ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 53 واں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-10-12
علی کے سوئم کی رسومات تھیں کہ رہبر معظم حفظ اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ختم کے بعد ہم رہبر کی خدمت میں پہنچے۔ علی کی شہادت کے بعد کسی چیز نے اس ملاقات سے بڑھ کر مجھے سکون و اطمینان نہ بخشا۔ جس وقت ہم رہبر معظم کی خدمت میں پہنچے تھے چار سو شور و غل تھا لیکن ان کے پاس پہنچتے ہی مجھے کسی کی کوئی آواز نہ آتی تھی میرا دل قابو میں نہ تھا مجھے صرف ایک ہی خیال تھا کہ آج میں رہبر سے مل رہی ہوں اور میں پر سکون ہو جاوں گی۔رہبر معظم باتیں کر رہے تھے اور میں ان کے وجود پرنور کی شفقت میں گم اشک بہا رہی تھی ایسا لگتا تھا کوئی بڑا بوجھ میری پیٹھ سے یک دم اتار لیا گیا ہو۔ تمام سختیوں کا بار ہٹ گیا ہو میں سبک بار ، ہلکی پھلکی ہو گئی ہوں۔ ان کا ایک ایک حرف میرے دل کے زخموں کے لئے مرہم تھا۔ رخصت کے وقت میں نے جھک کر ان کی عبا کے دامن کو بوسہ دیا تو ایک عجیب اطمینان میری روح میں سرائیت کر گیا۔میں نے ان سے درخواست کی
-دعا کیجئے مجھے بھی شفاعت نصیب ہو۔
انہوں نے جواب میں مسکرا کر کہا۔
-یقیناً ایسا ہی ہوگا۔
اس ملاقات کے بعد مجھے لگا کہ میں اب بھیانک خواب سے جاگ گئی ہوں اور بہت حد تک مجھے خود پر اختیار حاصل ہو گیا ہے اور اب میں اپنے حواس پر مسلط ہوں۔ اس ملاقات کے بعد ہی مجھے اپنے بچوں کا صحیح طرح سے خیال آیا اور اب میرا سارا ہم و غم یہی تینوں تھے۔ گو کہ اب تک میں ان سے بےخبر تھی اور اس بات کا قلق مجھے ہمیشہ رہے گا کہ کیوں میں ایسے غم کے عالم میں ان سے بے خبر رہی۔ بہت عرصہ تک ایسا ہوا کہ میں اکثر گم صم ہوجایا کرتی تھی اور خود سے بھی بے خبر ہوجاتی تھی مگر جب ہوش و حواس میں ہوتی تھی تو بچوں کے سارے کام خود ہی انجام دیا کرتی تھی۔مگر رات کو ضرور تنہائی کی چادر مجھے ڈھانپ لیتی تھی۔
علی کے چالیسویں سے قبل ادارہ کے افسر ہمارے گھر آئے تھے تعزیت اور دل جوئی کے لئے۔علی کی غربت اور مظلومیت نے میرے دل میں ایک بار پھر آگ لگا دی۔ علی نے کبھی کچھ نہ کہا تھا اور تمام الفاظ علی کے سینےمیں دفن رہے تھے حتیٰ اس کی پیشانی پر بل تک نہ تھےمگر اس کی شہادت کے بعد اب یہ میرا فرض تھا کہ میں علی کا پھر پور دفاع کروں۔
-خدا نے رحیمی صاحب کی قسمت میں یہ لکھ دیا تھا کہ ان کی حقانیت آپ لوگوں پر ثابت ہو۔ وہ تو چلے گئے ہیں مگر اب خدا را دوسروں کے ساتھ ایسا کچھ مت کیجئے گا۔
وہ شرمندہ ہوکر سر جھکائے صرف میری باتوں کو سنتے رہے۔
-وہ تمام الزامات جو آپ لوگوں نے رحیمی صاحب کے سر لگائے تھے وہ سب انہوں نے اپنے خون سے دھو دیئے۔
وہ بھی اب سمجھ چکے تھے کہ ان لوگوں نے کس در نایاب کو ہاتھ سے دیا ہے۔
۲۲ بہمن ۱۳۷۵ کے بعد علی کی تیار کردہ رپورٹ تہران پہنچ چکی تھی جس کے مطابق ملتان کا خانہ فرہنگ ۸ خانہ ہائے فرہنگ میں دوسرے نمبر پر تھا اور یہ مقام مرتبہ ایسے خانہ فرہنگ کو ملا تھا جہاں صرف ایک ایرانی ملازم تھا اور وہ خود علی تھا ۔ یہ بات بہت اہمیت کی حامل تھی۔ مجھے وہ رات یاد آ گئی جب علی نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس کے لئے ترجمہ کر دوں۔اب یہ لوگ علی کی کام کی قیمت و اہمیت کو پہچانے تھے اور اب علی کے کام اس کی زحمتوں اور کاوشوں کی قدر دانی کر رہے تھے ۔ وہ اس کی ستائش میں لب کشاء تھے اور میں علی کا آخری رات میں اپنے تمام دردوں کا بیان کرنا، یاد کر رہی تھی۔ ان حضرت نے اپنے انتقال سے پہلے ہمیں ایک پیغام بھجوایا تھا جس میں معافی طلب کی تھی ۔ قسمت سے میرا ان کے چالیسویں میں جانا ہوا اور وہاں میں نے ان کو معاف کردیا۔
عزیزوں نے بتایا کہ علی کی شہادت کے وقت اس کی امی اپنے گاوں گئی ہوئی تھیں۔ ان کے داماد ان کو علی کے والد کی بیماری کا بہانہ کرکے تہران لے کر آئے۔ انہوں نے راستے میں کوشش کی کہ علی کی امی کو ذہنی طور پر تیار کریں اور اس بڑی اور بری خبر کے برداشت کرنے کے لئے ان کو آمادہ کریں۔ انہوں تہران کے قریب پہنچ کر امی سے کہا
-میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں اور دیکھتا ہوں آپ کا ایمان کتنا قوی ہے۔
علی کی امی کو جیسے الہام ہو گیا تھا۔
-جس کے ساتھ جو بھی ہوا ہو بتا دو مگر محمد علی کا نام نہ لینا۔
- لو اس سے کیا فرق پڑتا ہے بات کسی کے بھی متعلق ہو، یہ تو ایمان کی مضبوطی کا امتحان ہے۔
-جو بھی کہنا ہے کہو مگر محمد علی کے بارے میں کچھ نہ کہنا۔
ان کے داماد ان کے اصرار پر خاموش ہوگئے ۔ وہ گلی میں داخل ہوئیں تواور اپنے گھر کے سامنے ہجوم دیکھا تو مجبور ہوگئیں کہ اب اس حقیقت کو قبول کرلیں جس سے اب تک فرار کر رہی تھیں۔
علی تو چلا گیا تھا مگر میں اور بچے تو باقی تھے ہمیں زندہ رہنا تھا۔ بغیر شوہر کے زوجہ کا اور بن باپ کے بچوں کا زندگی گذارنا واقعی قابل تحمل نہیں ہوتا۔ سو ہماری حالت بھی غیر تھی۔ مشکلات روز بروز بڑھ رہی تھیں اور ذمہ داریاں روز افزوں تھیں۔
بچوں کو اسکول بھیجنا تھا سو عید سے پہلے ہی داخلوں کے لئے دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ مہدی نے ایرانی دروس نہ پڑھے تھے اس کے لئے ایرانی معلموں کا بندوبست کیا تاکہ اس کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو اور وہ اچھی طرح پڑھائی کر سکے۔ استاد ملے تو ان کی فیس تقریباً ۵ لاکھ تومان ہوئی جو اس زمانے میں میرے لئے بہت ہی زیادہ تھی مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا ، ادا کرنی پڑی اور یوں آہستہ آہستہ میں قرضوں کے بوجھ تلے دبنا شروع ہو گئی۔
میری عمر ۳۳ سال تھی مگر آج تک میں نے گھر سے باہر کے کام انجام نہ دیئے تھے۔ بینک کے کاموں کا تو مجھے سرے سے کچھ پتا نہ تھا۔ جب بینک میں اکاونٹ کھلوانے کی ضرورت پڑی تھی تو علی فارم گھر لے آیا تھا اور میں دستخط کر دیئے تھے اور وہ لے گیا تھا، مگر اب ہر کام مجھے خود کرنا تھا ۔ یہ سب میرے لئے بہت مشکل تھا جیسے بچوں کا داخلہ کرانا ادھر ادھر اداروں کے چکر لگانا وغیرہ۔
علی کی شہادت کو ایک ماہ بھی نہ بیتا تھا کہ پاکستان سے خطوط آنے کا سلسہ شروع ہوگیا۔ سب سے زیادہ خطوط زہیر اور عالیہ لکھتے تھے۔معلوم نہیں انہوں نے کس طرح علی کے والد کے گھر کا پتہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ شاید علی کی تعلیمی یا دیگر اسناد کے ذریعے حاصل کیا ہو۔ ان کو ہماری کوئی خبر نہیں مل رہی تھی یعنی میری اور بچوں کی اس بات پر وہ بہت پریشان تھے۔ میں جب ان کے خطوط کو پڑھتی تو بے اختیار رو پڑتی۔ ان کے تمام خطوط اول سے آخر تک ان کی ہمدردیوں اور شرمندگیوں کا مرقعہ ہوتے تھے۔ میں ان لوگوں کا پریشان ہوکر مجھ سے التجاء کرنا التماس کرنا کہ میں علی کو یہاں سے لے جاوں، کبھی نہیں بھول سکتی ۔ انہوں نے یہ سب ہماری محبت میں کہا تھا مگر اس وقت میں ان کی باتوں کو نہ سمجھ پائی تھی۔
انہی خطوط میں عالیہ نے ہمارا فیملی فوٹو بھی ارسال کردیا ۔ بے چارے علی کو اتنا وقت بھی نہ مل سکا تھا کہ وہ اس تصویر ایک بار صرف ایک بار دیکھ ہی لیتا۔ علی نئے کوٹ پینٹ میں صوفے کے پیچھے ہمارے سر پر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو اس نے شہادت کے دن زیب تن کیا ہوا تھا۔
کاش وہ ایک بار واپس آجائے صرف ایک بار ہمارے ساتھ کھڑے ہوکر ایک تصویر بنوا لے۔ میں اس کی ایک مسکراہٹ کے لئے جو اس تصویر میں تھی ، اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہوں۔ بچوں کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کر میرا دل بھر آیا وہ اس دن کس قدر خوش تھے اور کتنے اشتیاق سے تصویر بنوا رہے تھے ۔ ان کی مسکراہٹ بس اسی تصویر میں قید ہوگئی تھی کیونکہ اب ان کے چہروں پر اس شادمانی و شادابی کا نام و نشان تک نہ تھا۔میں نے تصویر کو سینے سے لگا لیا اور رونا شروع کردیا۔
صارفین کی تعداد: 917