کتاب"در کمین گل سرخ" سے اقتباس
شہید علی صیاد شیرازی کی داستان
انتخاب: فاطمہ بہشتی
ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر
2024-5-15
کرنل صیاد!
جب پارلیمنٹ پہنچے تو اجلاس شروع ہوچکا تھا۔ انہیں محسوس ہوا کہ عمارت کے کوریڈور میں انکے لباس، اور چہرے کی وضع قطع وغیرہ کی صورتحال کافی نامناسب ہے۔ کچھ دیر تو سوچتے رہے کہ واپس کیڈٹ کالج لوٹ جائیں اور مناسب لباس پہن کر واپس آجائیں؛ لیکن اچانک فیصلہ کیاکہ اسی انداز سے اور انہی لباس میں ہال میں داخل ہوں گے۔ بہرحال ملک جنگ کے حالات سے دوچار تھا اور سب کو یہ بات سمجھنی چاہئیے تھی۔ اتفاق سے چند ڈویژنز کے آفسیرز بھی وہاں موجود تھے جنہوں نے گذشتہ آپریشنز میں اپنا کردار ادا کیا تھا اور ان کو منٹکب کئے جانے پر انہیں اعتراض تھا اور وہ یہ سمجھتے تھے فوج کی سپہ سالاری کے لئے ابھی وہ کافی ناتجربہ کار ہیں! ان میں سے بعض افراد نے تو فوج اور نظام کے اصولوں کے برخلاف حتیٰ اپنی اس ناراضگی کو چھپایا بھی نہیں اور اس مسئلہ کو اعلیٰ حکام کے سامنے رکھ دیا۔
ہم اجلاس میں پہنچے وہاں اعلیٰ حکام موجود تھے۔ فوج کے چار ڈویژنز کے کمانڈرز بھی وہاں موجود تھے۔ جب میں داخل ہوا تو میں سوچنے لگا کہ ان لوگوں سے کیسے نمٹا جائے۔ چونکہ وہ سب عمر میں بھی مجھ سے کافی بڑے تھے اور میں تو بس ایک میجر تھا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ مجھے وقتی طور پر کرنل بنایا گیا تھا لیکن فوجی ثقافت میں رینک ہی اہمیت رکھتا ہے۔ حتیٰ ایک دن کی سینارٹی بھی معنیٰ رکھتی ہے اور جو مجھ سے سنیئر ہے وہ اس بات پر فخر کرتا ہے۔ چہ برسد یہ کہ وہ مجھ سے کئی سال سینئر ہو اور اس کے تجربات بھی زیادہ ہوں!
چار ڈویژنز کے کمانڈرز وہاں موجود تھے کہ یہ چاروں ہی رینک کے اعتبار سے کرنل تھے۔ ان میں سے بعض کی ریٹائرمنٹ نزدیک آچکی تھی۔ پہلے تو سوچنے لگا کہ ان چاروں کا کیا کیا جائے کہ یہ لوگ پہلی ہی ملاقات میں مجھ سے دور نہ ہوجائیں۔ میرا کوئی رینک نہیں تھا اور میں تو اسلحہ بردار تھا۔ اندر گیا، میں نے فیصلہ کیا کہ ان سب کو سلام کروں گا؛ فوجی قوانین کے برخلاف جس میں صرف کمانڈر کو سلام کرنا ہوتا ہے۔ میں نے سوچا سلام کروں گا، میرا کوئی رینک تو نہیں ہے، جو ہوگا دیکھا جائے گا!
میں نے سلام کیا اور چاروں نے اسکا جواب دیا۔ نفسیاتی اعتبار سے چاروں کا جواب کچھ اس ترتیب سے تھا: ایک نے سلام کا بہت محبت آمیز جواب دیا جیسے ان سے میری دوستی ہو۔ ان صاحب کو کسی زمانے میں جب میں کردستان میں تھا تو ان کا ڈویژن میرے ماتحت تھا اور میں نے ان کو منصوب کیا تھا۔ اس لئے پرانی دوستی کی وجہ سے میرے سلام کا جواب دیا اور محبت کا اظہار کیا۔
ایک کمانڈر نے آکر سلام کیا۔ میں نے انکے چہرے کو دیکھا۔ انکی عمر ترپن سال کے لگ بھگ تھی، بریگیڈئر جنرل شہید نیاکی جو آرمرڈ ڈویژن اہواز کے کمانڈر تھے۔ وہ تو فوجی قوانین کے اتنے پابند تھے کہ جب میں نے انکو سلام کیا تو چونکہ میں سپہ سلالار تھا تو میرے سلام کا جواب بھی انہوں نے فوجی قوانین کے مطابق دیا۔ محکم فوجی احترام لیکن انداز خشک تھا۔ اس جواب میں قلبی محبت نہیں تھی، بس فوجی قوانین کے مطابق اپنے وضیفے پر عمل کیا گیا تھا۔ یعنی بس اپنے آُ کو یہ باور کروایا تھا کہ سلام کا جواب فوجی قوانین کے مطابق محکم انداز سے دینا چاہئے۔
تیسرے کمانڈر نے حقارت آمیز انداز سے اور ایک ایسے انداز سے جو جو خود انکے لئے بھی ناقابل قبول تھی اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور ہاتھ ملا لیا۔ اس میں نے محبت کے آثار تھے نہ ہی فوجی قوانین کی پابندی۔
چوتھے کمانڈر نے میری جانب پشت کی اور دوسری طرف دیکھنے لگے۔ ایسے بن گئے جیسے مجھے دیکھا ہی نہیں ہے۔ لگ رہا تھا کہ انکے اندر ایک جنگ چل رہی ہے اور انکے لئے یہ بہت سخت ہے کہ حتیٰ میرے سلام کا جواب بھی دے سکیں، کہ یہ احساس ہو کہ میں بری فوج کا نیا سربراہ بن گیا ہوں اس لئے وہ پابند ہیں کہ ایک ڈویژن کے کناڈر کے عنوان سے میرے فوجی پروٹوکوزل میں ہی احترام کرنا ہوگا، اس لئے انہوں نے اس کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔
یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہوا، لیکن میرے لئے یہ ایک اچھا آغاز تھا۔ اس اجلاس سے میں نے سب سے پہلا جو فائدہ حاصل کیا وہ یہ تھا کہ ان کو مخاطب کرکے کہا: ڈویژنز کے کمانڈرز حضرات کل میرے دفتر میں تشریف لائیں۔
مجھے جلد از جلد انکے انتصاب پر تجدید نظر کرنا تھی تاکہ مجھے معلوم ہوسکے ان میں سے کون میرے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔
پوچھنے لگے: ہم کب آئیں؟
میں نے کہا: آپ اور آپ چھ بجے، آپ سات بجے
اُن لوگوں کی ان کے برتاؤ کے مطابق طبقہ بندی کی تھی۔ پہلے اور دوسرے کمانڈر کے احساسات ہم آہنگ نظر آئے جس سے محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے دو افراد سے الگ الگ بات کرنی چاہئے تھی تاکہ نفسیاتی اعتبار سے کوئی تداخل پیدا نہ ہو۔
صبح چھ بجے کرنل لطفی اور کرنل نیاکی آگئے۔ جیسی پیشنگوئی کی تھی ویسا ہی ہوا اور انہیں ان کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ نئے سپہ سالار کے آرڈر پر وہ اپنے اپنے ڈویژنز واپس چلے گئے۔ اسکے بعد دیگر دو کماڈرز آئے۔ انہوں نے ان سے کہا: کرنل صاحبان کم و بیش میرے مزاج سے واقف ہیں، جنگ اور محاذ جنگ کی صورتحال سے بھی واقف ہیں، کیا میرے ساتھ کام کرنا چاہیں گے؟
وہی جنہوں نے اُس دن بے توجہی کا مظہارہ کیا تھا ایک جملے میں کہا: حجرت امام کے لئے کیا مشکل تھا کہ آپ کو پہلے بریگیڈئر جنرل کا رینک دے دیتے اور اسکے دو تین مہینے بعد ہمیں بریگیڈئر جنرل کا رینک دیتے، اس عنوان سے کہ ہم نے محاذ جنگ میں زحمتیں اٹھائیں ہیں اور خدمت کی ہے۔
میں نے دیکھا کہ ان کی گفتگو کا انداز اس سوال سے کافی مختلف ہے۔ یہ میٹنگ شاید دو تین گھنٹے طولانی ہوگئی۔ میں نے کہا: بہت معذرت چاہتا ہوں، میں کچھ اور پوچھنا چاہ رہا ہوں۔
خدا نے میری مدد کی اور میں نے کچھ باتیں وہاں کرڈالیں۔ ایسی باتیں مثلا: میں کام کرنا چاہتا ہوں اور کسی پوسٹ، یا رینک کے چکر میں نہیں ہوں۔ ہماری پوری کوشش یہ ہے کہ دشمن کا راستہ روک سکیں۔ ہم اسوقت دشمن کو باہر دھکیلنے کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ ایسی باتیں کررہے ہیں جو میری سمجھ سے باہر ہیں، لیکن فوجی پروٹوکولز میں یہ باتیں سمجھ آڑہی ہیں چونکہ خود بھی فوجی ہوں، لیکن اس موقع پر میرے ایسے جذبات نہیں ہیں، یہ باتیں بالکل نہ کریں۔
وہی جنہوں نے توجہ نہیں کی تھی کہنے لگے: مجھے اجازت دیں کہ میں چلا جاؤں اور جوائنٹ اسٹاف میں اپنی خدمات پیش کروں، میں یہاں کام نہیں کرسکتا۔
میں نے کہا: میں بہت احترام سے آپ کو وہاں بھیجوں گا
دوسرے صاحب کو تھوڑے معتدل تھے کہنے لگے: اگر آپ اجازت دیں تو میں آُ کے ساتھ کام کروں گا
مگر میں ان کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا تھا، ان کا قابقہ مجھے معلوم تھا۔ انہیں محاذ جنگ پر جانے سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ میں نے ان کو بہت جلد انکے عہدے سے ہٹا دیا اور کرنل حسنی سعدی کو ۲۱ دویژن حمزہ کا کمانڈر بنا دیا جنہوں نے بہت اچھا کام کیا۔
صارفین کی تعداد: 453