جہنم کے داروغہ کا تشدد
مترجم: ضمیر علی رضوی
2025-1-4
سن 1975(1354) تھا کہ میرا نام ساواک میں آگیا تھا۔ ایک دن جب میں کالج میں داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ میری ایک دوست بہت پریشان ہے، اس نے بتایا کہ گزشتہ رات ہاسٹل سے ہمارے دو ساتھیوں کو گرفتار کرکے لے گئے ہیں۔ چونکہ وہ میرے گہرے دوست تھے اس لئے مجھے لگ رہا تھا کہ وہ مجھے بھی گرفتار کرنے آسکتے ہیں۔ میں جلدی سے گھر واپس آئی تاکہ گھر میں موجود کتابوں اور پمفلٹلس کو چھپا سکوں۔ تھوڑی دیر بعد میرے بھائی آگئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ کیا ہوا ہے اور اگر وہ لوگ مجھے لینے آئیں تو آپ لوگ زیادہ رد عمل نہ دیں۔ ہم ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ گھر کی گھنٹی بجی۔ میں نے کہا کہ ضرور ساواک کے لوگ ہیں اور مجھے لینے آئے ہیں، وہی تھے۔ میرے بھائی نے ان سے آئی ڈی کارڈ مانگا۔ کارڈ دکھا کر وہ لوگ گھر کے اندر آگئے۔ انہوں نے گھر کی تلاشی لینا شروع کردی لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ میرے بھائی کے پاس ’’اینالیسز‘‘ نامی کتاب تھی جو اکاؤنٹنگ کی فیلڈ کی کتاب تھی۔ انہیں لگ رہا تھا کہ یہ جدوجہد کرنے والے کسی سیاسی مکتب کی کتاب ہے۔ وہ میرے بھائی کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنا چاہ رہے تھے۔ میرے بھائی نے ان سے کہا یہ اکاؤنٹنگ کی ایک درسی کتاب ہے۔ مجبوراً انہوں نے کتاب زمین پر رکھ دی اور پھر مجھ سے کہنے لگے تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا، ہم تم سے کچھ سوال پوچھیں گے اور پھر تم واپس آسکتی ہو۔ میرے بھائیوں نے بہت پوچھا کہ ہماری بہن کو کہاں لے جارہے ہو تو انہوں نے سرسری جواب دیا اور کہنے لگے: کہیں نہیں، یہیں پاس میں۔ میں چلنے کے لیے تیار ہوگئی اور ان کے ساتھ دروازے تک آگئی۔ ہمارا گھر امام زادے سید اسماعیل کے مزار کے پیچھے تھا اور آڑھی ٹیڑھی اور تنگ گلیوں والے محلے میں تھا۔ ساواک والے اتنی پتلی گلیوں میں دو پیکان(گاڑی) لائے ہوئے تھے۔ میرے بھائیوں کے سامنے خود کو مہذب دکھانے کے لیے دو اہلکار ایک طرف بیٹھ گئے اور میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد گاڑی، انسداد تخریب کاری کی مشترکہ کمیٹی کی جیل کے سامنے رکی۔ جیسے ہی میں اہلکاروں کے ساتھ گارڈز کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں موجود ہر شخص میری توہین کر رہا تھا۔ آخرکار مجھے جیل کا لباس دیا گیا اور میں نے اسے پہن لیا۔ ایک گارڈ آیا اور اس نے کہا: اسے رسولی کے پاس لے جاؤ۔ میں کچھ سیڑھیاں اوپر گئی اور ایک کمرے میں داخل ہوئی۔ میرے کان میں ایک آدمی کی آواز آئی اور اس نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے کہا: رقیہ واثقی۔ وہ خود ہی رسولی تھا، اس نے کہا: کرسی پر بیٹھو اور پھر اس نے گالیاں دینا شروع کردیں، وہ گالیاں جنہیں سننے کا وہ خود زیادہ حقدار تھا۔ اس نے کہا: بتاؤ تم نے کیا کیا ہے؟ اگر ابھی بتادو گی تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ میں نے کہا: میں نے کچھ نہیں کیا، آخر میں کیا کرسکتی ہوں! اس نے تھپڑ مارنا شروع کردیے، وہ لاتیں مار رہا تھا، بال کھینچ رہا تھا اور مسلسل گالیاں دے رہا تھا۔ کچھ دیر اسی طرح سے گزری اور پھر اس نے کہا: لگتا ہے تم ایسے منہ نہیں کھولو گی، لگ رہا ہے یہ کچھ بتانا نہیں چاہتی، اس نے گارڈ سے کہا: اسے حسینی کے کمرے میں لے جاؤ، میں گارڈ کے ساتھ حسینی کے کمرے میں چلی گئی۔ انہوں نے میرے پیر تخت سے باندھ دیے، میں بالکل بھی ہل نہیں پارہی تھی۔ حسینی نے مجھے تار سے مارنا شروع کیا۔ وہ بہت بے دردی سے مار رہا تھا۔ مار کا درد بہت زیادہ تھا۔ اتنا کہ ہر ضرب کے ساتھ شدید درد میرے وجود میں اتر رہا تھا۔ اس درد کے علاوہ جسے میں برداشت کر رہی تھی، میں پریشان بھی تھی اور مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں میں منہ نہ کھول دوں۔ حسینی کا چہرہ بہت بد صورت اور ڈراؤنا تھا۔ واقعی میں مجھے لگ رہا تھا کہ وہ جہنم کا داروغہ ہے۔ انسان کے ذہن میں جہنم کا جو تصور ہوتا ہے، حسینی اور اس کا کمرہ بالکل اسی طرح میرے ذہن میں ہے۔ حسینی بہت بے دردی سے تار کو اٹھا رہا تھا اور پیروں کے تلووں پر مار رہا تھا۔ یہ بات کہنا بہت آسان ہے لیکن جب وہ تار میرے ہاتھوں اور پیروں پر پڑ رہا تھا تو میرے جان نکل رہی تھی۔ انہوں نے اس کمرے کو ایسا بنایا ہوا تھا کہ آپ پوری طرح سے مضطرب رہیں۔ کھوپڑیوں اور ڈھانچوں کی جو تصویریں انہوں نے دیواروں پر لگا رکھی تھیں اور طرح طرح کے تار سب انسان کو شدید اضطراب اور خوف میں مبتلا کر رہے تھے اور میرا پورا دھیان اس بات پر تھا کہ کہیں مجھ سے کوئی چھوٹی سی غلطی بھی نہ ہوجائے۔ حسینی کا لمبا چوڑا بدن اور چھوٹا سا سر خود ایک روحانی تشدد تھا اور سارے تفتیش کرنے والے بہت مہارت سے اپنا کام کرتے تھے۔ حسینی نے مجھے تار سے مارنے کے بعد اوپر والی منزل پر رسولی کے کمرے میں بھیج دیا۔ رات تک اسی طرح سے پوچھ تاچھ جاری رہی۔ رات ہوئی تو مجھے ایک سیل میں لے گئے۔ میں بہت پریشان تھی۔ ایک طرف مجھے اپنے گھر والوں کی فکر ہورہی تھی اور دوسری طرف میں اپنے بھائیوں کے لیے پریشان تھی جنہوں نے مجھے گرفتار ہوتے دیکھا تھا۔ میں نے بہت سوچا کہ میں پوچھ تاچھ کرنے والوں کو کیا جواب دوں، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ بس میں اتنا ہی کہہ پارہی تھی کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ یہ پوچھ تاچھ کا یہ سلسلہ کچھ دنوں تک جاری رہی، یہاں تک کہ ایک دن، میں پوچھ تاچھ کے لیے گئی ہوئی تھی کہ مجھے ایک کاغذ دیا گیا جس پر لکھا تھا کہ تمہاری شناخت ہوگئی ہے۔ اپنی سرگرمیاں کو آغاز سے لکھو۔ میں نے رسولی سے کہا: کتنے دن ہوگئے ہیں، آپ مجھے اوپر لاکر پوچھ تاچھ کر رہے ہیں؟ اگر میں نے کچھ کیا ہوتا تو میں آپ کو شروع میں ہی بتا دیتی، میں نے کچھ نہیں کیا۔ پوچھ تاچھ کے دوران میں نے دیکھا کہ میرے وہ دو کلاس فیلو جو مجھ سے پہلے گرفتار ہوئے تھے مجھ سے بری حالت میں کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ بہت مشکل سے چل پارہے تھے۔ انہوں نے مجھے اشارے سے بتایا کہ ہمارے ایک ساتھی نے سب کچھ بتادیا ہے، یہ لوگ جان گئے ہیں تم بے وجہ مزاحمت مت کرو۔ جب میں نے دیکھا کہ حالات ایسے ہوگئے ہیں تو میں نے ہمارے بیچ کی باتیں اور اسی طرح سے اپنی سرگرمیوں کے آغاز کے بارے میں بتادیا۔ اس کے بعد رسولی نے کہا: دیکھو، اب جب تم نے منہ کھول دیا ہے تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ پھر انہوں نے مجھے سیل میں بھیج دیا لیکن وہ لوگ میرا پیچھا چھوڑنے والے نہیں تھے۔ مجھ سے مزید کچھ مرتبہ پوچھ تاچھ کی گئی۔ وہ لوگ کہتے تھے: تم سب کچھ نہیں بتا رہیں، تمہیں بتانا ہوگا کہ تم نے کیا کیا ہے۔ میں بھی وہی باتیں دہراتی رہتی تھی جو میں نے پہلے بتائی تھیں۔ جس سیل میں، میں قید تھی وہ تاریک تھا اس کی ہوا آلودہ اور بدبودار تھی۔ چھت میں ایک چھوٹی کھڑکی تھی جہاں سے سیل میں تھوڑی روشنی آتی تھی۔ کھڑکی کی جالی کے اکثر حصے پر خون لگ رہا تھا۔ شروع کے دن میرے لیے بہت کٹھن تھے اور میں اس گندے اور متعفن کارپٹ پر بیٹھ نہیں پارہی تھی۔ اس طرح کے ماحول میں رہ کر ایک صحت مند آدمی بھی بہت جلد بیمار ہوجاتا۔ میں نے خدا سے التجا کی کہ جب تک میں وہاں ہوں، میں بیمار نہ پڑوں۔ پھر تین چار ہفتے بعد مجھے عمومی سیل میں بھیج دیا گیا۔
منبع: آن روزهای نامهربان (یاد از رنجهایی که بردهایم...)، فاطمه جلالوند، تهران، موزه عبرت ایران، 1385(2006)، ص 41 - 45.
صارفین کی تعداد: 31
گذشتہ مطالب
- سیاسی قیدیوں کی یادیں
- جہنم کے داروغہ کا تشدد
- (1360)1982کے خونی سال کا آخری دن
- ایران میں سیاسی قیدیوں کی سزائے موت کے حکم پر نجف کے علماء کا رد عمل
- فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات
- تبریز کی فوجی گیریژن پر قبضے کا طریقہ کار
- سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت
- حاجی مصطفی خمینی صاحب کی تجویز