ایران میں سیاسی قیدیوں کی سزائے موت کے حکم پر نجف کے علماء کا رد عمل

مترجم: ضمیر علی رضوی

2024-12-29


منصور کے قتل اور کچھ ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد میں عراق چلا گیا۔ عراق پہنچنے کے بعد میں سیدھا کاظمین اور پھر نجف چلا گیا۔ نجف کے ریڈیو پر خبر آئی کہ ایران میں گیارہ افراد کی سزائے موت کا حکم جاری ہوا ہے جن میں عراقی، بخارائی، امانی، نیک نژاد، صفار ہرندی، حبیب اللہ عسگر اولادی اور آیت اللہ انواری صاحب کے نام شامل تھے۔ یہ خبر میرے لیے بہت افسوسناک تھی۔ تہران میں میرے بہترین دوست پھانسی سے بس ایک قدم دور تھے اور عراق میں میرے پاس انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ خبریں بہت تیزی سے ایران سے عراق پہنچ رہی تھیں اور ہمیں کچھ کرنا تھا۔ اب صبر و تحمل کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ایسے مشکل دنوں میں میرے ذہن میں صرف ایک ہی بات آئی کہ علماء سے مدد طلب کروں۔ مجھے لگا کہ شاید وہ اطلاعیہ جاری کر کے یا کوئی اور اقدام کر کے میرے دوستوں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں۔

نجف میں رہنے کے لیے میں نے آیت اللہ خوئی کا گھر چنا تھا۔ میں نے ان گیارہ افراد کی سزائے موت کے حکم کی خبر، آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی کو دی۔ وہ بہت پریشان ہوئے۔ اسی وقت منصور کے بعد ہویدا وزیر اعظم بن چکا تھا۔ خوئی صاحب نے اسے ایک اعتراضی ٹیلی گرام(تار) بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ٹیلی گرام میں اس معاملے کی طرف اشارہ تھا کہ اس قسم کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے اور ایک اسلامی ملک میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور ان مشہور اور مؤمن افراد کو رہا کیا جائے۔ انہوں نے ٹیلی گرام کا متن مجھے دے دیا تاکہ میں تہران بھیج دوں۔ ٹیلی گرام کا دفتر نجف کے بازار میں تھا۔ میں وہاں گیا اور خوئی صاحب کا پیغام بھیج دیا۔ نجف میں ان سے بار بار ملاقاتوں نے ان کی میرے لیے مزید محبت کا زمینہ فراہم کر دیا تھا۔ البتہ میری ان کے بیٹے جمال خوئی سے بھی جان پہچان تھی لیکن وہ انقلابی نہیں تھے۔ اسی لیے میں ہمیشہ سیدھا خوئی صاحب رابطے میں رہتا تھا۔ اگر کبھی مجھے آیت اللہ خوئی تک کوئی بات پہنچانی ہوتی تھی تو میں الگ سے ان کے پاس چلا جاتا تھا۔ آیت اللہ خوئی کو مجھ سے بہت لگاؤ ہوگیا تھا اور وہ مجھ پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے اعتراضی ٹیلی گرام(تار) کا متن، تہران بھیجنے کے لیے مجھے دیا۔

نجف میں ہاشمی صاحب سے بھی میری جان پہچان ہوئی جو میرا ساتھ دیتے تھے۔ وہ حاجی احمد قدیریان کے بہنوئی تھے جو سیاسی جدوجہد کرنے والے اور سیاسی سرگرمیاں انجام دیتے تھے اور کچھ عرصے پہلے ہی دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ میں نے خوئی صاحب کے ٹیلی گرام پر اکتفا نہیں کیا۔ میں نے ہاشمی صاحب کے ساتھ آیت اللہ سید محسن حکیم سے ملاقات کے لیے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ بھی ایک اعتراضی ٹیلی گرام تہران بھیجیں۔ سید حکیم کو میں نے نزدیک سے نہیں دیکھا تھا، لیکن میں نے ان کے داماد سید ابراہیم طباطبائی کو 15 خرداد(5 جون) کے واقعے کے دوران دیکھا تھا اور میری ان سے جان پہچان تھی۔ سید ابراہیم صاحب کے ذریعے ہم نے آیت اللہ حکیم سے ملاقات کی۔ سید ابراہیم صاحب جب تہران آتے تھے تو ہمارے گھر آتے تھے اور ہمارے مہمان ہوتے تھے۔ اسی لیے، ہمارا ان سے ایک گہرا رشتہ تھا۔ سید ابراہیم صاحب نے آیت اللہ حکیم کو بتایا کہ ہماری بہت گہری دوستی ہے۔ سید حکیم نے ہمیں ملاقات کے اجازت دے دی۔ جب ہم سید حکیم سے ملنے گئے تو ان کے ساتھ ایک اور مولانا صاحب موجود تھے جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ سید ابراہیم صاحب نے میرا خاندانی نام سید حکیم صاحب کو بتایا۔ ان مولانا صاحب نے جب میرا خاندانی نام سنا تو سید حکیم سے کہا کہ ان کا تعلق استاد المجتہدین، مرحوم میر سید حسن مدرس کے گھرانے سے ہے۔ سید حکیم کو جب پتہ چلا تو انہوں نے ہمیں بہت عزت دی۔ میں نے انہیں قیدیوں، ان کی شخصیت، ان کے اعتقادات اور تہران کے سزائے موت کے حکم کے بارے میں بتایا۔ میں نے سید حکیم صاحب کو بتایا کہ جن افراد کی پھانسی کا حکم جاری ہوا ہے وہ بہت فعال، مؤمن اور متدین ہیں۔ انواری صاحب بھی سزائے موت کا حکم پانے والے افراد میں شامل تھے جنہیں اتفاق سے سید حکیم جانتے تھے۔ جب سید حکیم نے ان کا نام سنا تو انہیں بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے کہا کچھ کرنا ہوگا۔ طے پایا کہ اگلے دن وہ کوئی اقدام کریں گے اور ہم شیخ محمد رشتی نامی شخص جو ان کا خادم تھا اس کے ذریعے معاملے کی خبر لیتے رہیں۔ یہ شیخ محمد رشتی بہت تند مزاج تھا اور مسلسل ہمیں ٹالنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر سید حکیم صاحب کوئی خط لکھیں اور حکومت ایران  کوئی توجہ نہ کرے تو ان کی شخصیت اور اسلام کو نقصان پہنچے گا! اس طرح کے رویے کی وجہ سے ہم سید حکیم صاحب سے مایوس ہوگئے۔

ہم دوبارہ خوئی صاحب کے پاس واپس آئے اور غصے اور پریشانی سے کہا کہ ٹیلی گرام کو روک دیا گیا ہے اور سید حکیم صاحب نے دستخط نہیں کیے۔ خوئی صاحب نے کہا آپ فکرمند نہ ہوں۔ سید محسن صاحب خود ایک باخبر اور متدین انسان ہیں۔ آپ اتنا غصہ نہ کریں۔ ضرور ان کی کوئی مجبوری ہوگی جو وہ اس ٹیلی گرام پر دستخط نہیں کر رہے۔ آپ دوبارہ ان سے رجوع کریں۔ ہم دوبارہ سید حکیم صاحب کے پاس گئے اور ہم نے کہا جتنا جلدی ہوسکے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ آخرکار انہوں نے بھی آیت اللہ میرزا احمد آشتیانی کو ایک سخت ٹیلی گرام بھیجا اور انہیں خبردار کیا کہ ایران کے حکام کو ہمسایہ ممالک کے حکام کے انجام سے عبرت لینی چاہیے۔ یہ بات اس جانب اشارہ تھا کہ انہی دنوں ملک فیصل اور شاہ عراق کو قتل کردیا گیا تھا۔ دوسری جانب اردن میں لڑائیاں ہورہی تھیں جنہوں نے اردن کے بادشاہ، ملک حسین کو بہت پریشان اور فکرمند کر رکھا تھا( محمد رضا شاہ پہلوی کے شاہ اردن سے بہت اچھے تعلقات تھے اور اس نے کئی مرتبہ اردن اور امریکہ کے درمیان ثالثی کی تھی)، البتہ ترکی کے حالات بھی اچھے نہیں تھے لیکن اردن شدید بحران کی لپیٹ میں تھا۔ سید حکیم صاحب نے اپنے ٹیلی گرام میں ملک فیصل کے انجام کا بھی ذکر کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے آیت اللہ آشتیانی کو پیغام میں لکھا کہ آپ جس طرح کا اقدام بھی کرسکتے ہیں کیجیے تاکہ حجت الاسلام انواری سمیت ان لوگوں کو بچایا اور آزاد کروایا جاسکے۔

اس طرح کے مشورے اور دباؤ بہت مؤثر تھے۔ حکومت، مولویوں اور عوامی رائے کے دباؤ میں آگئی۔ آخرکار عدالت نے فیصلے پر نظر ثانی کی اور صرف چار لوگوں کی ہی سزائے موت کا فیصلہ سنایا جنہیں فیصلے کے کچھ دن بعد ہی پھانسی دے دی گئی تاکہ انہیں مزید موقع نہ ملے۔ باقی افراد کو بھی یا عمر قید کی سزا سنائی گئی یا انواری صاحب اور عسگر اولادی صاحب کی طرح کچھ مراحل طے کرنے کے بعد پندرہ سال قید کی سزا ملی۔

 

 

 

منبع: پنجره‌ای به گذشته: خاطرات علاءالدین میرمحمد صادقی، تدوین بهراد مهرجو، متین غفاریان، تهران، کارآفرین، 1391(2012)، ص 106 - 109.



 
صارفین کی تعداد: 43


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

 (1360)1982کے خونی سال کا آخری دن

فہیمہ کے خطوط: آٹھواں خط
کچھ لمحوں کے لیے میں بے حد خوش ہو گیا کیونکہ اچانک میری آنکھیں ہمارے عزیز، حسین قدوسی کے دیدار سے ٹھنڈی ہوگئیں! تم نہیں جانتیں کہ مجھے کتنی خوشی ہوئی
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔