شہید جہان آرا کی زوجہ کی یادداشت
خرمشہر میں زندگی
انتخاب: فریبا الماسی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-10-23
خرمشہر ملک کا اشیاء کے تبادلے کا ایک مرکز سمجھا جاتا تھا. اسی وجہ سے اس کے بازار میں موجود اشیاء اعلی معیاری بھی ہوتی تھیں اور دوسری جگہوں سے سستی بھی. مجھے یاد ہے کہ خرمشہر میں ملنے والی چیزوں کی قیمت تہران میں ملنی والی چیزوں سے بہت کم ہوتی تھی. خرمشہر کے بازار میں مختلف غیر ملکی برانڈز کی ہر قسم کی چیزیں موجود ہوتی تھیں؛ کھانے پینے سے لے کر برتنوں، گھریلو استعمال اور سجاوٹ کی چیزوں اور دوسری ہر طرح کی چیزوں تک. یہی چیز خرمشہر کی معیشت کو بہتر بناتی تھی؛ اس طرح سے کہ اس شہر کے لوگوں کی معاشی حالت کافی بہتر تھی اور لوگ اچھی زندگی گزارتے تھے. میں خود بھی تین ہزار پانچ سو تومان جو مجھے وزارت تعلیم سے تنخواہ ملتی تھی، گھر کا بہت زیادہ سامان لے پاتی تھی اور ایک بہت اچھی زندگی گزار پاتی تھی؛ دوسرے لوگ بھی اسی طرح سے. اس کے علاوہ خرمشہر کی زراعت بھی بہت اچھی تھی اور اس کی مصنوعات دوسرے شہروں کو برآمد کی جاتی تھیں. خرمشہر کے لوگ خود بھی انہیں استعمال کرتے تھے. دوسرے شہروں کے مقابلے میں خرمشہر کی زرعی مصنوعات میں بھی قیمت کا فرق بہت واضح تھا.
دلچسپ بات یہ ہے کہ انقلاب سے پہلے غیر ملکیوں کی خرمشہر میں آمد و رفت اور ان کی طویل موجودگی کی وجہ سے انگریزی کے بہت سے الفاظ لوگوں کی بول چال اور ثقافت میں راسخ ہو چکے تھے اور وہ بات چیت کے دوران فارسی الفاظ کی جگہ ان کے انگریزی متبادل استعمال کرتے تھے. مثال کے طور پر: فروشگاہ کو "اسٹور"، گوجہ فرنگی کو " ٹوماٹو"، خیابان کو "لائن" کہتے تھے اور دوسرے بہت سے الفاظ. مزدور اور تعلیم یافتہ، گھریلو اور کام کرنے والے مرد و خواتین سبھی اپنی عام بول چال میں ان الفاظ کو استعمال کرتے تھے.
آبادی کے لحاظ سے خرمشہر دو حصوں پر مشتمل تھا: فارس اور عرب؛ فارسوں کی تعداد عربوں سے زیادہ تھی. عربوں کے علاقے معین تھے. اگر میں غلط نہیں ہوں تو زیادہ تر عرب، طالقانی اسٹریٹ میں رہتے تھے. کہیں کہیں فارس اور عرب کے گھر ایک دوسرے کے برابر میں تھے. اس زمانے میں شہر کی کچھ بڑی شاہراہوں کے علاوہ باقی جگہوں پر صفائی ستھرائی کی حالت اچھی نہیں تھی؛ خاص طور پر عرب نشین علاقوں میں. لوگوں کی خرمشہر کی حالت سے توقعات اس سے زیادہ تھیں جو میں دیکھ رہی تھی. لوگوں کا طرز زندگی کسی حد تک میری سمجھ سے باہر تھا اور میں ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتی تھی. مثال کے طور پر شیر برنج(کھیر) اور ایک قسم کی آش(دلیہ) خرمشہر کے لوگوں کا عام ناشتہ ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ اپنا کھانا خود تیار کریں وہ لوگ صبح اٹھ کر باہر جاتے تھے اور یہ چیزیں باہر سے لے کر آتے تھے. یہ چیز میرے لیے غیر معمولی تھی کہ بھلا شیر برنج(کھیر) بھی باہر سے خریدی جاتی ہے؟ شیر برنج(کھیر) وہ غذا ہے جسے گھر میں ہی پکنا چاہیے اور اسی طرح سے دوسری چیزیں. خرمشہر میں ٹھہرنے کے بعد میرا پہلا کام اپنی سروس کی جگہ کا تعین تھا. بہت جلد ہی میں فردوسی روڈ پر واقع ایراندخت گرلز سیکنڈری اسکول میں تدریس کرنے لگی؛ لیکن میری تدریس تین مہینے سے زیادہ نہ چل سکی، کیونکہ خرمشہر کی وزارت تعلیم کی طرف سے مجھے شہر کے قومی کتب خانے کا انچارج بنا دیا گیا.
محمد کا کام بہت سخت تھا اور وہ زیادہ تر گھر میں نہیں ہوتے تھے. مجھے یاد ہے ان دنوں وہ لوگ خرمشہر میں عراق کے سفارت خانے کو حاصل کرنے میں لگے ہوئے تھے. اس کے علاوہ سرحد پر عراقیوں کی نقل و حرکت بھی شروع ہو چکی تھی. محمد بتا رہے تھے کہ عراقی، حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں. شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی وہ کویت چلے گئے تھے. اس وقت حکومت مختلف گروہوں کو اسلامی انقلاب کی تبلیغ کے لیے مختلف ممالک میں بھیجتی تھی. محمد، آیت اللہ محمد یزدی اور ایک اور شخص (کہ جن کا نام مجھے یاد نہیں ہے) ایک کمیٹی کے ساتھ تبلیغ کے لیے کویت گئے تھے اور وہ لوگ چار پانچ دن تک وہاں رہے تھے. خرمشہر آنے کے دو مہینے بعد اپنی زندگی کو منظم کرنے کے لیے میں نے محمد سے وعدہ لیا کہ وہ ایک دن چھوڑ کر ایک دن، رات دس بجے سے صبح سات بجے تک گھر میں رہیں گے. اس وعدے کے باوجود کام کی زیادتی کے سبب کبھی کبھار وہ وقت پر گھر نہیں آپاتے تھے اور جب آتے بھی تھے تو وہ اتنے تھکے ہوئے ہوتے تھے کہ انہیں جلدی نیند آجاتی تھی اور وہ بالکل بے ہوش ہو جاتے تھے. سپاہ کے لوگ واکی ٹاکی پر جتنا بھی رابطہ کرتے رہتے تھے اور انہیں بلاتے رہتے تھے، وہ ہوش میں نہیں آتے تھے. کبھی کبھار جب میں دیکھتی تھی کہ سامنے والا بہت غصے میں ہے اور لگ رہا ہے کہ اسے کوئی ضروری کام ہے تو میں جواب دینے کے لیے انہیں جگا دیتی تھی. دن بھر میں اگر کوئی کام پڑتا تھا تو میں سپاہ کے دفتر چلی جاتی تھی؛ محمد سے ملتی تھی دس منٹ آدھا گھنٹہ ان سے اپنی بات کرتی تھی اور واپس آجاتی تھی.
اس دوران ہم دونوں کا ایک گہرا جذباتی تعلق ہونے کے باوجود میں نے ان حالات کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا تھا اور میں محمد سے تھوڑا سا گلا بھی نہیں کرتی تھی. خرمشہر کی سپاہ تازہ تشکیل پائی تھی. خرمشہر کے کچھ مخلص لوگ جمع ہوئے تھے اور کام کرنا چاہتے تھے. وہ لوگ کم تجربے کار تھے اور ان لوگوں کو سنبھالنا بہت زیادہ وقت طلب تھا، اسی لیے میں محمد کو بالکل پریشان نہیں کرتی تھی. مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ محمد نے مجھ سے کہا: "جب سے میں نے شادی کی ہے تو سپاہ کے کافی لڑکے شادی کی فکر میں لگ گئے ہیں." میں نے پوچھا: "کیوں؟ کیسے؟" انہوں نے کہا: "وہ دیکھتے ہیں کہ تم میرے کاموں اور سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتیں، وہ لوگ خیالی پلاؤ پکانے لگے ہیں! میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی جاؤ تھوڑا اور سوچ بچار کرو! یہ مت سمجھنا کہ ساری خواتین اور سب کی زندگی ایک جیسی ہوتی ہے!"
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ محمد گھر کی تلاش میں لگ گئے. محمد کے گھر والے خاص طور پر ان کی بہنیں میرے ساتھ بہت اچھے سے رہتے تھے لیکن کچھ رہن سہن کے سلیقوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے میں نے ان سے چاہا کہ ہماری زندگی الگ ہونی چاہیے. جو کھانے وہ زیادہ تر بناتے تھے مرچوں والے ہوتے تھے جو میرے مزاج کے مطابق نہیں ہوتے تھے. ان میں سے بہت سے کھانے میں نہیں کھا پاتی تھی اور میں دسترخوان پر کھانے کا دکھاوا کرتی تھی.
انہی دنوں ایک دن محمد گھر آئے اور کہنے لگے: "آج میں نے ایک کام کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم بھی اس سے راضی ہوگی!" میں نے کہا: "آپ نے کیا کیا؟" انہوں نے کہا: "خرمشہر کے حاکم شرع، اکبری صاحب نے پیغام بھیجا تھا کہ میں ان کے پاس جاؤں. میں گیا. انہوں نے کہا: " ہم نے سنا ہے کہ تم ایک گھر کی تلاش میں ہو؟ میں نے کہا: جی آپ کو کیسے پتہ؟ انہوں نے کہا: "ہم نے تمہارے لیے پانچ سو میٹر زمین کا انتظام کیا ہے، تم اس زمین کو لے لو، ہم خود تمہارے لیے قرض کا انتظام کریں گے. جلدی سے اس کی تعمیر شروع کر دو اور وہاں جا کر رہنے لگو. میں نے قبول کر لیا اور اس کی الاٹمنٹ لے لی اور باہر آگیا. میری ملاقات کچھ عربوں سے ہوئی جو گھر اور زمین کی تلاش میں تھے. میں نے دیکھا کہ وہ لوگ مجھ سے زیادہ مستحق ہیں. وہ زمین جو اکبری نے مجھے دی تھی میں نے انہیں دے دی تاکہ وہ آپس میں بانٹ لیں اور گھر بنا لیں. اب تم راضی ہو یا نہیں؟" میں نے کہا: "جی ہاں کیوں نہیں!" کچھ عرصے بعد مجھے پتہ چلا کہ میری کتب خانے کی ایک ساتھی کے رشتہ دار اپنے گھر کی زیر زمین میں ایک بڑا کمرہ کرائے پر دے رہے ہیں. میں نے اس سے کہا کہ وہ اس کمرے کو ہمارے لیے روک لے اور کسی سے اس کا وعدہ نہ کرے. محمد کو ساری بات بتانے اور ان کی رضامندی کے بعد ہم محمد کے والد کے گھر سے اس کمرے میں منتقل ہو گئے. یہ کمرہ ہمارے پچھلے کمرے سے تھوڑا بڑا تھا. زیر زمین میں ہمارے کمرے کے پاس ایک کمرہ اور اوپر والی منزل مالک مکان کے استعمال میں تھی. دونوں کا حمام اور باورچی خانہ ایک ہی تھا. واش روم بھی گھر کے صحن میں تھا. جب ہم نئے گھر میں آئے تو میں چار مہینے کی حاملہ تھی اور ہر طرح سے گھر کی پوری ذمہ داری میرے کاندھوں پر تھی. سپاہ کی تشکیل کے بعد چند ماہ تک محمد کو تنخواہ نہیں ملی اور ہمارا گذر بسر میری وزارت تعلیم کی تنخواہ سے ہوتا تھا. میں نے پہلی تنخواہ ملتے ہی گھر کا کچھ سامان خرید لیا جیسے کچھ پتیلیاں، پلیٹیں، سینیاں، گیس لائٹ، پانی کا کولر، ایک بارہ میٹر کا کارپٹ جسے میں نے کمرے کے ایک کنارے پر ڈال دیا تھا. میں نے محمد کے ایک بڑھئی دوست کو ایک تین دروازے والی الماری اور ایک تخت کا آرڈر بھی دے دیا تھا، لیکن یہ وہ تخت نہیں تھا جس پر سویا جا سکے بلکہ میں اس کے نیچے سامان رکھتی تھی اور اس کے اوپر بستر وغیرہ رکھتی تھی. محمد کو اس سب خریداری سے کوئی سروکار نہیں تھا اور انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں تھا. صرف ایک مرتبہ جب میں نے چھ لوگوں کا چینی کی پلیٹوں کا ایک سیٹ خریدا تو انہیں بہت برا لگا اور وہ کہنے لگے: "تم نے چینی کا سیٹ کیوں لیا؟ کیا ہم نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ ہم اپنی زندگی کو پر تعیش نہیں بنائیں گے؟" اگلے دن میں چینی کا سیٹ لے گئی اور اسے واپس کروا کر اس کی جگہ ایک میلامائن کا سیٹ لے آئی. جب ہم محمد کے والد کے گھر میں تھے تو کپڑے واشنگ مشین سے دھلتے تھے لیکن نئے گھر میں، میں ہاتھ سے کپڑے دھوتی تھی. ہمارے گھر میں ٹی وی بھی نہیں تھا.
نئے گھر میں ہمیں خود مختاری کا اچھا احساس ہوتا تھا اور یہ چیز ہمیں پرسکون رہنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتی تھی. مشکلات کے باوجود میں نے اپنی تنہائی کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا اور میں محمد کو بالکل بھی پریشان نہیں کرتی تھی. اس وقت مجھے بہت برا مائیگرین رہتا تھا. مجھے یاد ہے کہ ایک رات دس گیارہ بجے مجھے بہت شدید سر درد ہونے لگا. میری حالت اتنی خراب تھی کہ چلنے کے لیے مجھے دیوار کا سہارا لینا پڑ رہا تھا. میں نے محمد کو فون نہیں کیا میں نے کہا کہ مجھے اپنے سر درد کی وجہ سے کلینک لے جانے کے لیے انہیں ان کے کام کی جگہ سے باہر نہیں بلانا چاہیے؛ اور اگر میں نے ایسا کیا تو کل مجھے خدا کو جواب دینا ہوگا. میں اتنی رات کو اکیلی اس برے حال میں کلینک گئی. ڈاکٹر ہندوستانی تھا. اس نے میرا معائنہ کرنے کے بعد پوچھا: "آپ کس کے ساتھ آئی ہیں؟" جب میں نے بتایا کہ میں اکیلی آئی ہوں تو وہ بہت پریشان ہوا اور کہنے لگا: "آپ اس وقت اس حال میں اتنے درد کے ساتھ گھر واپس کیسے جائیں گی؟"
اپنے خرمشہر میں قیام کے دوران کبھی کبھار میں چھٹی کے دنوں میں اکیلی تہران آتی تھی اور محمد اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہیں آپاتے تھے. صرف ایک مرتبہ میرے تہران جانے کے بعد وہ بھی آگئے اور ہم وہیں تہران سے گاڑی میں بیٹھ کر امام رضا (ع) کی زیارت کے لیے مشہد چلے گئے اور کچھ دن ہم وہاں رہے. یہ محمد کے ساتھ میری مشترکہ زندگی کے دوران ایک ہی سفر تھا.[1]
[1] اکبر مزدآبادی، علی، جہان آرا: جستارھایی از زندگی و خاطرات شہید سید محمد علی جہان آرا، تہران، یا زہرا(س) پبلیکیشنز، 1398(2019)، ص184.
صارفین کی تعداد: 162