قید میں عزاداری
راوی: سید احمد رسولی
انتخاب: فریبا الماسی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-10-30
عراق کی بعث پارٹی کے قوانین کے مطابق قید میں عزاداری کرنا منع تھا. ہر سال محرم اور صفر کے دنوں میں خاص طور پر تاسوعا، عاشورا اور اٹھائیس صفر کو قیدی، خفیہ طور پر عزاداری اور سینہ زنی کرتے تھے.
کبھی کبھار دیکھنے میں آتا تھا کہ عراقی فوجیوں کو بھی اس بات کی خبر ہو جاتی تھی لیکن وہ اس کے لیے زیادہ اہمیت اور حساسیت کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے اور کبھی یہ بھی دیکھا جاتا تھا کہ شیعہ عراقی فوجی، کیمپ کے کسی کونے میں بیٹھے ہوتے تھے اور گریا کر رہے ہوتے تھے یہاں تک کہ پتہ چل رہا ہوتا تھا کہ باقی فوجی بھی افسردہ ہیں.
سن 1984 کے بعد سے ہر سال عاشور کی صبح پرسوز آواز رکھنے والے، عراق کے ایک شیعہ ذاکرعبد الزہرا کی مقتل کی کیسٹ نشر کی جاتی تھی. انہیں بعد میں بعث حکومت نے پھانسی دے دی تھی. جب وہ کیسٹ ہیڈ کوارٹر سے نشر کی جاتی تھی تو پورے کیمپ میں خاموشی چھا جاتی تھی اور ہر کوئی کسی نہ کسی کونے میں بیرک میں، باغیچے میں، کمبل کے نیچے، ہسپتال میں اور باورچی خانے وغیرہ میں شدید غم اور سوگ کی حالت میں گریہ کر رہا ہوتا تھا.
سن 1987 کی شب عاشور ہمارے ساتھیوں نے اکیلے اکیلے یا چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں نظروں میں آئے بغیر امام حسین(ع) کی زیارت عاشورا پڑھی. صبح عاشور نماز کے بعد ہمارے کچھ دوسرے ساتھیوں نے زیارت عاشورا پڑھی اور کوئی سویا نہیں تھا. پوری بیرک پر خاموشی طاری تھی.
ہمارے ساتھی گزشتہ سالوں کی طرح تیاری کر رہے تھے تاکہ بیرک میں چھوٹنے کے بعد وہ امام حسین(ع) کی عزاداری، ان کے لیے سینہ زنی اور ان کے اہل بیت پر گریہ کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکیں اور کربلا کے اسیروں کو یاد کر کے اپنی قید کے دکھ کو کم کر سکیں؛ پیغمبر اکرم(ص) کے گھرانے پر آنسو بہا کر اپنی روح کو دوبارہ زندہ کر سکیں اور ان سے تجدید عہد کر سکیں کہ قید میں اور آخری سانس تک ان کا راستہ، حسینی راستہ ہے اور ان کے رہبر امام خمینی ہیں اور وہ اسیران کربلا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کبھی بھی دشمن کے سامنے نہیں جھکیں گے اور ذلت کو قبول نہیں کریں گے.
کیمپ کے کلچرل ڈیپارٹمنٹ کے انچارج نے پہلے سے ہی ضروری ہم آہنگی کر کے یہ معین کر دیا تھا کہ سینہ زنی کن بیرکس میں ہوگی، تقریر کس کے ذمہ ہوگی اور رسومات کس طریقے اور ترتیب سے منعقد ہوں گی. صبح ساڑھے سات بجے کا وقت تھا. ہمارے ساتھی اسی جوش ولولے کے ساتھ تیاری کر رہے تھے اس دوران رسمی نامی فوجی کھڑکی پر آیا اور اس نے آواز دی: "نمبردار ادھر آؤ!"
بیرک کا نمبردار کھڑکی پر گیا. رسمی نے کہا: "سینہ زنی اور گریہ بالکل منع ہے. جو کوئی بھی یا جو بیرک بھی سینہ زنی کرے گی ہم ان کی زندگی جہنم بنا دیں گے."
یہ کہہ کر وہ چلا گیا؛ کھڑکی سے لوٹ کر نمبردار کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن وہ گلو گرفتہ ہو گیا اور اس میں بات کرنے کی سکت نہ تھی؛ بس اس نے اتنا کہا: "رسمی نے کہا ہے کہ سینہ زنی اور اجتماعات منع ہیں."
اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے وہ بیرک کے ستون کے پیچھے چلا گیا اور گھٹنوں میں سر ڈال کر غم میں ڈوب گیا اور گریہ کرنے لگا. پھر بیرک میں کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی سوائے قیدیوں کے بے آواز رونے اور ان کے یا حسین کے ذکر کے.
خیمہ غم جو مظلومیت اور عشق کی حکایت کر رہا تھا وہ سب کو اپنے آپ میں پناہ دے رہا تھا اور عشق کے آنسوں کا طوفان سب کو خود میں ڈبا رہا تھا. کچھ لمحوں تک سب کچھ اسی طرح سے چلتا رہا. رسمی واپس آیا اور کھڑکی سے گزرتے ہوئے دوبارہ کہنے لگا سینہ زنی منع ہے اور چلا گیا. ہمارے ساتھی بتدریج چلنے لگے اور وہ کہہ رہے تھے: "خدا کی قسم ہمارے پاس ایک ہی جان تھی جسے ہم محاذ پر امام حسین(ع) کے لیے دینا چاہتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا، ہم یہاں جان دیں گے."
میں نے نمبردار سے کہا کہ وہ گنتی اور بیرک کا دروازہ کھلنے سے پہلے یہ اعلان کر دے کہ کوئی بھی رد عمل ظاہر نہ کرے خود امام حسین(ع) سب ٹھیک کردیں گے.
نمبردار نے اس پیغام کا اعلان کر دیا. ایسا لگ رہا تھا جیسے دوسری بیرکس میں بھی یہی کہا گیا ہو.
گنتی سے پہلے ہر بیرک کے سامنے دو فوجی کھڑے تھے اور آخر کار گنتی کی سیٹی بجی اور گنتی ختم ہو گئی. ہمارے ساتھیوں میں سے کم لوگ ہی ناشتے کے لیے گئے. ماتم کے آنسوؤں نے ہر چیز کی جگہ لے لی تھی. وقت جیسے تھم سا گیا تھا. صبح قریب نو بجے کا وقت تھا. سب لوگ نتیجے کے انتظار میں تھے لیکن کچھ نہیں ہوا. ایسا لگ رہا تھا جیسے عراقیوں کی جانب سے عزاداری کے لیے کوئی پروگرام منعقد ہی نہیں ہونا حتی مصائب کی ایک کیسٹ کی نشر ہی. فوجی اسی طرح سے بیرک کے آگے کھڑے تھے تاکہ بیرک کے اندر کوئی سینہ زنی نہ کرے. ہمارے ساتھی بیرک کے کونے کونے میں، باغیچوں میں، سیڑھیوں کی دیوار کے ساتھ، کیمپ کی راہداریوں میں اور کیمپ میں جہاں کہیں بھی نظر جاتی اکیلے اکیلے کھڑے تھے، بیٹھے تھے یا ٹہل رہے تھے اور زار و قطار رو رہے تھے. کاش آپ ہوتے تو دیکھتے کہ امام حسین(ع) کا عشق کیا معرکہ انجام در رہا تھا. ہمارے ساتھیوں نے کیمپ کے نمبردار سے عاجزانہ گزارش کی کہ وہ عراقیوں کے کمانڈر سے کہے کہ اگر سینہ زنی منع ہے تو عبد الزہرا کی وہ کیسٹ ہی دوبارہ نشر کر دے جو گزشتہ سالوں میں نشر کی جاتی تھی. کیمپ کے نمبردار نے عراقیوں سے کہا لیکن وہ نہیں مانے اور اس چیز نے حسین (ع) کے عزاداروں کو پہلے سے زیادہ دکھی کر دیا. آہستہ آہستہ ہمارے ساتھیوں کے کمزور اور پتلے جسموں نے امام حسین(ع) کے عشق کی طاقت کے ساتھ چلنا شروع کر دیا. ہمارے ساتھیوں میں سے ایک بڑی تعداد نے کیمپ کے بیچ کی راہداری میں ٹہلنا شروع کر دیا لیکن کوئی بھی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا. آہستہ آہستہ لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی. ان لوگوں کے سر برہنہ تھے اور قمیض کے گریبان کھلے ہوئے تھے اور اسی طرح سے وہ آہستہ آہستہ ٹہل رہے تھے اور ہمارے ساتھیوں کا اجتماعی طور پر چلنا ایک پرامن احتجاج کی صورت اختیار کر گیا تھا لیکن بغیر اس کے کوئی کسی سے بات کرے.
کیمپ کے آخر میں کچھ گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ تھی جو ہمارے ساتھیوں کی فٹ بال کھیلنے کی جگہ سمجھی جاتی تھی. وہاں پر بھی ساتھیوں نے اسی طرح سے ننگے پیر اور ننگے سر انفرادی لیکن بظاہر اجتماعی پر امن احتجاج شروع کر دیا. وہ آنسو بہا رہے تھے اور یا حسین کہہ رہے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ تو راستے کے آخر میں پلٹتے وقت اپنا سر دیوار پر مار رہے تھے اور زور زور سے گریہ کر رہے تھے. یہ وہ وقت تھا کہ اب عشق حسینی اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا اور قریب تھا کہ آتش فشاں بن کر پھٹ پڑے. شاید یہی وہ موقع تھا جہاں امام حسین(ع) نے اپنے محبوں اور ناصروں کی مدد کی، ان کے یا حسین کا جواب دیا اور خود بگڑی کو بنا دیا. اس منظر، احتجاج اور حالات کو دیکھ کر عراقی فوجیوں کو خطرے کا احساس ہونے لگا. انہوں نے کیمپ کے اندرونی افسران کو خبر کی. وہ آئے اور انہوں نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ بیرکس کے اندر چلے جاؤ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور کوئی بھی یہ باتیں سننے کو تیار نہیں تھا. پھر عراقی افسران واپس لوٹ گئے. ان کے پیچھے پیچھے کیمپ کا نمبردار ہیڈ کوارٹر کی طرف چلا گیا. اس نے اجازت لی اور وہ کیمپ کے کمانڈر کے پاس چلا گیا جس کا کمرہ اوپر والی منزل پر تھا. اس نے اسے ہمارے ساتھیوں کے چلنے اور دکھی ہونے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ گزشتہ سالوں میں بیرکس کے اندر سینہ زنی کی ایک حد تک اجازت تھی اور مقتل عبد الزہرا کی کیسٹ بھی خود کیمپ کی کمانڈ کی طرف سے نشر کی جاتی تھی لیکن اس سال آپ نے اس معمولی سی عزاداری سے بھی منع کر دیا ہے. ہمارے ساتھیوں کی ایک عجیب حالت ہے اور آپ کے فوجیوں نے بھی دیکھا ہے. میں صرف اس لیے آیا ہوں کہ آپ کو بتادوں کہ اگر کوئی حادثہ یا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہوگا اور مجھے اپنے ساتھیوں سے ڈر لگ رہا ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ کوئی بھی خواہش یا تقاضہ بھی قبول نہیں کریں گے. عراقی میجر نے کچھ دیر سوچا اور کہنے لگا : "آپ جائیں میں سب ٹھیک کرتا ہوں." چونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ اگر امام حسین(ع) کا عشق ان کے عاشقوں کے اندر بھڑک اٹھا تو وہ پہلے خود ان کو جلائے گا اور پھر اس کے لیے بھی اس کا برا انجام ہوگا. نمبردار لوٹ آیا. کچھ لمحوں بعد کیمپ کے دو عہدے دار آئے. انہوں نے نمبردار کو بلوایا اور کہنے لگے: "سب لوگ اپنی اپنی بیرکس میں جا کر سینہ زنی کریں لیکن ان کی آواز کھڑکی سے باہر نہیں آنی چاہیے." پھر اس کے بعد مقتل عبد الزہرا کی کیسٹ بھی نشر کر دی گئی. البتہ یہ جو ان کا کہنا تھا کہ تم لوگوں کی آواز کھڑکیوں سے باہر نہیں آنی چاہیے، وہ خود ان کے اپنے سپاہیوں کے ڈر کی وجہ سے تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیعہ فوجی، قیدیوں کے ساتھ مل کر سینہ زنی کرنے لگیں؛ وہ واقعہ جو پہلے بھی کئی مرتبہ پیش آچکا تھا.
نمبردار نے بھی یہ خبر ساتھیوں تک پہنچا دی. اچانک کیمپ کا منظر تبدیل ہو گیا. قیدی اسی طرح سے گریہ کرتے ہوئے، اس حسینی کامیابی کو حاصل کرنے کے بعد گویا لبوں پر مسکراہٹ لیے اور اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے کہ انہیں امام حسین(ع) کی حمایت حاصل ہے، بیرکس کی طرف چل پڑے. عزاداری، سینہ زنی اور تقریر کو شروع کرنے سے قیدیوں کی ساری مرادیں پوری ہو گئیں. یقینا یہ امام حسین(ع) کا لطف تھا جو ان کے عاشقوں کے دل کی آگ کو ان کے دشمنوں کی شکست سے بجھا رہا تھا. مختصر یہ کہ وہ عشق اور خطرے، کشش اور پھٹ پڑنے کا منظر بھی گزر گیا. اس دن بھی حسینی جیت گئے اور یزیدی ہارنے پر مجبور ہو گئے.[1]
صارفین کی تعداد: 15