آیت اللہ مکارم شیرازی کی یادوں کا ٹکڑا
کتاب ’’ خفیہ کیمپ‘‘ کا ایک جائزہ
محیا حافظی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2025-1-10
کتاب ’’خفیہ کیمپ‘‘، محمد حسن میرزائی کی آپ بیتی ہے، جو ان کی عراقی قیدیوں کے کیمپ سے ایرانی قیدیوں کے کیمپ تک کے یادوں کی حکایت کرتی ہے۔ اس کتاب کو میثم غلام پور نے ترمیم کر کے دوبارہ تدوین کیا ہے۔ اس کتاب کو میراث اہل قلم پبلشرز نے شہید دماوند فاؤنڈیشن کے تعاون سے 2024(1403) کی موسم گرما میں شایع کیا ہے۔ اس کے صفحات کی تعداد 144 ہے اور اس کے 1000 نسخے شایع ہوئے ہیں۔
کتاب کے سرورق پر خاردار تاروں کے ساتھ پیلا بیک گراؤنڈ دکھائی دیتا ہے اور کتاب کے عنوان کو خاردار تاروں کے درمیان رکھا گیا ہے۔ راوی کی قید سے واپسی کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر، قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتی ہے۔
راوی، ایران میں عراقی قیدیوں کے کیمپس کے سرباز(لازمی ملٹری سروس کرنے والا اہلکار) تھے اور بعد میں وہ خود قیدی بن گئے۔ دونوں(عراقی اور ایرانی) کیمپس میں ان کی موجودگی اس بات کا باعث بنتی ہے کہ وہ دونوں کیمپس کے فرق کو قریب سے محسوس کرسکیں۔ راوی، دماوند کے نواحی شہر رودھن شہر میں پیدا ہوئے، میٹرک کے بعد وہ ملٹری سروسز میں چلے گئے۔ راوی کی ملٹری سروس، عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے آخری سالوں میں ہی ہو رہی تھی۔ انہوں نے اس سروس کا کچھ حصہ عراقی قیدیوں کے کیمپس میں اور کچھ حصہ جنگ کے محاذوں پر گزارا۔ محاذ پر گرفتار ہو جانے کے بعد انہوں نے دو سال عراق کے کیمپس میں گزارے، خاص طور پر تکریت کے کیمپ نمبر۔12 کے مُلحق نامی حصے میں۔ یہ کیمپ صلیب احمر کی نظروں سے دور ایک خفیہ کیمپ تھا۔ راوی کو اس کیمپ میں بغیر کسی ریکارڈ کے بالکل لاپتہ حالت میں رکھا گیا تھا۔
کتاب کی فہرست تین الفاظ پر مشتمل ہے: دیباچہ، یادیں اور تصویریں۔
دیباچہ میں راوی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ 1990 کی دہائی کے اوائل اور اپنی قید کے اواخر میں انہوں نے اپنی ان دو سالوں اور اس سے پہلے کی یادوں کو قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے رودھن میں اپنے پروان چڑھنے اور عراقی قیدیوں کے حراستی کیمپ میں ملٹری سروس سے لے کر، محاذ اور عراقی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور آخرکار وطن واپسی کو صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے۔
راوی، 22 جون 1967(1 تیر 1346) کو دماوند کے ایک شہر، رودھن میں پیدا ہوئے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، راوی سیکنڈری اسکول میں تھے کہ اعلان ہوا کہ عراق نے ایران پر حملہ کر دیا ہے۔ ٹی وی پر مسلسل محاذ کی خبریں دکھائی جا رہی تھیں اور لوگوں کو جنوبی شہروں کے دفاع کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔ اس کے بعد راوی نے یونیورسٹی کے داخلہ امتحان میں شرکت کی لیکن ان کی سلیکشن ایسی فیکلٹی میں ہوئی جو انہیں پسند نہیں تھی، اسی لیے وہ ملٹری سروسز میں چلے گئے۔ نومبر 1986(آذر 1365) میں وہ سروس بک حاصل کر کے تہران کے فاطمی روڈ پر واقع سینٹرل ملٹری پولیس کے بیس چلے گئے۔ تین ماہ کی ٹریننگ کے بعد انہوں نے تہران کے سبلان روڈ پر واقع حشمتیہ بیس میں سروس کی۔ اس کیمپ میں، عراقی قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ ایران میں عراقی قیدیوں کو اچھی سہولیات میسر تھیں۔ وہ ہر ہفتے حمام جاتے تھے، ان کے پاس ٹی وی اور بیڈز تھے۔ ان کا کھانا پینا بھی بہت اچھا تھا، چلو مرغ(مرغی چاول)، خورشت قیمہ(قیمہ) اور آبگوشت(گوشت کا سالن) سے لے کر مچھلی اور عدس پلو(دال چاول) تک۔ ہر سیل میں سماوار ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کا سگریٹ کا بھی کوٹہ ہوتا تھا۔
1987 کے موسم گرما میں فورسز کی تبادلے کے وقت، راوی تہران سے سمنان چلے گئے۔ تین ماہ بعد دوبارہ ان کا تبادلہ ہوگیا۔ اس بار انہیں محاذ پر بھیج دیا گیا۔ وہ حمزہ لویزان ڈویژن۔21 میں شامل ہوگئے۔ راوی ٹرین سے اندیشمک چلے گئے اور ٹریننگ کے بعد مہران کے چنگولہ(گاؤں) کے بلند مقامات پر چلے گئے۔ بلند مقامات پر ٹیلی فون کی تاریں بچھانے کے لیے انہوں نے 25 دن کی چھٹی لی اور واپس لوٹنے کے بعد انہیں فوجی دستے کا کمانڈر بنا دیا گیا۔
دہلران میں ایران کی سرزمین پر عراقیوں کے حملے کے بعد راوی گرفتار ہو گئے۔ گرفتار ہونے سے پہلے انہوں نے دریا کہ پاس جا کر اسلحہ پانی میں پھینک دیا تھا تاکہ عراقیوں کو ان کے ہاتھ میں اسلحہ نہ دکھے، پھر وہ لوگ انہیں العمارہ لے گئے۔ یہاں پر انہوں نے خود پر ہوئے تشدد، گندے برتنوں میں کھانا کھانے اور پیاس کے بارے میں بتایا ہے۔ ان حکایات سے عراقیوں کی قید اور ہمارے جنگجوؤں کی قید کا فرق واضح ہوتا ہے۔ کچھ عرصے بعد عراقی انہیں مُلحق نامی تہ خانے میں لے گئے۔ تکریت کیمپ کے تین بنیادی حصے تھے کہ جن میں سے ایک یہی ملحق کا حصہ تھا۔ در حقیقت، ملحق ایک چار دیواری تھی، جس میں کچھ کمرے تھے۔ اس میں بیس میٹر کی خاردار تاریں تھیں جن میں ہائی وولٹیج کرنٹ دوڑ رہا تھا۔
قیدیوں کے تبادلے کی خبر کے بعد، باری باری قیدیوں کو رہا کیا جا رہا تھا؛ لیکن جیسے ملحق کیمپ کے قیدیوں کی قسمت ہی خراب ہو۔ راوی بتاتے ہیں کہ قیدیوں کے ساتھ گارڈز کا رویہ بہت برا تھا اور وہ مسلسل انہیں مارتے پیٹتے رہتے تھے۔ پہلے انہیں لگا کہ قیدیوں کا تبادلہ منسوخ ہو گیا ہے اور جنگ دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے دیکھا کہ صلیب احمر کی گاڑیاں اس کیمپ میں داخل ہو رہی ہیں تو وہ بے ساختہ اللہ اکبر کے نعروں سے صلیب احمر کے نمائندوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔ عراقی افسران کے منع کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور آخرکار صلیب احمر کے نمائندوں کو ان قیدیوں کی موجودگی کا پتہ چل گیا۔ راوی نے ان لمحوں اور بغداد میں بس میں سوار ہونے پر آزادی کے امیدوار ہونے کے احساسات اور جذبات کو کتاب کے آخر میں بیان کیا ہے۔
یہ یادیں، لوگوں کے ذاتی اور اجتماعی تجربات کو بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب قید کے انسانی اور جذباتی پہلوؤں کی تصویر کشی کرتی ہے۔ روایتی اور فوجی حکایات کے برعکس، یہ یادیں ان مصیبتوں اور مزاحمتوں کی ایک سچی اور واضح تصویر پیش کرتی ہیں۔ یہ کتاب، کیمپس کے قیدیوں کے ذہنی اور جسمانی حالات، تشدد کے طریقوں اور قیدیوں کی استقامت کے بارے میں بتاتی ہے۔ اسی طرح سے قاری کو اس دور کی تفصیلات سے آشنا ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
ان یادوں کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک، مصنف کی سلیس، رواں اور بے تکلفانہ زبان ہے، جو قید کے دنوں کی تلخ اور شیریں یادوں کو بیان کرتی ہے اور قاری کو ان سے جوڑ دیتی ہے۔ اسی طرح سے کتاب نے تکلیف دہ حکایات کے ساتھ ساتھ دوستیوں، اتحاد اور اجتماعی مزاحمتوں کو بھی بیان کیا ہے۔
اس دوران کتاب میں جن چیزوں کی کمی محسوس ہوتی ہے ان میں سے ایک، تاریخوں کا معین نہ ہونا ہے۔ مثال کے طور پر، راوی کی گرفتاری اور آزادی تک کی تاریخ بھی ذکر نہیں کی گئی، جسے یاد کرنے کے لیے ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں۔ وضاحتوں اور اشاریے کا نہ ہونا، اس کتاب کی دوسری کمی ہے۔
کتاب ’’خفیہ کیمپ‘‘ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ جنگوں کی تاریخ، صرف میدان جنگ میں ہی رقم نہیں ہوتی بلکہ قیدیوں کے کیمپس میں بھی جسم پر روح کی فتح کی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔
صارفین کی تعداد: 52