آپریشن ’’محرم‘‘ کے بارے میں محمد نبی رودکی کی یادیں

انتخاب: فریبا الماسی

مترجم: ضمیر علی رضوی

2025-1-25


آپریشن ’’محرم‘‘ کا دائرہ کار، ابو غریب سے لے کر بیات چیک پوسٹ تک تھا۔ امام حسین(ع) بریگیڈ کی فورسز جو خط شکن(دشمن کی صفوں کو توڑنے والی فورسز) تھیں، انہیں چم سری کے علاقے میں دریائے دویرج کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح سے کہ ان کی تین بٹالین کی زیادہ تر تعداد کو پانی بہا کر لے گیا۔ اگلی صبح، میں اور حسین خرازی وہاں گئے۔ ان کے زیادہ تر فوجی، امدادی بیگز، اسٹریچر اور ہاتھ میں اسلحہ لیے شہید ہوئے تھے، انہیں چکنی مٹی سے باہر نکالا جا رہا تھا۔ وہ ایک دلخراش منظر تھا۔ بعد میں اصفہان میں 375 شہداء کی تشییع ہوئی کہ جن میں سے اکثر، سیلاب کے اسی حادثے کے شہداء تھے۔

آپریشن محرم کے دوران، چونکہ امام حسین(ع) بریگیڈ، دریائے دویرج کے سیلاب اور اپنی فورسز کے غیر متوقع جانی نقصان کی وجہ سے اپنی ہم آہنگی کھو چکی تھی، اسی لیے زبیدات اور شرہانی کے علاقوں میں امام سجاد(ع) بریگیڈ نے آپریشنز کیے۔ حسین خرازی نے مجھ سے رابطہ کیا، ہم نے بھی دن نکلنے سے پہلے ہی کام شروع کردیا۔ آرمی ایوی ایشن نے بھی بہت اچھی طرح کام کیا۔ کچھ 214 ہیلی کاپٹرز کو فوسز اور گولہ بارود کو دریا کے دوسری طرف لے جانے اور زخمیوں کو دریا کے اس طرف لانے پر مامور کیا گیا تھا، جو بہت مؤثر ثابت ہوئے۔ ہم نے بٹالین۔981(جس بٹالین نے پہاڑی۔400 پر قبضہ کیا تھا) کو منتقل کرنے کے لیے حسن باقری سے ایک ہیلی کاپٹر کی درخواست کی، انہوں نے منتقلی کے لیے ہیلی کاپٹر بھیج دیا اور ہم نے فورسز کو منتقل کردیا۔ اس آپریشن میں سپاہ، فوج اور تعمیراتی جہاد(جھاد سازندگی) کے یونٹس نے ایک ساتھ مل کر کام کیا تھا۔

ہمارے پاس آٹھ بٹالینز تھیں جنہیں 10 دن کے آپریشن کے دوران ہم میدان میں اتار چکے تھے۔ ہماری بٹالینز کے کمانڈروں میں سے نکوئی مہر، احمد حقیقی، گزنی اور مجید سپاسی صاحب زخمی ہوچکے تھے۔ بٹالین۔981 کے کمانڈر، رنجبر اسلام لو[1]  اور حسین مشفق صاحب، ان کے نائب ان کی ذمہ داریوں کو سنبھال رہے تھے۔ اس آپریشن کے دوران ان آٹھ بٹالینز کو ہم  کئی مرتبہ ترتیب دے کر، میدان میں لا چکے تھے۔

آپریشن کے چوتھے دن کی صبح، میں پوانٹ۔400(چوٹی) کے علاقے میں تھا کہ حسن باقری حالات کا جائزہ لینے آئے ہوئے تھے اور اتفاق سے وہاں ہماری ملاقات ہوگئی۔ میں نے ان سے کہا کہ دشت بَزَرگان کے علاقے اور ہور السناف کے بیابان میں کوئی بھی عراقی نظر نہیں آرہا۔ عراقی فورسز اسی جبل حمرین(پہاڑ) پر اور 175 اور 178 کی انچائیوں پر ہی ہیں، ان کے پیچھے کا علاقہ خالی ہے اور انہوں نے وہاں کوئی حفاظتی انتظامات بھی نہیں کیے ہیں۔ آپ نے ایسے علاقے کا انتخاب کیا ہے کہ اگر اس کے محل وقوع سے اچھی طرح فائدہ اٹھایا جائے تو ہم با آسانی اوپر والے والے پہاڑ پر قبضہ کرکے دشمن کے پیچھے والے علاقے میں پہنچ کر پڑاؤ ڈال سکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں۔ شہید باقری بہت دھیان سے میری باتیں سن رہے تھے، پھر انہوں نے میری پیٹ تھپتھپا کر کہا: ’’ نبی، تم میٹینگز میں کیوں نہیں بولتے؟ تو تم یہ تجویز وہاں پیش کرنا۔‘‘ میں نے کہا کہ ابھی آپ ہی یہ تجویز پیش کردیں۔ انہوں نے جا کر رشید صاحب کے ساتھ اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا اور نتیجہ نکل آیا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں آپریشن کو تو آگے بڑھایا جا سکتا ہے لیکن محاذ پر موجود فورسز کی صلاحیت اس کے لیے کافی نہیں تھی اور اسی تجویز کا نتیجہ، آپریشن ابتدائی والفجر اور والفجر۔1 کی صورت میں نکلا، کیونکہ  وہ علاقہ رشید اور حسن باقری صاحب کی نظروں میں تھا۔

ہمارا ہدف، زبیدات میں 400 کی اونچائی اور 175 اور 178 کی اونچائی تھا۔ 175 اور 178 کی انچائیوں میں تو پہلے امام حسین(ع) بریگیڈ نے ہمارے ساتھ مل کر آپریشن کیا، لیکن بعد میں جوابی حملے کی پوری ذمہ داری امام سجاد(ع) بریگیڈ کے کاندھوں پر آگئی۔

12 نومبر 1982(21 آبان 1367) کی صبح، زبیدات کی ریتیلی پہاڑیوں پر عراقیوں کے حملے دوبارہ شروع ہوگئے۔ بریگیڈ کے کمانڈر کی حیثیت سے میں شرہانی چوکی سے محور کی دائیں جانب بڑھا اور فورسز کی رہنمائی کے لیے میں فرنٹ پر موجود تھا۔ بٹالین۔973 کے کمانڈر، مجید سپاسی وہیں پر زخمی ہوگئے اور ان کے نائب، حسین مشفق نے بٹالین کی کمان سنبھال لی۔ ہم نے حسن حق نگہدار صاحب کو دائیں محور کا انچارج اور صبوری صاحب جو زخمی ہو چکے تھے، کی جگہ توحیدی صاحب کو بٹالین۔983 کا کمانڈر بنا دیا۔ اس حملے کے دوران، حسین مشفق جو بٹالین۔973 کے کمانڈر بنے تھے، وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس بٹالین میں عباس یزدان پناہ بھی شہید ہوگئے اور ہمارے محور کے انچارج، حق نگہدار صاحب بھی زخمی ہوگئے۔ نکوئی مہر صاحب کی جگہ ہم نے شیروانی صاحب کو دے دی اور وہ بھی زخمی ہوگئے۔ پھر شیروانی صاحب بھی حملوں کے دوران شہید ہوگئے۔ بٹالین۔983 سے رشیدی صاحب اور بٹالین۔981 سے کمپنی کمانڈر، روحی پور صاحب زخمی ہوگئے۔ اس آپریشن کے دوران، روحی پور صاحب نے ایک عراقی پانی کے ٹینکر پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا جو غلطی سے فرنٹ پر آگیا تھا، اور تین عراقیوں کو جن میں ایک افسر بھی شامل تھا، گرفتار کرکے بریگیڈ ہیڈکوارٹر لے آئے۔

13 نومبر(22 آبان) کو حسین خرازی نے مجھے بلایا اور حسن باقری کے ساتھ فرنٹ پر یونٹس کی پوزیشنز کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک میٹنگ ہوئی۔ رات 11 بجے تک جاری رہنے والی میٹنگ کے فیصلے کے مطابق انہوں نے قمر بنی ہاشم بریگیڈ۔44 کو زبیدات کے علاقے میں ہماری جگہ دے دی اور ہم اپنی فورسز کو لے کر عقبہ کیمپ آگئے اور انہیں دوبارہ ترتیب دی۔ 14 نومبر(23 آبان) کو ہم نے اپنی بٹالینز کو چھٹی پر بھیج دیا اور تقریباً دو ہفتے بعد آپریشن محرم کی فائل بند ہوگئی۔[2]

 

.....................................................................................................................

 

 

[1]- حسین رنجبر اسلام لو سن 1960(1339) میں شیراز شہر میں پیدا ہوئے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ  سپاہ پاسداران میں بھرتی ہوگئے اور مسلط کردہ جنگ کے شروع ہوتے ہی محاذ پر چلے گئے اور جنگ کی۔ آپ نے 1 نومبر 1982(10 آبان 1361) کو آپریشن محرم کے دوران جام شہادت نوش کیا۔

[2]- رفاهیت، علیرضا؛ احمدی، حسین، تاریخ شفاهی دفاع مقدس روایت محمد نبی رودکی فرمانده لشکر19 فجر، تهران ، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع .مقدس، چ اول، 1402، ص 227.

 

 

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 70


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

آپریشن ’’محرم‘‘ کے بارے میں محمد نبی رودکی کی یادیں

ہمارا ہدف، زبیدات میں 400 کی اونچائی اور 175 اور 178 کی اونچائی تھا۔ 175 اور 178 کی انچائیوں میں تو پہلے امام حسین(ع) بریگیڈ نے ہمارے ساتھ مل کر آپریشن کیا، لیکن بعد میں جوابی حملے کی پوری ذمہ داری امام سجاد(ع) بریگیڈ کے کاندھوں پر آگئی۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔