ایک زرتشتی شہید کا واقعہ

انتخاب: حمزہ خلیلی واوسری

ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2024-7-31


اسکے نماز نہ پڑھنے وہ بھی باجماعت اور ایسے عالم میں جب بٹالین کے دیگر جوان کمپنی کے عالم دین کے پیچھے اول وقت نماز پڑھنے میں مشغول تھے میں یہ گمان کرسکتا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن کبھی بھی میری ذہن اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکا۔ خاص طور پر تین دن پہلے جب میں نے اسے دیکھا کہ وہ زیارت عاشورہ کی تلاوت کے وقت وہ خاک ریز سے دور دوسرے جوانوں سے الگ تھلگ بیٹھا اپنے دل کے زنگ کو اپنے آنسوؤں سے دھو رہاتھا۔

نماز کے بعد میں اسے پاس گیا اور اسے سلام کیا۔ گرم جوشی سے احوال پرسی کے بعد ہم گھاس پر بیٹھ گئے جو گرمی کی شدت کی وجہ سے خزان کے موسم کی طرح زرد پڑچکی تھی۔

میری جستجو کی حس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اسے سے سوال کروں تم نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ لیکن اسکے چہرے سے عیاں نجابت نے مجھے یہ سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی، میں نے پوچھا:

۔کتنے عرصے سے محاذ پر ہیں؟

۔دو مہینے سے

۔کہاں سے بھیجے گئے ہیں؟

۔یزد سے

۔کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں مجھے کس سے بات کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے؟

۔میں آپ کا شاگرد اسفندیار ہوں

۔کتنا پیارا نام ہے، کیا مطلب ہے اسکا؟

۔اسفند یار ایک ایرانی نام ہے، اسکے دو حصے ہیں اسفند اور یار۔ قدیم ایران میں دراصل یہ "اسپند تات" تھا جو قاعدہ ابدال کی بدولت پ ف میں اور ت د میں تبدیل ہوکر اسفندیار ہوگیا، یعنی مقدس دوست

جب میں نے دیکھا کہ وہ اتنا سلیس اور روانی سے بات کررہا ہے تو میں نے بھی تکلفات کو کنارے رکھ کر اس سے سوال پوچھ لیا: تم نماز کیوں نہیں پڑھتے؟

۔نماز؟ اچھی چیز ہے۔ انسان کی خدا سے گفتگو ہے۔ کون کہتا ہے میں نماز نہیں پڑھتا؟

۔ میں نے خود دیکھا ہے نہیں پڑھتے

آہستہ سے مسکرا کرکہنے لگا

۔ایک دفعہ نہ پڑھنا تو دلیل نہیں ہوا

۔لیکن احباب بتارہے تھے کہ ہمیشہ نماز کے وقت مختلف بہانوں سے ان سے دو ہوجاتے ہو۔سچ کہتے ہیں لیکن میرا دل ہمیشہ انکے ساتھ ہے

۔کس طرح

۔ وطن سے عشق کی بدولت۔ میں نے اسلامی احادیث میں پڑھ رکھا ہے کہ "حب الوطن من الایمان" میں اپنے وطن سے عشق کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہی ایمان میرے اور دیگر دوستوں کے درمیان رابطے کی محکم کڑی ہے۔

ابھی ہماری گفتگو میں گرمی پیدا ہی ہوئی تھی کہ ہماری بٹالین کی امدادی ٹیم کے رکن مہرداد نے مجھے آواز دے کر بلالیا کہ دوائیں لینے کے لئے چلتے ہیں۔ میں نے اسفندیار سے خداحافظی کی اور اسنے بھی میرے ہاتھ کو مظبوطی سے دباتے ہوئے کہا" بہ درود"۔

پورے راستے میں اس کی باتوں کے بارے میں اتنا زیادہ سوچتا رہا کہ دو مرتبہ نزدیک تھا کہ ایمبولنس کا استئرنگ میرے ہاتھوں سے نکل جائے لیکن مہرداد کی چیخ نے مجھے ہوش دلایا" کیا کررہے ہو!"

واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ جوان جاچکے ہیں، میں نے وہاں سوال کیا:

۔ یہ لوگ کہاں سے آئے تھے؟

۔ تہران

لیکن وہ تو مجھے بتا رہا تھا کہ یزد سے آیا ہے

۔کون؟

۔ ان میں سے ایک بسیجی رضاکار

۔ نہیں۔ یہ سب تہران سے آئے تھے۔ کس کی بات کررہے ہو؟

۔اسفندیار، اس نے اپنا نام اسفندیار بتایا ہے

۔ انچارج نے فورا لسٹ میں اسفندیار نام کو ڈھونڈنا شروع کیا اور کہنے لگا

۔ صحیح کہہ رہا تھا، یزد کا رہنے والا ہے، لیکن چونکہ تہران یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ ہے اس لئے وہاں سے بھیجا گیا ہے۔۔۔

۔کیا؟

۔کیا پڑھ رہا ہے؟

۔ ہمیں کیا معلوم

اب یہ مسئلہ میرے لئے بہت پیچیدہ ہوگیا تھا۔ میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا لیکن میرا ذہن مشغول ہوچکا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بسیجی رضاکار نماز نہ پڑھتا ہو؟ میں ہمیشہ ہی اس فکر میں مبتلا تھا اور جب بھی میں اس جگہ کو دیکھتا جہاں پر وہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مجھے اس کی یاد آجاتی۔

کافی عرصہ گذر گیا اور پھر ایک دن وائرلیس پر اعلان ہوا کہ فورا ایک ایمبولنس بھیجی جائے۔

میں مہرداد کے ساتھ فرنٹ لائن پر پہنچا۔ ہم جہاں تک ایمبولنس پر جاسکتے تھے گئے اور جب ہم نے دیکھا کہ اب آگے نہیں جاسکتے وہیں ایمبولنس کو ایک کونے میں پارک کردیا۔

میں نے اسٹریچر اٹھایا اور مہرداد نے فرسٹ ایڈ باکس ہاتھوں میں لیا اور ہم پیدل چل پڑے۔ جب ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے اور بٹالین کے انچارج نے ہمیں دیکھا تو ہانپتے ہوئے بولا: "جلدی کرو"

۔ کیا ہوا؟

۔ راکٹ مرچے میں لگا ہے اور تین جوان شدید زخمی ہوگئے ہیں۔

ہم مورچے کی طرف گئے اور دیکھا کہ جوان آخری زخمی کو ملبے کے نیچے سے نکال رہے ہیں۔ میں تھوڑا نزدیک گیا تو دو بسیجیوں کو دیکھا جن کے چہرے خون میں غرق تھے۔

مہرداد نے انکے کنارے بیٹھ کر انکی نبض چیک کی اور ہر بار "انا للہ و انا الیہ راجعون" کی تلاوت کی جس سے میں سمجھ گیا کہ وی دونوں شہید ہوچکے ہیں۔ تیسرا بھی شہید ہوچکا تھا۔ اب انکی شناسائی کا مرحلہ شروع ہوا تھا جس میں انکے گلے میں پڑے لاکٹ سے انکی شناسائی کی جانی تھی۔

اسفندیار کا نام سنتے ہی میں سناٹے میں چلا گیا۔

میں آگے بڑھ کر پڑھنے لگا: "اسفندیار کی نژاد، میڈیکل تھڑ ایئر کا اسٹوڈنٹ، یزد کا رہائشی، دین زرتشتی۔۔۔"

مہرداد نے جو چفیہ(رومال) اسکے چہرے پر ڈالا تھا میں نے اسے ہٹایا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب بھی اسی طرح ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے کہہ رہا ہے: "ایک بار نہ پڑھنا دلیل تو نہیں ہوا" اور اس نے جان دے دی۔

جب میں نے اسے دیگر دو بسیجیوں کے جنازوں کے برابر میں دیکھا تو مجھے اس کی وہ بات یاد آگئی جو اس نے کہی تھی: "میں اپنے وطن سے عشق کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا یہ ایمان میرے اور دیگر دوستوں کے درمیان اتصال کا نقطہ ہے"۔

جی ہاں ایسا ہی تھا۔ میں نے اسکے سرہانے بیٹھ کر مسلمانوں کی رسم کے مطابق فاتحہ پڑھی اور ایسے عالم میں کہ جب میں اس کے چہرے پر چفیہ ڈال رہا تھا کہنے لگا: " اے مقدس دوست! تم مقدس راستے پر شہید ہوئے، بہ درود"۔

 

 



 
صارفین کی تعداد: 210


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

سب سے زیادہ دیکھے جانے والے

جنگ شروع ہونے سے پہلے عراق کی سرگرمیاں

اگلی صبح ہم واپس ایلام کی جانب نکلے اور ظہر کے نزدیک ہم ایران شہر پہنچ گئے اس رات ہم ایلام کے گورنر کے مہمان تھے۔ اگلے دن ہم وہاں کے مقامی افراد کی مدد سے کہ جو اسلامی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور انہیں عراق اور ایران کے درمیان سفر کرنے کی اجازت تھی سرحد پار پہنچ گئے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔