نوحہ خوانی کی آڑ میں اہلکاروں کو چکمہ
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-11-20
سن 1974 میں ابھی "مجاہدین آرگنائزیشن" کے اندرونی واقعات کھل کر سامنے نہیں آئے تھے، یونیورسٹی کے مذہبی طلباء کا جوش اور سرگرمیاں دوسروں سے زیادہ ہوتی تھیں خاص طور پر محرم میں. بہر حال، ہم نے سن 1974 کے عاشورا کے دن اور رات کو بھی اپنے پروگرامز کو جاری رکھا. مساجد اور امام بارگاہوں کے اندر اطلاعیے ڈالنے سے لے کر ماتمی دستوں کے ساتھ احتجاجی مظاہروں تک. عام طور پر ہم جلیلی مسجد، امیر المؤمنینی مسجد، جاوید مسجد، قبا مسجد اور ہر اس جگہ جاتے تھے کہ جسے ساواک نے ابھی تک بند نہیں کیا تھا. ایک خاص وقت ہم بلڈنگ کی بجلی بند کردیتے تھے یا مرثیہ خوانی یا خاموشی کا انتظار کرتے رہتے تھے اور پھر اس وقت جوتوں یا بنیانوں میں رکھ کر لائے ہوئے اطلاعیوں کو تقسیم کیا جاتا تھا. اس سال کے عاشورا، ہم نے علی رضا ہنربخش، علیرضا امامی اور جواد صدیق کے ساتھ، سیروس روڈ سے شاہ مسجد کے بیچ یونیورسٹی کے طلباء کا، حکومت کے خلاف نعروں کے ساتھ ایک احتجاجی مظاہرہ کیا. گارڈ(گارد جاویدان-پہلوی) نے پوری طاقت سے حملہ کیا اور ہماری آنکھوں کے سامنے جواد صدیق(سائنس کے طالب علم) پر تشدد کرکے اسے گرفتار کرلیا. میں خود بھی اس دن ایک گارڈی کے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا. ایک طرف سے گارڈی اور دوسری طرف سے ساواکی سینی زنی اور زنجیر زنی کے دستوں کے بیچ ہمارا تعاقب کر رہے تھے. ہمارے پاس انجمن کی صفوں میں گھسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا. اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا. میں نے خود کو ایک جوان نوحہ خواں کے پاس پایا جو زنجیر زنی کرنے والوں کے لیے تھکی ہوئی آواز میں نوحہ پڑھ رہا تھا. میں نے جلدی سے کہا: مولا حسین ع تمہیں اس کی جزا دیں، تم بہت تھک گئے ہو، لاؤ میں تمہاری مدد کروں اور میں نے مائیک میں پڑھنا شروع کردیا: " زینب مضطرم الوداع الوداع، مهربان خواهرم الوداع الوداع!" البتہ مجھے پہلے سے ہی اس کام کا تجربہ تھا. یوں حملہ آور یا مجھے ڈھونڈ نہیں پائے یا انہیں پتہ نہیں چلا کہ نوحہ خواں، میں ہوں!
منبع: از دانشگاه تهران تا شکنجه گاه ساواک: روایت مبارزات دانشجویی و حکایت کمیته مشترک ضد خرابکاری، گفت و گو با جلال رفیع، تهران، موزه عبرت ایران، 1384(2005)، ص 52-53.
صارفین کی تعداد: 28