پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 25

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-1-13


انہوں(قطعہ چتہ) نے مٹھائی سے ہماری مہمان نوازی کی اور اپنے بارے میں بتانا شروع کیا: ’’رضا خان نے 35 سال پہلے نوریاب میں، میرے خاندان کے 4 افراد کو گرفتار کرکے تہران میں پھانسی دے دی تھی۔ میں اس وقت ایک 25 سالہ کنواری لڑکی تھی۔ ہم نے علاقے کے کچھ لوگوں اور اپنے گاؤں کے کچھ مردوں کے ساتھ ہتھیار اٹھا لیے اور علاقے کے پہاڑوں میں پناہ لے لی اور اپنے رشتہ داروں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے کئی سالوں تک رضا خان کے نظام سے لڑتے رہے۔ شاہ کی حکومت ہمیں لٹیرا کہتی تھی؛ جبکہ ہم شاہ کے خلاف لڑنے والے اور حریت پسند تھے۔ جب شاہ کی حکومت نے علاقے میں اقتدار حاصل کرلیا تو ہم عراق میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے اور تب سے میں حلبچے میں ہوں۔‘‘

’’قطہ چتہ‘‘ کا حلیہ، ایک امرد کی طرح تھا۔ صرف ان کے بال خواتین کی طرح تھے اور وہ زنانہ اسکارف جو ان کے سر پر تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک آہ بھری اور ہم سے کہنے لگیں: ’’میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں کیونکہ آپ طالب علم ہیں اور مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مجھے حلبچے کے علماء سے بہت شکایت ہے اور میں ان کے فتوے سے عاجز آگئی ہوں۔‘‘

میں نے کہا: ’’کیوں؟‘‘

انہوں نے کہا: ’’میں نے حج کے لیے درخواست دی ہے، لیکن حلبچے کے علماء کہہ رہے ہیں کہ چونکہ آپ کنواری ہیں، اس لیے آپ سفر نہیں کر سکتیں۔ آپ کے ساتھ کوئی محرم ہونا چاہیے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی اور حلبچے میں میرا کوئی محرم نہیں ہے۔ وہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو شادی کرنی ہوگی۔ آپ کی نظر میں مجھ جیسی ساٹھ سالہ خاتون کو شادی زیب دیتی ہے؟۔۔۔ ابھی کچھ وقت پہلے ہی میں کرکوک گئی تھی کہ شاید حنفی علماء سے سفر کا فتویٰ لے سکوں۔ وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ آپ کو شادی کرنی ہوگی۔ میں مایوس ہوکر لوٹ آئی۔ میں حج پر نہیں جاؤں گی اور قیامت کے دن میری عبادتوں میں اس کمی کے گناہ کا جواب حلبچے اور کرکوک کے علماء کو دینا ہوگا اور قیامت کے دن، میں ان کی شکایت کروں گی۔‘‘[1]

ڈیڑھ سال کے لیے میں عَنَب گاؤں میں رک گیا۔ میں نے ’انموذج‘ اور ’تصریف جرجانی‘ کی کتابیں ختم کیں اور آج کل کی اصطلاح کے مطابق میں مقدمات کے تیسرے سال میں پہنچ گیا۔ میں، ملا جمال نودشہ ای اور ملا معروف گلالی، ہم تین ایرانی، تین عراقی طالب علموں کے ساتھ مل جل کر عَنَب گاؤں کے چھوٹے سے حوزے میں رہتے تھے۔



 
صارفین کی تعداد: 23


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
آیت اللہ مکارم شیرازی کی یادوں کا ٹکڑا

سیاسی قیدیوں کی یادیں

جب ہم 6 مسلح اہلکاروں کے ساتھ قم ــ اراک ہائی وے پولیس کے اسٹیشن پر پہنچے تو برفباری شروع ہوگئی۔ ہمیں یہاں، گزرنے والی گاڑیوں کے آنے تک رکنا تھا اور ہم میں سے ہر ایک کو مقرر شدہ منزل کی طرف جانا تھا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔