پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 29
شیخ عثمان نقشبندی صاحب سے ملاقات
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-2-9
ہمارے قیام کی چوتھی صبح، ژیوار گاؤں کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند ہوچکے تھے۔ گاؤں کے بیس سے زیادہ جوان، اپنے مخصوص لباس پہن کر آگے بڑھے اور انہوں نے بیلچے اور برف بیلچے کی مدد سے ہانہ لار کے مشہور چشمے تک راستہ صاف کیا۔ اس کام میں تقریباً دو گھنٹے لگے۔ ہانہ لار کے مشہور چشمے سے گزرنے کے بعد، وہ لوگ مجھے اور ملا عبد الرحمٰن کو جو ان کے مہمان تھے، پہاڑ کے اوپر تک چھوڑنے آئے۔ ہمارے پاس گرم کپڑے نہیں تھے۔ ہمارے پاس صرف سادہ سی پینٹ شرٹ تھی اور ربڑ کے جوتے تھے جنہیں ہم ’’پاتہ‘‘ کہتے تھے، لیکن جو جوان ہماری مدد کے لیے آئے تھے وہ پوری طرح اونی جرابوں اور مخصوص جوتوں سے آراستہ تھے جو برف اور برفانی طوفان کا سامنا کرنے میں ان کی بہت مدد کر رہے تھے۔ اس پہاڑ کے اوپر سے سروآباد اور دورود، آسانی سے نظر آرہے تھے۔
ہم اپنا بھاری سامان سفر؛ لحاف، کتابیں اور کپڑے کندھے پر ڈالے، تھکے ماندے، اوپر والے پہاڑ سے شیخ عثمان نقشبندی صاحب[1] کے رہائشی گاؤں، دورود میں اتر گئے اور گاؤں میں داخل ہوگئے۔ عصر کی نماز کے بعد ہم شیخ صاحب کی خدمت میں پہنچے اور انہیں اپنے حالات اور معاملات بتائے۔ ہم نے ان سے درخواست کی کہ آپ علاقے کے کسی عالم دین کو ایک خط لکھ دیجیے کہ وہ ہمیں رہنے کے لیے کوئی حجرہ دے دیں تاکہ ہم اس سخت سردی کے موسم میں درس میں مشغول ہوجائیں۔ شیخ صاحب نے ایک مولانا صاحب کو بلوایا اور ان سے آس پاس کے گاؤں کے حجروں کے بارے میں پوچھا۔ موماستا صاحب نے اپنی تفصیلی معلومات، شیخ صاحب کو دے دیں اور مشورے کے بعد انہوں نے کانی میران گاؤں(مریوان شہر سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں) کے ماموستا ملا رشید کالی(مریوان شہر کے نواحی گاؤں، کال سے تعلق رکھنے والے) کو ایک خط لکھا اور ہماری تعلیم اور رہائش کی سفارش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ محمد عثمان، ایک مشہور معاصر نقشبندی مرشد، شیخ محمد علاء الدین کے فرزند جو سن 1896/1275 میں جوانرود کے صفی آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے بھائی مولانا خالد کے ساتھ بچپن سے ہی دینی علوم کے حصول میں مشغول ہوگئے اور پانچ سال کی عمر سے آپ نے صوفیاء کے حلقوں میں بھی شرکت شروع کردی۔ آپ نے ادبیات عرب اور فارسی، دُرود اور بیارہ کے دینی مدارس میں سیکھی، قرائت قرآن مجید مشہور مصری قاری، مصطفیٰ اسماعیل سے، اور تفسیر قرآن، سید حسین طاریوغی ساوجبلاغی سے۔ محمد عثمان، عرفان میں زیادہ تر اپنے والد کے زیر نظر رہے۔ آپ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والد کے حکم پر خانقاہوں کے امور کے ادارے میں مشغول ہوگئے اور اپنے والد کی وصیت کے مطابق ان کے جانشین بنے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ملک کی مغربی سرحدوں کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے شیخ عثمان سن 1979(1358) میں دوبارہ بیارہ لوٹ جاتے ہیں۔ ایران۔عراق جنگ شروع ہونے کے بعد پہلے بغداد پھر سعودیہ عرب میں مدینۂ منورہ اور پھر عمان منتقل ہوگئے، کچھ عرصہ عمان میں رہے پھر آپ نے ترکی کے استنبول کی جانب کوچ کیا اور اپنی وفات تک وہیں پر مسلمانوں کی رہنمائی میں مشغول رہے۔ 30جنوری1997(11بہمن1375) کو شیخ عثمان کا انتقال ہوگیا اور استنبول کی خانقاہ کے برابر میں ہی آپ کی تدفین ہوئی۔
صارفین کی تعداد: 208








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 2
’’میں محمد جواد کے اخلاق و عادات کو بخوبی جانتی تھی۔ میں بہت اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ اتنی جلدی گھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یعنی جب تک سارے قیدی رہا نہیں ہوجاتے وہ بھی نہیں آئیں گے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

