(1360)1982کے خونی سال کا آخری دن
فہیمہ کے خطوط: آٹھواں خط
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
مترجم: ضمیر علی رضوی
2025-1-1
بسمالله الرحمن الرحیم (بهِ نستعین)
وَالْعَادِیّات ضَبْحاً، فَالْمُورِیَاتِ قَدْحَاً، فَالْمُغیِراَتِ صُبْحاً، فَأَثَرنَ بِهِ نَفْعاً، فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعاً، اِنَّ الْاِنسَانِ لِرَبِّه لَکَنُود، وَ اِنَّهُ عَلَی ذلِکَ لَشَهیِد وَ اِنَّهُ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِید...
خداوند سبحان کے نام سے... اس کے نام سے جو تمام جہان والوں سے بڑا، مہربان اور قدرت والا ہے...
وہی ہے جس نے مجھے اپنی عظمت میں غور و فکر کی قوت عطا کی اور کر رہا ہے اور وہی ہے جو ہمیں اپنا صراط مستقیم دکھائے گا اور ہماری آنکھوں کو اپنے چہرے کے نور سے روشن کرے گا ان شاء اللہ. 20 مارچ(29 اسفند)، یعنی 1982(1360) کے خونی اور بابرکت سال کے آخری دن کے قریب گیارہ بج رہے ہیں. ہم رقابیہ کے دشت میں فجر40 بریگیڈ کے ٹھکانے پر اپنے بنائے انفرادی بنکر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور سورج کی روشنی میں مجھ پر غنودگی طاری ہے لیکن گزشتہ رات 12 بجے سے شروع ہونے والی بعثی دشمنوں کی توپوں کی گھن گرج اور مارٹر گولوں کی سیٹیاں مجھے سونے نہیں دے رہیں. آج آرڈر آیا ہے کہ ہم جلد از جلد خیموں کو لپیٹ کر انفرادی بنکرز میں گھس جائیں، کیونکہ خیموں کے دشمن کے طیاروں کی نظر میں آنے سے ان پر بمباری کا امکان ہے... دو دن سے ہم ہائی الرٹ پر ہیں اور حملے کے آرڈر کے ملنے کا انتظار کر رہے ہیں. کمانڈرز مواصلاتی کیمپ سے دور نہیں جا رہے... محاذ کا حصہ بننے کے لیے ہمارا دل مچل رہا تھا، حملے کے لیے ہم لوگوں کے شوش کے دوسری طرف جانے کا امکان زیادہ تھا... مختصر یہ کہ جو خدا چاہے گا وہی ہوگا. حملے کا وقت بہت قریب آچکا تھا اور ہم آگے بڑھنے کے انتظار میں تھے.
آج سال کا پہلا دن ہے اور گزشتہ رات، آدھی رات کو سال تبدیل ہو چکا ہے اور چونکہ ہم پورا دن مسلسل انفرادی بنکر میں موجود تھے اسی لیے میرا پورا سر اور خاص طور پر آنکھیں دھول مٹی سے بھر چکے تھے. اسی لیے میں رات کے شروع سے ہی کمبل میں چلا گیا اور سال کی تبدیلی کے وقت امام کی تقریر سننے کے لیے میں نے کمبل ہٹا دیا لیکن امام کا پیغام سننے کے بعد دوسرے پیغامات کو سننے کی نیند نے اجازت نہیں دی... آج ساری بٹالینز شوش-دزفول سے قریب بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ملحہ(گاؤں) میں نئے مقام پر منتقل ہوں گی. طے پایا ہے کہ ہمیں المہدی بریگیڈ کے ساتھ آپریشن کرنا ہے اور فوج اور المہدی بریگیڈ کے پہلی صف کو توڑنے کے بعد ہم سائٹ 4 اور 5 کو نشانہ بنانے کے لیے آگے بڑھیں گے. البتہ آپریشن کے آغاز میں ہمارا نہ ہونا ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہے. اسی لیے آج صبح سویرے ہم نے بریگیڈ کمانڈر(عساکرہ) سے بہت بحث کی کہ اگر ممکن ہو تو ہم نجف اشرف بریگیڈ چلے جائیں جنہیں مسماری فورس کی بہت ضرورت ہے اور پہلی رات وہی لوگ آپریشن کو شروع کریں گے.
جیسے ہی اس بریگیڈ میں جانے کی بات آئی وہ نہیں مانا اور ہماری اتنی شدید بحث ہوئی کہ ہم غصے کی حالت میں اٹھ کر خیمے میں چلے گئے اور شام تک میرا کھانا کھانے کا دل نہیں کیا، میرا پھوٹ پھوٹ کر رونے کو دل چاہ رہا تھا. ظلم ہے کہ انسان حملے کی رات کیلئے اتنا جاسوسی کرنے جائے اور آخر میں اس سے کہہ دیا جائے کہ آپ پیچھے رہیں جب تک اعلی افسران کی طرف سے کوئی حتمی فیصلہ نہ لے لیا جائے. بہرحال آج شام عباس محمدیون جو نجف اشرف بریگیڈ کے مسماری یونٹ کے انچارج ہیں، ہمارے پاس آئے، ان کے آنے نے ہمارے دکھ میں اضافہ کر دیا اور اس نے بتایا کہ عراقیوں کے پرسوں رات کے حملے کی وجہ سے- کہ ابھی مجھے یاد آیا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ کس طرح مسماری یونٹ کے 16 افراد عراقیوں کے جال میں پھنس گئے اور شہید ہو گئے- مزید مسماری فورس کی ضرورت ہے... خیاط ویس بھی آگیا اور ہم نے ڈویژن کمانڈ کے ذریعے بریگیڈ کے اعلی افسران سے منوانے کی کوشش کی تاکہ ہم فتح بیس میں نجف بریگیڈ میں جا سکیں.
کچھ لمحوں کے لیے میں بے حد خوش ہو گیا کیونکہ اچانک میری آنکھیں ہمارے عزیز، حسین قدوسی کے دیدار سے ٹھنڈی ہوگئیں! تم نہیں جانتیں کہ مجھے کتنی خوشی ہوئی. عراقیوں کا حملہ کچھ یوں تھا کہ شاید جمعہ کی رات قریب 12 بجے کا وقت تھا، عراقیوں کی فائرنگ شدید ہوگئی، اتنی شدید کہ ہم سو نہیں پائے. پہلے ہمیں لگا کہ ہم نے حملہ کیا ہے اور دوبارہ پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے ہم بہت رنجیدہ ہیں! لیکن صبح خبر آئی کہ نہیں، بعثی پیش قدمی کرنا چاہتے تھے اور وہ ہماری دوسری صف تک آگے بھی آگئے تھے لیکن بدبختوں کو کیا پتہ تھا کہ انہیں منہ کی کھانی پڑے گی، فوج اور سپاہ کے ساتھیوں نے انہیں ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ رقابیہ کے سامنے والے دشت میں تا حد نظر عراقی پڑے ہوئے تھے، ساتھیوں کے اندازے کے مطابق ان کے 700 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور وہ بھاگ گئے، جمعہ کے دن جہاد کے لوڈر اور ٹرک کام کر رہے تھے اور ان کے ناپاک جسموں سے اجتماعی قبروں کو بھر رہے تھے. افسوس کہ میرے کیمرے میں ریل نہیں تھی، واقعی میں کیا خوب کہا ہے کہ خدا نے ہمارے دشمنوں کو احمق بنایا ہے... آج 22 مارچ (فروردین کا دوسرا دن) ہے اور ہم شوش(شہر) میں ابوذر ٹاؤن میں ٹھہرے ہوئے ہیں. گزشتہ رات قریب 2 بجے گاڑی میں لوگ ہمیں ڈھونڈتے ہوئے آئے کہ تیار ہوجاؤ ہمیں شوش جانا ہے. ہم جلدی سے باہر آگئے اور تیار ہوگئے. جب ہم نے محاذ کی طرف نظر ڈالی تو ہم سب کے دل سے ایک آہ نکلی کیونکہ آسمان، سگنل فلیئرز کی روشنی سے چمک رہا تھا اور یہ اسلامی لشکر کے حملے کی علامت تھی. ہم شدید دکھ کے ساتھ تیار ہوئے اور شوش کے لیے روانہ ہوگئے. ہم شوش پہنچ گئے اور تیزی سے محاذ کی طرف بڑھے. چونکہ ہمارے ساتھ گائیڈ نہیں تھا اس لیے ہم غلط راستے پر چلے گئے اور سبز پہاڑی کے محاذ پر پہنچ گئے. اس آخری جگہ تک جہاں گاڑی سے جایا جا سکتا تھا، ہم چلے گئے. اتنا آگے کہ ہم دشمن کے سنائپرز کی رینج میں پہنچ گئے اور اسی طرح سے توپوں کے گولے اور مارٹر گولے اور آر پی جی ہمارے سروں سے گزر رہے تھے. پندرہ منٹ تک ہم فجر بریگیڈ کو ڈھونڈتے رہے لیکن وہ وہاں نہیں تھے. اسی پندرہ منٹ کے دوران کئی شہید اور زخمی لائے گئے. میں نے ایک سپاہی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں گرینیڈ پھٹ گیا تھا، اس کے اسلحے کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے اور اس کا دل اور آنتیں باہر آگئی تھیں. ہم نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ ہمارے افراد یوں ہی مارے جائیں، ہم پیچھے لوٹ جاتے ہیں اور واکی ٹاکی کے ذریعے ساتھیوں کو ڈھونڈتے ہیں. آخر کار ہم ٹاؤن لوٹ آئے اور انتظار کرنے لگے یہاں تک کہ صبح 10 بجے بریگیڈ کے سیکنڈ ان کمانڈ، دو بٹالین فورس لینے آئے اور ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے. اس بار ہم ملحہ کے محاذ پر گئے اور کمانڈر کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے، زخمیوں اور محاذ سے آنے والے ساتھیوں سے گفتگو کے بعد ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ حالات اچھے نہیں تھے اور ہمارے کافی لوگ زخمی اور شہید ہو گئے تھے. بہرحال بریگیڈ کمانڈر آئے اور وہ خبر لائے کہ ہماری بٹالینز پوزیشنز مضبوط کرنے کے لیے تھوڑا پیچھے آرہی ہیں تو فی الحال مسماری ٹیم کی ضرورت نہیں ہے... وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا اور ہم دوسروں سے پیچھے رہ گئے... بہرحال ہم پیچھے واپس آگئے اور پھر انتظار کرنے لگے کہ خدائے کریم و علیم و خبیر کیا چاہتا ہے وہ کہتے ہیں نا کہ "رضا بقاضائک، تسلیما لامرک"... ہمارے ساتھی عجیب طریقے سے آگے جانے کے لیے بے تاب ہو رہے ہیں اور مجھ پر اور دوسروں پر دباؤ ڈال رہے ہیں، یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ سبھی، محاذ پر فعال موجودگی کے لیے اس ٹیم کا حصہ بنے ہیں. ہماری ٹیم کے ایک اچھے ساتھی جو شوش کے دوسرے حصے میں آپریشن کر رہے تھے، عید کی رات وہ دس مسماریوں کے ساتھ مل کر اینٹی ٹینک مائن لگا رہے تھے کہ اس دوران مارٹر گولے کا ایک ٹکڑا لگنے سے مائن پھٹ گئی اور گیارہ لوگوں کی ٹیم میں سے صرف تین لوگ ہی باقی بچے. میری اس کے ساتھ بہت سی تصویریں ہیں، اگر تصویروں کو دیکھو تو شاید اسے پہچان لو، دشت عباس کی تصویروں میں حسینی!... پروردگار اسے جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے... عید کا تیسرا دن ہے اور شام کے 6 بجے ہیں، آج ہمارا حال کبھی کچھ تھا کبھی کچھ! صبح ہم سوچ رہے تھے کہ اب ہمیں حملے میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملے گا. ہم بریگیڈ کمانڈر کے پاس گئے. ہم نے بات کی اور وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ ہماری آدھی ٹیم کو نجف بریگیڈ بھیج دیں گے جنہوں نے ابھی تک آپریشن نہیں کیا ہے اور طے پایا ہے کہ انہیں آج رات آپریشن کرنا ہے. ہم بھی خوشی خوشی واپس آئے اور ساتھیوں کو تقسیم کردیا. ایک بات بتاتا چلوں کہ تم دیکھ رہی ہو کہ میرے خطوط کو اول سے آخر تک پہنچنے میں کچھ دن لگ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ میری یادوں کی ڈائری بنے گے کیونکہ میرے پاس ان یادوں کو دوبارہ لکھنے کا وقت نہیں ہے اور اگر لکھ بھی لوں تو پتہ نہیں یہ کہاں جائیں گی، اس لیے تم خود انہیں جمع کر لو اور میرا کام آسان کر دو... گزشتہ رات تمہارا خط ایک ساتھی کے ذریعے مجھ تک پہنچا، مجھے بہت خوشی ہوئی. گھر کے متعلق تمہارے اچھے اقدامات کے لیے میں تمہارا شکر گزار ہوں اور ومن اللہ التوفیق... اب جن علاقوں میں ہم تھے ان میں کامیابیوں کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں؛ کربلا بریگیڈ نے رقابیہ میں آپریشن کیا اور اب دو سائٹس ان کے قبضے میں ہیں اور انشاءاللہ ہم بھی اس لحاظ سے ان کی مدد کے لیے جلدی جائیں گے، اگر خدا کا فضل و کرم ہوا تو... مسلسل محاذ سے گروہ کے گروہ قیدی لائے جا رہے ہیں... خط بہت لمبا ہو گیا اور میں بھی بیٹھے بیٹھے لکھتے لکھتے تھک گیا، اگر موقع ملا تو باقی باتیں اگلے خط میں لکھوں گا! میں امید کرتا ہوں کہ اسلامی فوج کی فتح سب کو خوش کرے گی. تم میری زیادہ فکر مت کیا کرو کہ یہ میں اور ہم، اسلام اور مسلمانوں کی کامیابی کے مقابلے میں ایک ذرہ برابر بھی نہیں ہیں اور میرے اور اپنے اچھے ماں باپ کو سلام پہنچا دینا. مجھے امید ہے کہ جتنا میں انہیں جانتا ہوں وہ لوگ میری واپسی کے لیے بالکل بھی فکرمند نہیں ہوں گے اور تم اچھی طرح میری کمی کو پورا کر سکتی ہو. واقعی میں اگر تم نہ ہوتیں تو شاید انہیں میری کمی زیادہ محسوس ہوتی! ہماری شادی بھی خدا کا ایک لطف تھا اور ان شاءاللہ اس کے پرثمر نتائج نکلیں گے اور ہم کامیابی اور سعادت کا راستہ طے کریں گے...تبرک کے طور پر کچھ اشعار ان شہیدوں کے نام جن کے جنازے زمین سے اٹھائے نہیں جاسکتے!...[1]
ای در قرار سوخت مفهوم بی قراری
قرار میں جل گیا مفہوم بے قراری
در بستر حماسه خونت هماره جاری
جنگ نامے کے ضمن میں تمہارا خون ہمیشہ جاری ہے
در برگ ریز سنگر، همواره میشکوفد
بنکر کی پت جھڑ میں ہمیشہ کھلتا ہے
فوّاره رگانت چون لاله بهاری
گل لالہ کہ طرح تمہاری رگوں کا فوارہ
از جزر و مدّ تیغت، ایثار بی دریغت
تمہاری تیغ کے مد و جزر سے، تمہارے بے دریغ ایثار سے
بر تارک پلیدان روییده زخم کاری
خبیثوں کے سروں پر ایک گہرا زخم لگا
از رزم بی درنگت کفتارها گریزان
تمہاری بے خوف جنگ سے خونخوار دشمن بھاگتے ہیں
و ز آتش تفنگت خفّاشها فراری
اور تمہاری بندوق کی گولیوں سے دشمن کی فوجیں فرار ہوتی ہیں
تفسیر آیههای پی در پی جهاد است
جہاد کی مسلسل آیات کی تفسیر ہے
بانگ مسلسل تو در سینه صحاری
صحراؤں کے سینوں میں تمہاری مشین گن کی آواز
ای همچو سربه داران در رزم با تتاران
اے وہ کہ جس نے تاتاریوں سے جنگ میں سرفروشوں کی طرح
جانانه زنده کردی، آئین سربه داری
شاندار طریقے سے زندہ کردیا آئین سرفروشی کو
رنگین کمان خونت خطی کشیده گلگون
تمہارے خون کی قوس قزح نے ایک سرخ خط کھینچا
از شام تنپرستی تا صبح جاننثاری
خود غرضی کی شام سے جانثاری کی صبح تک
مست می الستی کاین گونه حقپرستی
تم ایسے حق پرست ہو جو مے الست میں مست ہو
ماییم و وهم مستی در غایت خماری
ہم ہیں اور نشے کے اوج تک مستی کا وہم ہے
تاریخ شفاهی :: آخرین روز سال خونین ۱۳۶۰ (oral-history.ir)
صارفین کی تعداد: 38
گذشتہ مطالب
- جہنم کے داروغہ کا تشدد
- (1360)1982کے خونی سال کا آخری دن
- ایران میں سیاسی قیدیوں کی سزائے موت کے حکم پر نجف کے علماء کا رد عمل
- فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات
- تبریز کی فوجی گیریژن پر قبضے کا طریقہ کار
- سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت
- حاجی مصطفی خمینی صاحب کی تجویز
- امام خمینی(ره) کی لائبریری کی غارت گری