صابری فیملی سے ملاقات
سمیرا نفر
مترجم: ضمیر علی رضوی
2025-1-12
خزاں کی ایک شام ہم ایک سادہ سے گھر میں مہمان ہوئے کہ جس میں سالوں کے صبر اور محبت کی خوشبو مہک رہی تھی۔ جنگ کے ویٹرن اور سالوں سے جنگ کے زخموں سے لڑنے والے، داؤد صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ ان کی نگاہیں، تلخ و شیریں یادوں کا سمندر تھیں، محاذوں پر گزرنے والے دنوں سے لے کر آج تک کہ جب وہ اپنے گھر والوں کی آغوش میں آرام کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں ان دنوں کے بارے میں بتا رہے تھے کہ جب خاک اور خون نے زندگی اور موت کے بیچ کے فرق کو دھندلا کردیا تھا۔ ان دنوں کے بارے میں کہ جب گولیوں کی آوازیں، ان کی رات کی لوری ہوا کرتی تھی اور وہ صرف بارود کی بو کو ہی پہچانتے تھے۔ ان کی زوجہ طاہرہ صاحبہ، وہ خاتون جن کی آنکھوں میں صبر اور مسکراہٹ میں محبت سمائی ہوئی تھی، ان دنوں کے بارے میں بتاتی ہیں جو انہوں نے اپنے شوہر کے بغیر گزارے۔ ان راتوں کے بارے میں کہ جب وہ افسردہ ہو کر صبح کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھیں اور ان دنوں کے بارے میں کہ جب وہ مسکرا کر درد کو سہتی رہتی تھیں۔
اس چھوٹے سے گھر میں خاموشی کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا۔ اس مرد کی خاموشی جس نے تمام تر مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہاری تھی اور اس خاتون کی خاموشی جس نے محبت کے سہارے کئی کٹھن سال گزار دیے تھے۔
داؤد صاحب یادوں کو یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: میں ایسی دوائیں کھا رہا ہوں جن سے میری اکثر یادیں محو ہوگئی ہیں۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ ان کی یادیں گویا ان کے وجود کے پزل کے ٹکڑے تھے جو اب گم ہو چکے تھے۔ وہ بہت دکھ کے ساتھ ان دنوں کے بارے میں بتا رہے تھے کہ جب انہوں نے خرمشہر کی جامع مسجد میں نماز پڑھی تھی، لیکن اب وہ ان دنوں کی تفصیلات بھول چکے تھے۔ طاہرہ صاحبہ نے ان کا ہاتھ تھاما اور آہستہ سے کہا: ’’ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کن باتوں کو بھول گئے ہیں بلکہ جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنے مقصد کے لیے لڑے۔‘‘ اس پل میں کوئی انٹرویو لینے والی نہیں تھی بلکہ میں ایک مسافر تھی جس نے احساسات کی دنیا کا سفر کیا تھا، وہ احساسات جنہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، وہ احساسات جو ان کی ہر نظر، ہر لفظ اور ہر سانس میں ٹھاٹھیں مار رہے تھے۔ میں نے جانا کہ محبت، ہر گولی سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور صبر، ناقابل شکست ہتھیار ہے۔ داؤد صاحب اور طاہرہ صاحبہ میرے لیے محبت، ایثار و قربانی اور زندگی جینے کے رول ماڈل بن گئے۔
داؤد صاحب اور طاہرہ صاحبہ کی کہانی، ان سب لوگوں کی کہانی ہے جنہوں نے اپنے ملک اور اپنے گھر والوں کے لیے قربانیاں دی ہیں؛ وہ کہانیاں جنہیں ہرگز بھلایا نہیں جانا چاہیے۔
صارفین کی تعداد: 31