔ آپ ان سے کہیں کہ جیل اہلکار اس کے لیے ہمیں آٹھ گوشہ ڈیوڑھی(ھشت) پر لے جاتے ہیں اور ہمیں سجدہ گاہ بھی استعمال نہیں کرنے دیتے!‘‘
دلچسپ بات یہ تھی کہ جب جواد نے اپنے گھر والوں سے بچے کا نام ’مہدی‘ رکھنے کو کہا تو ان کی زوجہ صرف مسکرائیں اور خاموش رہیں، کیونکہ انہوں نے بھی اسی نام کے بارے میں سوچا تھا۔ اس دن جواد نے ان لوگوں کو یہ تلقین کی تھی:
’’آپ لوگ اس بات کا خیال رکھیے گا کہ اس نام کو صحیح سے لیں، عوام کی طرح نہیں۔
آپ کو اسے مَہدی کہہ کر بلانا ہے۔‘‘
جیل سے رہائی کے بعد، محمد جواد بہت تند مزاج ہوگئے تھے اور بہت شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ انہیں پورے سات ماہ تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن جیل کی مشکلات کے بارے میں بات کرنا انہیں کبھی بھی پسند نہیں تھا۔ وہ بہت حساس اور تند مزاج ہوگئے تھے اور ہمیشہ انہیں یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کہیں انہیں دوبارہ گرفتار نہ کرلیا جائے۔ معاشی لحاظ سے بھی انہیں مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ کوئی نوکری نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ سرکاری ملازمتوں کے لیے ان سے پولیس کلیئرنس سرٹیفکیٹ مانگا جاتا تھا اور جیل جانے کی وجہ سے وہ یہ سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ پھر ان کے ایک دوست نے انہیں بیوٹین گیس(کمپنی) میں نوکری کی پیشکش کی۔ محمد جواد، دن میں کام پر جاتے تھے اور رات کو ماحول بدلنے کے لیے اپنے دوست ڈاکٹر اعتمادی کے ساتھ ایک گاڑی میں مسافروں کو لانا لے جانا کرتے تھے، اس سب کے باوجود کچھ عرصے بعد ساواک کے ایجنٹس دوبارہ ان کے کاموں کو لے کر حساس ہونے لگے۔ وہ ان کے گھر کے دروازے پر آئے اور گھر کے باہر کے لوگوں اور پڑوسیوں سے پوچھ تاچھ کرنے لگے تاکہ وہ پتہ لگا سکیں کی اس دوران وہ تہران سے باہر گئے ہیں یا نہیں!
محمد جواد جو ان حالات سے تھک چکے تھے، انہوں نے کسی دوسری جگہ جانے کا فیصلہ کیا لیکن جن حالات میں وہ پھنسے ہوئے تھے، ان کے لیے صرف ایک ہی جگہ باقی بچی تھی اور وہ تھی انجینیئر بوشہری صاحب کے کام کی جگہ؛ شہر رشت میں ’’پارس توشیبا‘‘[1] نامی کمپنی۔
جب انجینیئر تندگویان نے پارس توشیبا میں ملازمت شروع کی تو کمپنی کے مالک نے انہیں پیشکش کی کہ (کمپنی کی طرف سے) وہ جاکر مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کریں۔ وہ تہران آئے اور انہوں نے ICMS یونیورسٹی[2] میں داخلہ لے لیا اور دو سال کے بعد انہوں نے وہاں سے اپنی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرلی۔ اس کے بعد وہ ایک بار پھر رشت لوٹ آئے۔ اس دوران وہ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ یہاں تک کہ انہیں کمپنی کی طرف سے جاپان جانے کا موقع ملا۔ محرم کا مہینہ تھا۔ ان کے جانے کے دن اور محرم میں لوگوں کے مارچز ایک ساتھ آگئے تھے اور انجینیئر تندگویان اس بات سے بہت ناخوش اور پریشان تھے کہ انہیں ایسے حالات میں وطن چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد، پہلے انہوں نے تہران ریفائنری میں کام کیا اور پھر آبادان چلے گئے۔ انہیں وزارت پیٹرولیم اور آفس کلیئرنس ہیڈکوارٹر دونوں کی طرف سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی۔ بہرحال کچھ عرصے بعد جب ریفائنری نے کام شروع کردیا تو تندگویان کو جنوب کے تیل کے ذخائر والے علاقوں کی مینجمنٹ کے عہدے پر مقرر کردیا گیا اور کچھ عرصے بعد ہی وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اہواز منتقل ہوگئے۔ وہ اسی طرح سے ایک مصروف زندگی گزار رہے تھے۔ وہ ایک فعال آدمی تھے اور انہیں ذمہ داری کا احساس بھی بہت تھا۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وفادار تھے لیکن اس کے باوجود کہ وہ ان سے بہت محبت کرتے تھے، اپنے کام کے حوالے سے انہیں احساس ذمہ داری رہتا تھا اور وہ اسے بہت اہمیت دیتے تھے۔ وہ وقت کے بہت پابند تھے، جلدی کام پر چلے جاتے تھے اور دوسروں سے زیادہ دیر سے گھر واپس آتے تھے۔ اس سب کے باوجود جب بھی انہیں موقع ملتا تھا اور بچے جاگ رہے ہوتے تھے تو وہ گھر آجاتے تھے، بچوں کو اپنی گود میں بٹھاتے تھے اور ان کے ساتھ کھیلتے تھے اور اس طرح سے وہ بچوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ ان کی زوجہ بھی بہت راضی تھیں اور وہ کبھی بھی کسی بات کی شکایت نہیں کرتی تھیں۔ جب وہ دیکھتی تھیں کہ ان کے شوہر سخت محنت کر رہے ہیں اور خوش ہیں تو وہ بھی خوش تھیں۔۔۔
ان دنوں محمد جواد بہت کام کرتے تھے۔ وہ بہت مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ انہیں سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی، لیکن اس سب کے باوجود وہ بچوں کا خیال رکھنے کے لیے ہر چھوٹے سے چھوٹے موقع سے بھی فائدہ اٹھاتے تھے۔ مثلاً جب ہم سب جاگ رہے ہوتے تھے تو وہ گھر آجاتے تھے بچوں کو اپنی گود میں بٹھا لیتے تھے اور ان کے ساتھ کھیلتے تھے، یعنی اس طرح سے وہ بچوں سے اپنی باپ والی محبت کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ میں بھی بہت راضی تھی اور کبھی بھی پیش آنے والی مشکلات کی شکایت نہیں کرتی تھی۔ جب میں دیکھتی تھی کہ وہ پوری لگن کے ساتھ سخت محنت کر رہے ہیں، تو میں راضی تھی۔ انہیں خوش دیکھ کر میں بھی خوش تھی، پھر انہیں وزارت کے عہدے کے لیے پارلیمنٹ میں متعارف کرایا گیا۔۔۔
صارفین کی تعداد: 81
![](images/sharing/print.png)
![](images/sharing/twitter.png)
![](images/sharing/email.png)
![](images/sharing/facebook.png)
![](images/sharing/google.png)
![](images/sharing/linkedin.png)
![](images/sharing/pinterest.png)
![](images/sharing/sapp.png)
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 2
’’میں محمد جواد کے اخلاق و عادات کو بخوبی جانتی تھی۔ میں بہت اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ اتنی جلدی گھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یعنی جب تک سارے قیدی رہا نہیں ہوجاتے وہ بھی نہیں آئیں گے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔![](pic/banner_box/81.jpg)
![](pic/banner_box/89.jpg)
![](pic/banner_box/249.jpg)