آیت اللہ مکارم شیرازی کی یادوں کا ٹکڑا
سیاسی قیدیوں کی یادیں
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
مترجم: ضمیر علی رضوی
2025-1-7
رات کا وقت تھا۔ موسم ٹھنڈا تھا اور اندھیرا ہو چکا تھا۔ جینڈر میری (قم) کے آفس کے پاس ایک ملٹری ٹرک میرے اور دو دوسرے حضرات کے انتظار میں تھا۔ ہر آدمی کے لیے دو مسلح اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ چونکہ قم کے حالات بہت خراب تھے اس لیے وہ ہمیں باہر لے جانے میں بہت جلد بازی دکھا رہے تھے۔
جب ہم 6 مسلح اہلکاروں کے ساتھ قم ــ اراک ہائی وے پولیس کے اسٹیشن پر پہنچے تو برفباری شروع ہوگئی۔ ہمیں یہاں، گزرنے والی گاڑیوں کے آنے تک رکنا تھا اور ہم میں سے ہر ایک کو مقرر شدہ منزل کی طرف جانا تھا۔
گاڑیوں کے آنے تک ہم نے ہائی وے پولیس کے اسٹیشن کے اندر رہنے کا کہا۔ کیپٹن صاحب جو بہت پریشان لگ رہے تھے انہوں نے منع کر دیا اور کہا تم لوگ ٹرک میں ہی رہو گے اور ہمیں گن سے ڈرایا بھی۔
ٹرک کی چھت اور اطراف کی ترپال پھٹی ہوئی تھی۔ ہوا اور برف اندھیرے ٹرک کے اندر آرہی تھی۔ درجۂ حرارت شاید منفی 10 ڈگری تک پہنچ گیا تھا۔ اہلکار باری باری اتر رہے تھے اور پولیس کے دفتر میں جا کر خود کو گرم کر رہے تھے، لیکن مجھے محسوس ہوا کہ آہستہ آہستہ میرے ہاتھ پاؤں جم رہے ہیں اور سن ہو رہے ہیں۔ ہم ٹرک سے اتر کر برفباری میں چلنے کو تیار تھے تاکہ ہمارے جسم میں خون نہ جمے لیکن وہ نہیں مانے۔ آخری چیز جو میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ ٹرک کے اندر ہی ہم مسلسل اپنے ہاتھ پیروں کو ہلاتے رہیں تاکہ ہم اس خطرے سے بچ جائیں۔ میں بھلا نہیں سکتا کہ اس رات کی اذیت کے آثار ایک طویل عرصے تک میرے ایک ہاتھ پر باقی رہے۔
قریب ایک گھنٹے بعد اصفہان جانے والی ایک بس میں بیٹھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرا جسم جو جمنے والا تھا، اس میں آہستہ آہستہ جان پڑ رہی تھی۔ بس کے مسافروں نے مسلح اہلکاروں کی دو گنز کے تمام تر خوف کے باوجود خاص طور پر مجھے پہچاننے کے بعد کسی بھی قسم کی ہمدردی سے دریغ نہیں کیا۔ یہ منظر انہیں بہت کچھ سکھا رہا تھا۔
حکم یہ تھا کہ ہم تیزی سے جائیں، شہروں میں نہ رکیں اور ضرورت پڑنے پر صرف ہائی وے پولیس کے اسٹیشن پر ہی ہمیں ایک گاڑی سے دوسری گاڑی میں منتقل کیا جائے۔ آدھی رات کے بعد ہم اصفہان پہنچے۔ وہاں وہ کار سے یزد جانے پر مان گئے۔ لمبے اور دشوار درے ’’ ملا احمد‘‘ میں دھند چھائی ہوئی تھی اور وہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور آمد و رفت بہت کم تھی، لیکن وہ لوگ اصرار کر رہے تھے ہم اسی طرح آگے بڑھتے رہیں۔ ہم ایسی جگہ پہنچ گئے تھے کہ جہاں سے نہ ہم آگے جا سکتے تھے نہ ہی پیچھے لوٹ سکتے تھے۔ مختصر یہ کہ اس رات ہم موت کے منہ تک پہنچ گئے تھے لیکن خدا نے ہمیں بچا لیا۔ بڑی مشکل سے ہم یزد تک پہنچے اور بغیر رکے ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔
رات کو بم ــ ایرانشہر کے راستے میں ہم راستہ بھٹک گئے اور ایک بیابان میں پھنس گئے۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ دور دور تک کسی جانور کا بھی نام و نشان نہیں تھا۔ ہم اسی سوچ میں تھے کہ کیا کریں؟ اتفاقاً دور سے ایک روشنی دکھائی دی۔ پتہ چلا کہ وہ ایک بس تھی جو اسی راستے سے آئی تھی۔ ہم یہ ڈر تھا کہ اگر وہ ہمارے اشارے سے نہ رکی تو۔ دو اہلکاروں میں سے ایک، جس سے آہستہ آہستہ ہماری دوستی ہوگئی تھی، نے کہا: یہاں پستول سے کام نہیں چلے گا۔ وہ نیچے کودا، اس نے ہاتھ میں بندوق پکڑی اور بس کو روکا۔ ڈرائیور اور مسافر گھبرا گئے کہ کیا ہوا ہے؟ اور جب انہیں پتہ چلا کہ ہم صرف راستہ پوچھنا چاہتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔
آخرکار معلوم ہوا کہ ہم غلطی سے زاہدان کے کچے راستے سے ایرانشہر آگئے ہیں، ڈرائیور جو ایک ناتجربہ کار جوان تھا، وہ ہماری واپس جانے کے خلاف تھا، لیکن میں اصرار کر رہا تھا کہ ہمیں واپس جانا چاہیے کیونکہ راستے میں پیٹرول ختم ہونے کا خطرہ تھا۔ ( یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اس علاقے کی کچھ شاہراہیں ایسی ہیں جہاں 350 کلومیٹر تک کوئی پیٹرول پمپ نہیں ہے)۔ بغیر نیند اور آرام کے 30 گھنٹے کے مسلسل سفر سے میرے اعصاب جواب دینے لگے۔ اہلکاروں نے (اس وجہ سے کہ مولانا صاحب کا تجربہ ہم سے زیادہ ہے) میری تجویز کی حمایت کردی اور ہم ’’بم‘‘(شہر) لوٹ گئے۔
ایرانشہر کے راستے میں گاڑی کے پرانے ٹائر کے پھٹنے، اضافی ٹائر(اسٹیپنی) نہ ہونے اور ریت کے طوفان میں پھنسنے کے بارے میں، میں کچھ نہیں بتاؤں گا۔ جیسے تیسے تقریباً 50 گھنٹے کے سفر کے بعد آخرکار ہم پاکستان بارڈر پر، خلیج عمان کے کنارے، چابہار بندرگاہ یعنی ملک کے سب سے دور علاقے پہنچے۔ راستے بھر تھکن سے چور اور بیماری کی حالت میں مجھے بار بار انسانی حقوق کا عالمی منشور( اور سال میں اس کے لیے مختص شدہ دن اور ہفتہ) یاد آرہا تھا، معلوم ہوا کہ ہمارے اہلکار بھی اس صورتحال سے نالاں ہیں لیکن ان کے مطابق ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔
حالانکہ دیگر علاقوں میں برفباری ہو رہی تھی اور جنوری(بہمن) کا مہینہ تھا، لیکن چابہار میں ہم ٹھنڈا پانی پی رہے تھے۔ غیر مقامی لوگ پنکھے اور کچھ تو روم کولر استعمال کر رہے تھے، لیکن مقامی لوگ جو اکثر بلوچ ہیں، کہہ رہے تھے کہ موسم ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ گرمی تب ہوتی ہے جب انگلیوں سے پسینہ ٹپکتا ہے اور دماغ کھولنے لگتا ہے، موسم مرطوب ہو جاتا ہے، کپڑے بھیگ جاتے ہیں، اور درختوں کے پتوں سے بن بادل برسات کی طرح پانی نیچے گرتا ہے![1]
[1] منبع: حقگو منوچھر، زندانیان سیاسی، (شرح حال و مبارزات سیاسی فرزندان راستین ایران)، انتشارات عطایی، ص 93۔
صارفین کی تعداد: 23
گذشتہ مطالب
- سیاسی قیدیوں کی یادیں
- جہنم کے داروغہ کا تشدد
- (1360)1982کے خونی سال کا آخری دن
- ایران میں سیاسی قیدیوں کی سزائے موت کے حکم پر نجف کے علماء کا رد عمل
- فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات
- تبریز کی فوجی گیریژن پر قبضے کا طریقہ کار
- سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت
- حاجی مصطفی خمینی صاحب کی تجویز