پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 28
پہاڑ سے پہاڑ، گاؤں سے گاؤں
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-2-3
تعلیمی لحاظ سے میں اور ملا عبدالرحمٰن رحیمی صاحب تقریباً ایک ہی علمی سطح پر تھے۔ وہ مجھ سے ایک کتاب آگے تھے۔ وہ نجار گاؤں میں میرا انتظار کر رہے تھے اور میں کچھ دن گھر والوں کے ساتھ رہنے کے بعد نوریاب سے ان کے ساتھ ملحق ہوگیا اور پھر ہم مریوان کے لیے روانہ ہوگئے۔
سخت سردیاں تھیں۔ ایک لحاف، چند جوڑی کپڑے اور کچھ کتابیں میرا مریوان کا سامان سفر تھا۔ میں نے اپنی والدہ کو الوداع کہا اور سخت سردی اور ابر آلود موسم میں ایک کچے راستے سے دو گھنٹے کی پیادہ روی کے بعد نجار گاؤں میں عبد الرحمٰن رحیمی صاحب کے گھر پہنچا۔ میں نے رحیمی صاحب کے گھر رات گزاری اور اگلے دن ان کے ساتھ نجار سے ہجیج گاؤں کی طرف نکل پڑا۔ ہم نے چار گھنٹے تک پیادہ روی کی۔ ہم ایک ایسے راستے سے گزرے کی کہ جس سے کئی ہفتوں سے کوئی نہیں گزرا تھا۔ ہم وراء گاؤں سے گزر کر ہجیج کے خوبصورت گاؤں پہنچے۔ ہجیج کے راستے میں میری ملاقات اپنی بہن، غریبہ خاتون اور اس کے ساتھ تین خواتین سے ہوئی جو زیارت کے لیے ’کوسہ ہجیج‘(نوجوان ہجیج)[1] کے مزار جارہی تھیں۔ اس نے مجھے اور میرے ساتھی کو صوفی ابوبکر صاحب کے گھر دعوت دی جن کی زوجہ کا تعلق نوریاب سے تھا۔ اس سخت سردی میں انہوں نے گرم جوشی سے ہماری مہمان نوازی کی اور اگلے دن ہم نوین گاؤں کے لیے روانہ ہوگئے۔ ’کوسہ ہجیج‘(نوجوان ہجیج) کا مزار ہمارے راستے میں تھا، لیکن ہم جلدی میں تھے۔ میری بہن اور اس کی ساتھی خواتین زیارت کے لیے مزار میں داخل ہوگئیں لیکن میں نے اور ملا عبد الرحمٰن نے مزار کے سامنے ہی فاتحہ پڑھنے پر اکتفا کیا اور پیچ و خم بھرے راستے پر اپنے سفر کو جاری رکھا۔
نوین گاؤں(سیروان جھیل کے کنارے، کوہسالان پہاڑ کے جنوب میں، سروآباد شہر کا ایک نواحی گاؤں) کا راستہ، کچا راستہ تھا جس کے پتھریلے اور دشوار ہونے نے ہمارا آدھا دن لے لیا۔ ہم ظہر اور عصر کی نماز کے بیچ گاؤں پہنچے۔ ہم نے نوین کے رہائشیوں سے سلین(اورامان تخت گاؤں کے قریب، سروآباد کا ایک نواحی گاؤں) کے راستے کے بارے میں پوچھا۔ موسم، ابر آلود تھا۔ انہوں نے بتایا کہ راستہ ٹھیک نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ رات مسجد میں آرام کریں اور کل سلین گاؤں چلے جائیں۔ ہم رات مسجد میں ہی رک گئے۔ امام مسجد سید اسماعیل سجادی صاحب اور گاؤں کے لوگ مغرب اور عشاء کی باجماعت نماز پڑھنے کے لیے مسجد آئے اور مجھے اور ملا عبد الرحمٰن کو دو مرتبہ دیکھا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ نماز کے بعد وہ لوگ بغیر ہماری خیر خیریت پوچھے مسجد سے چلے گئے اور ہم مظلوموں اور فقیروں کی طرح مسجد کے ہیٹر کے پاس دبک کر بیٹھ گئے اور یتیموں کی طرح، نودشہ کے ایک پھیری والے کے ساتھ رک گئے۔ نودشی پھیری والا جو جرابیں بیچتا تھا، وہ قریب 35 سال کا تھا اور اس کا تجربہ ہم سے زیادہ تھا، توانائی حاصل کرنے کے لیے رات کو وہ گاؤں میں گیا اور رات کو آدھے گھنٹے بعد کچھ روٹی اور ٹھنڈے کھانے کے ساتھ واپس آیا۔ ہم تینوں نے اسی میں سے کھایا۔ پھر سب خود کو ایک ایک لحاف میں لپیٹ کر مسجد کے ہیٹر کے پاس سوگئے۔ صبح کی اذان کے ساتھ ہی کچھ لوگ مسجد میں آئے اور ہم تین اجنبیوں پر توجہ دیے بغیر ہی نماز باجماعت کے بعد امام مسجد کے ساتھ گزشتہ رات کی طرح بغیر خیر خیریت معلوم کیے مسجد سے نکل کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔ امام جماعت اور گاؤں والوں سے میں بہت دکھی اور رنجیدہ ہوا اور شاید سالوں تک میں نے اس دکھ کو اپنے دل میں رکھا۔[2]
ہم صبح سویرے، سلین گاؤں کے لیے نکل پڑے جو قریب نوین سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ برفباری کا موسم تھا۔ ہم بڑی مشکل سے نوین گاؤں سے سلین گاؤں پہنچے۔ ماموستا ملا نذیر، جو گاؤں کے امام مسجد اور امام جمعہ تھے، نے ہمیں مسجد میں دیکھا اور ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ ہم نے ان کے گھر میں کچھ دیر آرام کیا۔ اس وقت ملا نذیر کی عمر قریب چالیس سال تھی، وہ اپنی بیوی اور نومولود بچے کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے۔ اس رات، کھانے اور مہمان نوازی کے بعد ہم سب اسی کمرے میں سوگئے۔ آدھی رات کو گاؤں والوں کا آپس میں جھگڑا ہوگیا اور معاملے کو سلجھانے کے لیے وہ لوگ ماموستا کے پاس آئے۔ ماموستا کو مجھ پر اور ملا عبد الرحمٰن پر بھروسہ تھا جو وہ اپنی جوان زوجہ کو اکیلا چھوڑ کر لوگوں کے مسئلے سلجھانے چلے گئے اور دو گھنٹے بعد واپس آئے۔ طالب علموں پر ان کا بھروسہ، دین کی وجہ سے تھا۔ وہ لوگ طالب علموں کو مثبت نگاہ سے دیکھتے تھے اور اپنے بچے کی طرح طالب علموں سے محبت کرتے تھے۔ اگلی صبح انہوں نے ہمیں تھوڑی خشک انجیر دی اور کہا: ’’موسم ٹھنڈا ہے۔ راستے میں یہ انجیر کھا لیجیے گا تاکہ آپ لوگوں کو سردی کم لگے۔‘‘
سلین گاؤں سے ژیوار گاؤں(کردستان صوبے کے ہورامان میں، سروآباد شہر کے قریب، کوسالان پہاڑوں کے جنوب میں، سیروان جھیل کے کنارے بلبر اور سلین کے شمال میں واقع ایک گاؤں) کا راستہ قریب ایک گھنٹے کا تھا۔ ہمارے گاؤں سے نکلتے ہی برفباری شروع ہوگئی۔ ہمارے عمامے اور لباس سے پتہ چل رہا تھا کہ ہم طالب علم ہیں۔ راستے میں ایک شخص ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’طالب علموں کہاں جا رہے ہو؟‘‘
ہم نے کہا: ’’دورود کے جناب شیخ عثمان کے پاس۔‘‘
شیخ عثمان صاحب، اورامان کی بزرگ شخصیت تھے۔ وہ خود اور ان کا گھرانہ، دین کا خادم اور سب لوگوں کے لیے قابل احترام تھا خاص طور پر اورامان کے رہائشیوں کے لیے۔ جب اسے پتہ چلا کہ ہم دورود گاؤں(سروآباد کا نواحی گاؤں) میں شیخ صاحب کے پاس جارہے ہیں تو وہ شیخ صاحب کے احترام میں ژیوار گاؤں تک ہمارا سامان اٹھا کر لایا۔ ہم بھی تھکے ماندے تھے اور برفباری سے ہمارے لباس گیلے ہوچکے تھے تو ہم اس کی مدد سے بے حد خوش ہوئے اور ہم نے اس کے پیشکش کو قبول کرلیا۔ اس ٹھنڈے اور ناقابل برداشت موسم میں وہ ہمارے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا اور اس نے بڑے شوق کے ساتھ ہمارا سفر کا سارا سامان اپنے کندھے پر اٹھا لیا۔ اس نے راستے میں ہمیں ژیوار گاؤں کے بارے میں کچھ معلومات دیں اور بتایا: ’’ژیوار میں دو مسجدیں ہیں، ماموستا سید علی کی مسجد آپ لوگوں کے آرام کرنے اور رکنے کے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
جب ہم گاؤں پہنچے تو اس نے ہمیں مسجد دکھائی۔ ہمارے مسجد میں داخل ہونے کے ساتھ ہی شدید بافباری شروع ہوگئی؛ اتنی شدید کہ تین دن تک ہم مسجد میں محصور ہوکر رہ گئے۔ روزانہ وہ متدین اور غریب لوگ ہمارے لیے تین وقت کا کھانا لاتے تھے، علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرح ان لوگوں نے بھی ہمیں اپنے گھر نہیں بلایا لیکن ہم ان کی محبت سے راضی تھے اور ہمیشہ ان کے مشکور و ممنون ہیں اور رہیں گے۔ گاؤں کے لوگ ہر صبح شام جب مسجد میں آتے تھے تو فجر اور مغرب کی نماز کے بعد سب مل کر یہ مناجات پڑھتے تھے:
یَا دَائِمَ الْفَضْلِ عَلَى الْبَرِیَّةِ یَا بَاسِطَ الْیَدَیْنِ بِالْعَطِیَّةِ یَا صَاحِبَ الْمَوَاهِبِ السَّنِیَّةِ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ خَیْرِ الْوَرَى سَجِیَّةً وَ اغْفِرْ لَنَا یَا ذَا الْعُلَى فِی هَذِهِ الْعَشِیَّةِ
(اے صاحب فضل وکرم خدا، اے وہ خدا کہ جس کے جود و کرم کے ہاتھ ہمیشہ کھلے ہیں، اے نیکیوں والے اور نیکیاں بخشنے والے، ہمارے دن اور رات کے گناہوں اور خطاؤں سے درگزر اور چشم پوشی فرما۔)
ہم تھکے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود، یہ مناجات ہمارے تین دن کے جبری قیام کے دوران، دن میں دو بار ہمارا حوصلہ بڑھا دیتی تھی اور ہماری روحوں کو زندہ کردیتی تھی۔ اس عرفانی مناجات کی لذت، سالوں تک مجھے یاد رہی۔ ان لوگوں کے مناجات پڑھنے اور سر ہلانے کے طریقے کو یاد کرکے میں لطف الہٰی اور بخشش الہٰی کو محسوس کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ امام موسیٰ کاظم(ع) کے فرزند، سید عبیداللہ جو ’’کوسہ ہجیج‘‘(نوجوان ہجیج) چونکہ ان کی داڑھی نہیں تھی اس لیے انہیں ’’کوسہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ کتاب ’’بحار الانسان‘‘ جو حضرت محمد(ص) کی اولاد اور نسل کے بارے میں ہے، میں نقل ہوا ہے کہ سید عبیداللہ سن 172 ہجری میں ہارون الرشید کی خلافت کے زمانے میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ روم کے سلطان کی صاحب زادی تھیں اور اسی وجہ سے انہیں، سلطان عبیداللہ بھی کہا گیا ہے۔ ہارون کے زندان میں آپ کے والد ماجد کی وفات کے بعد امام موسیٰ کاظم(ع) کی اولاد کو عباسی فرمانراؤں نے دور دراز علاقوں میں جلا وطن کردیا تھا۔ امام موسیٰ کاظم(ع) کے فرزند سید اسماعیل کردستان کے اورامان ہجرت کرتے ہیں اور آج ان کا مزار ہجیج گاؤں میں واقع ہے۔ سید عبیداللہ 19 سال کی عمر میں اسلامی علوم سیکھنے اور اخلاقی فضائل سے آراستہ ہونے کے بعد اپنے بڑے بھائی، سید اسماعیل کے پیچھے اورامان آنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آپ آخر میں اپنے تدفین کے گاؤں، ہجیج جو ایک گہرا درختوں سے بھرا درہ تھا، آپہنچے اور وہیں رہ گئے۔(’ہجیج‘ عربی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی درختوں سے بھرے، گہرے درے کے ہیں)۔
[2]۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد، سن 1981(1360) میں، میں نوین گیا تھا اور میں نے سید اسماعیل سے ملاقات کی، میں نے انہیں سن 1967(1346) کا واقعہ یاد دلاتے ہوئے ان سے بہت احترام سے ملا اور میں نے انہیں ایک تحفہ بھی دیا، جب تک وہ حیات رہے میرے لیے قابل احترام رہے۔
صارفین کی تعداد: 28