مریم بہروزی کی یادوں کا ٹکڑا

جنوب سے آئے ہوئے بھائیوں کی جانب سے جواہرات کا ہدیہ

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2024-10-15


اوائل انقلاب کے ایام تھے، میں مسجد قبا میں اسلامی حکومت کے موضوع پر لیکچر دے رہی تھا، اور لوگوں کی کثیر تعداد ان لیکچرز میں شریک ہوتی تھی۔ ایک دن، خواتین کا ایک گروپ نازی آباد، تہران سے لیکچر میں شرکت کرنے کے لیے مسجد قبا آیا، جن میں شہداء کے اہل خانہ بھی شامل تھے۔ وہ خواتین کہنے لگیں: "ہم اس بات پر افسردہ ہیں کہ ہم شہید نہیں ہو سکے، لیکن ہم نے اپنے سونے چاندی کے زیورات اوردیگر زینتی سامان امام خمینی رح کی خدمت میں ہدیہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ انقلاب کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہو۔ وہ خواتین جن کا تعلق شہداء کے خاندان سے تھا کہنے لگیں: "ہم نے اپنے بچے دیئے ہیں، اور اب ہم اپنے جواہرات بھی دینا چاہتے ہیں۔"وہ خواتین جن کا تعلق شہداء کے خاندان سے نہیں تھا، ان کا یہ ماننا تھا کہ ہم بھی انقلاب میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگر قبول کر لیا جائے تو ہم اپنے جواہرات  اور زیورات پیش کریں گے۔" میں نے اس تجویز کو آیت اللہ مفتح کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں آیت اللہ مطہری سے بات کروں گا تاکہ اس تجویز کو امام تک پہنچا سکوں۔ دو یا تین دن بعد، اطلاع دی گئی کہ امام نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ کو اطلاع دیں کہ وہ اپنے سونےچاندی کے  زیورات  اور جواہرات لے آئیں۔ ہم نے مسجد قبا میں اس بات کا اعلان کیا۔ پہلی بار، نازی آباد سے بارہ بسیں قم گئیں اور تمام سونے چاندی اور دیگر  زیورات ہدیہ کئے۔ دوسری بار، حسینیہ ارشاد سے اٹھارہ بسیں روانہ ہوئیں اور تمام خواتین اپنے زیورات لے کر آئیں۔ قم پہنچنے کے بعد، ہم فیضیہ مدرسہ گئے تاکہ امام(رح) سے ملاقات کر سکیں۔ بہت سے خواتین و حضرات امام سے ملنے آئے تھے۔ ہمیں ایک مختصرگفتگو کا موقع ملا،میں نے اچانک خود کو امام کے سامنے موجود پایا۔ اس دن تک، میں نے مردوں کے سامنے گفتگو نہیں کی تھی۔ اس لیے میں حیران ہو کر امام کی طرف دیکھنے لگا۔ امام نے فرمایا: "شروع کریں، بسم اللہ کریں۔" امام کے حکم سے، میں نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا اورمیں یہ  کہہ سکتی ہوں کہ میں نے اس دن کی طرحاس سے پہلے کبھی گفتگو نہیں کی تھی۔ میں نے 45 منٹ تک مقام ولایت اور اسلامی حکومت کے بارے میں گفتگو کی۔ اس کے بعد امام نے فرمایا: "کامیاب رہیں۔ انشاء اللہ خدا آپ کی مدد کرے۔" امام نے تعریف کی اور ان کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں تھے۔ میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ واقعہ، میری زندگی اورتمام تر گفتگو میں سے ایک خوبصورت ترین  واقعہ اور گفتگو تھی۔ گفتگو کے بعد، خواتین کے سونےچاندی کے زیورات جمع کرنے کی باری آئی۔ بڑی پلاسٹک کی تھیلیوں میں یہ زیورات بھرے گئے، ان کو بند  کر کے مرحوم آیت اللہ اشراقی کے پاس جمع کروا دیا گیا جو اس وقت امام کے دفتر کے سربراہ تھے۔ اس دن،  فضائیہ کے عملہکی ایک بڑی تعداد بھی امام سے ملاقات کے لئے وہاں موجود تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ خواتین اپنے زیورات ہدیہ کر رہی ہیں، تو انہوں نے اپنی جیبوں سے نوٹون کی گڈیاں نکالیں جو شاید ان کی ماہانہ تنخواہ تھی،اور اسے ہدیہ کرنے کے لیے اصرار کرنے لگے۔ انہیں بتایا  بھی گیا کہ ہم رقم نہیں لیں گے، لیکن انہوں نے اصرار کیا: "خدا کے لیے، یہ زیورات کی جگہ پر لے لیں اور خواتین کے زیورات کے ساتھانہیں بھی  جمع کرلیں۔" اس دن کافی نقد بھی  رقم جمع ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو خواتین قم اور دیگر شہروں سے امام کے ملاقات میں موجود تھیں، وہ جو زیورات پہنے ہوئی تھیں،انہوں نے وہ بھی اپنے اتار کر جمع کروادیئے۔ کام ختم ہونے کے بعد، آیت اللہ مطہری نے مجھے فون کیا اور کہا: "یہ ایک بہت اچھی تجویز تھی۔ یہ ایک انقلابی عمل  اورجناب  خدیجہ جیسا کام کیا گیا ہے۔" اس کام کے بعد کئی مہینوں تک، ایران کےمختلف علاقوں سے خواتین حضرت امام (رح) کے دفتر میں پہنچ کر اپنے زیورات ہدیہ کر کے انقلاب کی مدد میں حصہ ڈالتی رہیں۔

 

 



 
صارفین کی تعداد: 217


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

نوحہ خوانی کی آڑ میں اہلکاروں کو چکمہ

اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا. میں نے خود کو ایک جوان نوحہ خواں کے پاس پایا جو زنجیر زنی کرنے والوں کے لیے تھکی ہوئی آواز میں نوحہ پڑھ رہا تھا. میں نے جلدی سے کہا: مولا حسین ع تمہیں اس کی جزا دیں، تم بہت تھک گئے ہو، لاؤ میں تمہاری مدد کروں اور میں نے مائیک میں پڑھنا شروع کردیا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔