پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 19
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-5-28
یہ ۱۹۶۶ کے اوائل کی بات ہے کہ مجھے فوجی ٹرینگ کیلئے لے جانے والی ٹیم دوبارہ آگئی میں بالکل نہیں چاہتا تھا کہ اس فوجی ٹریننگ کا حصہ بنوں اسکی وجہ یہ تھی کہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس ٹریننگ سے آنے کے بعد میری توجہ اور لگن دینی تعلیم کی جانب کم ہو جائے گی جو میں کسی صورت نہیں چاہتا تھا لہذا میں نے پھر اپنی والدہ کی سر پرستی کا بہانہ بنا یا مگر انہوں نے اس کو قبول نہ کیا اور ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ اس وقت تک میں نے ملا عمر صاحب کے ساتھ چار کتابیں پڑھ لیں تھیں اور قرآن کریم کے علاوہ مجھے باقی ساری کتابیں اچھی طرح ازبر اور حفظ تھیں اور میں ان کے مطالب میں اتنا ماہر ہو چکا تھا کہ کوئی بھی متن میں سے کہیں سے بھی مجھے سے سوال کرتا یا کوئی مطلب دریافت کرتا تھا تو میں بغیر غلطی کے بالکل درست جواب دیتا تھا۔
تحصیل علم کیلئے ہجرت
میں اس دفعہ ایک بار پھر نا فرمانی کرنے کی غرض سے نور یاب گاؤں آیا، یہاں آکر مجھے معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے ہی وہ افسر اور ان کی ٹیم میری والدہ کے پاس آچکے ہیں اور میری والدہ سے ملاقات کر چکے ہیں جس میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ آپ کے بیٹے کی عمر ہو چکی ہے کہ اس کو فوجی تربیت کے بھیجا جائے اس کو اس دفعہ جانا ہوگا اگر اپنے پیروں پر چل کر نہیں گیا تو ہم اسے گرفتار کر کے یعنی اٹھا کر گےلے جائیں۔
میری والدہ اس بیان کو سن کر پریشان ہوگئیں، لہذا میں خود اپنے گاؤں کے آفس میں اس افسر کے پاس چلا گیا اور اس سے سارا معاملہ پوچھا، اس نے کہا بات صرف اتنی سی ہے کہ جانے کیلئے تیارہو جاؤ جس کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ اب بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ، میں ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ اس پہلوی حکومت کا سپاہی کہلواؤں خود کو، اور اس کے لئے کام کروں مگر کوئی چارہ نہ تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں عراق کی طرف فرار ہو جاؤں ! اور اس فوجی تربیت اور حکومتیکام کے بجائے عراق میں موجود دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کروں اور خوب پڑھوں ۔ میری والدہ کی بھی دلی تمنا یہی تھی کہ میں بھی اپنے آبا و اجداد کی طرح مولانا عالم بنوں اور دینی تعلیم حاصل کروں میری والدہ کی یہ آرزو اور تمنا ہی باعث بنی کہ اگر چہ وہ بہت پریشان تھیں اور ایک ماں ہونے کے ناطے میرے اس کام میں ان کو خطرہ نظر آرہا تھا مگر پھر بھی وہ میرے اس طرح فرار ہونے پر راضی ہو گئیں اور انہوں نے مجھے نہیں روکا۔ ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا مگر مجھے اندازہ ہوگیا کہ اب ارادہ کرنے کا اور سوچ و بچار کا وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے کیونکہ میرے اس طرح فرار ہونے اور فوجی تربیت کا حصہ نہ بننے کا سارا منصوبہ میرے کچھ رشتے داروں اور قریبی لوگوں کو معلوم چل چکا تھا اور ان کے ہمدردانہ روئیے مشورے ، اور کچھ ڈرانے اور خوف وہراس سے بھر پور جملے مجھ تک پہنچنے لگے جس کے ذریعے ان کی صرف یہی کوشش تھی کہ مجھے میرے ارادے سے باز رکھیں اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے روکیں، وہ کہتے تھے"یہ سوچو کہ اگر سرحدی علاقے جیسے نوسود وغیرہ میں گرفتار ہو گئے تو سمجھو تمہارا کام ختم، اور پھر یہ تم کو نہیں چھوڑیں گے"۔ مگر میں فیصلہ کر چکا تھا اور میرا ارادہ مضبوط تھا لہذا مجھے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ میں نے اپنی والدہ گرامی سے خدا حافظی کی، میری والدہ کے پاس بالکل پیسے نہ مجھے جو وہ مجھے ساتھ دیتیں کہ میں سفر کے اخراجات کیلئے استعمال کر سکوں، اور میں بھی ان کی حالت سے بخوبی واقف تھا لہذا مجھے کوئی امید بھی نہ تھی کہ میری والدہ وقت رخصت کچھ پیسے مجھے دے پائیں گی۔ لہذا وہ ۳۰ اپریل ۱۹۶۶ کا دن تھا جب میں، خدا کا نام لے کر اور اسکے توکل کے ہی سہارے صرف و نحو کی دو کتابوں کو لے کر، اس قرآن کریم کو سینے سے لگائے گھر سے نکلا جو میری ماں نے مجھے تحفہمیں دیا تھا اور بغیر کسی زاد راہ کے عراق کے سفر پر روانہ ہو گیا.
گھر سے نکالا تو سفر کا آغاز ایسے ہوا کہ شہرپاوہ سے نو سود تک ایک سامان اٹھانے والی گاڑی کے ذریعے آیا۔ اس گاڑی کے ڈرائیور نے مجھ سے کوئی کرایہ نہیں لیا، کیونکہ وہ جانتا تھا میں ایک طالب علم ہوں ۔ ظہر کا وقت اہونے والا تھا میں نے سن رکھا تھا کہ چوکی پر مامور سپاہی ظہر کے وقت معمولا دو پہر کے کھانے میں مصروف ہوتے ہیں لہذا یہی وہ بہترین وقت تھا جب میں ان سپاہیوں کی نگاہوں سے بچ کر، اس چوکی کو بغیر تلاشی اور حوالے و نام کے عبور کر سکتا تھا اور اس سرحد کو پار کر کے اُس طرف جا سکتا تھا ۔ ابھی ظہر میں تھوڑا وقت تھا لہذا میں نے اس چوکی کے نزدیک ہی واقع مسجدمیں خود کو مشغول ظاہر کیا اور چھوٹے موٹے کاموں کو انجام دے کر خود کو مصروف ظاہر کرتا رہا، مگر میری نظریں اور پوری توجہ وقت اور سرحدپر مرکوز تھی نوسود علاقے سے سر حد تک کی مسافت تین کلو میٹر کے برابر تھی جیسے ہی ظہر کا وقت ہوا میں نے اوپر بنی ہوئی چوکی کے سپاہی پر اپنی نظر گاڑ دیں، برج ( ٹاور) پر بنی اس چوکی کا نگہبان سپاہی جیسے ہی دوپہر کا کھانا لینے ، چوکی سے ہٹا میں نے اس فرصت کو غنیمت جانا اور اس چوکی کے بالکل سامنے بنے راستے پر جو نوسود سے سرحد تک جانے کا بہترین اور سب سے چھوٹا راستہ تھا، چل دیا میں تیز تیز قدم اٹھا کر چل رہا تھا میرا حال بالکل ایسے ہی تھا جیسے کوئی اپنے دشمن کی قید سے فرار کرتا ہے ، میری نظر یں بس آگے راستے پر جمی ہوئی تھیں اور میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، میری منزل شو شمی گاؤں تھا شوشمی گاؤں کے نیچے والے حصّے میں مجھے پہنچنا تھا جسکو شوشمی سفلی کہا جاتا تھا ، میں ظہر میں روانہ ہوا تھا اب تقریبا دن کا آدھے سے زیادہ حصہ گزر چکا تھا اور ڈھائی گھنٹے ہو چکے تھے مجھے چلتے چلتے۔کہ بالآخر میں اپنی دادی کی جائے پیدائش اور ان کے علاقائی گاؤں شوشمی سفلی پہنچ گیا . میں نے شوشمی کی ایک پہاڑی پر پہنچ کر سکون کا سانس لیا کہ بالا خر میں نے خود کو عراق کی زمین تک پہنچا دیا مگر یہاں پر بھی میں نے سنا تھا کہ ایران چوکی کے سپاہی گشت لگانے آتے ہیں لہذا اپنے ارد گرد ایک طائرانہ نگاہ دوڑائی کہ کہیں قریب میں کوئی ایرانی سپاہی تو نہیں اور جب اطمینان حاصل کر لیا تو لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا میں وہاں سے نکل گیا اور تھوڑی ہی دیر میں نے خود کو عراق کردستان کی سب سے پہلی آبادی (سوسکان) میں پایا اب میرے دل کو قرار آ چکا تھا اور سکون میرے پورے وجود میں سرائیت کر گیا تھا اور یہ احساس مجھے بہت خوشی لے رہا تھا کہ اب کوئی ایرانی سپاہی مجھ تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی مجھے کوئی گرفتار کر سکتا ہے۔ میں جانتا تھا یہاں کی حکومت اور علاقے کی سب باگ دوڑ کردیوں کے ہاتھ میں ہے اور یہاں کے سردار مرحوم ملا مصطفی بارزانی ہیں۔
صارفین کی تعداد: 635