عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز -9

تالیف: مرتضی سرہنگی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ

2023-1-18


" میں اپنی تعریف کا قائل تو نہیں لیکن اب ضروری ہے تو کہتا چلوں کہ میں مطالعہ کا شوقین ہوں۔ اور اسی مطالعے کی برکت سے مجھے اس جنگ کے آغاز میں حقیقت کا علم ہو گیا تھا کہ صدام حسین کے کیا مقاصد ہیں اور یہ کہ اس کی حمایت میں عالمی استکبار اور خطے کے چند ممالک کی حکومتیں شامل ہیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ میں خط مقدم پر آنے سے گریز کرتا اور کوئی نہ کوئی بہانہ پیش کر دیتا۔ لیکن کب تک؟ اب جنگ تھی اور ہر عذر ناقابل قبول تھا۔ اور سر پیچی کرنے والوں کا انجام بھی ہم دیکھتے رہتے تھے۔ سر پیچی کی سزا سپاہی کے ساتھ ساتھ اس کے اہل خانہ کو بھی ملتی تھی تو اس لئے ھر حال میں اپنے حکام بالا کے غیر انسانی احکامات کی تعمیل کرنی ہی پڑتی تھی۔
جب میں خط مقدم پر پہونچا تو وہاں کی صورتحال کو کافی خراب پایا، افسران کا غیر اخلاقی و غیر انسانی رویہ ناقابل بیان تھا۔ وہاں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی، اب ایسے میں سپاہیوں کا مورال کیا خاک بلند ہوگا! جہاں انسانی ہمدردی نہ ہو وہاں اس اساسی خلا کو دنیا کی تمام آسائشیں مل کر بھی پورا نہیں کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر سپاہی مل بیٹھتے، گپ لگاتے، ہنستے ہنساتے اور وقت گزارتے، درد دل کرتے اور خود کو ہلکا کر لیتے۔ کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔ ایک بار ایسی ہی نشست میں ہم بیٹھے تھے اور مختلف موضوعات پر گفتگو جاری تھی کہ بات جنگ پر آ نکلی کہ کس نے آغاز کیا اور کون فائدہ اٹھائے گا۔ کئی سپاہی ڈر کے مارے کچھ بول نہیں رہے تھے۔ ایک سپاہی تھا جس کا نام یاد نہیں لیکن خود کو بہت نڈر سمجھتا تھا اور بڑھ چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس کی گفتگو سے اسلام دشمنی عیاں تھی۔ وہ صدام کا حامی تھا اور گفتگو کے دوران بہت نازیبا الفاظ ایرانی حکام اور امام خمینی حفظہ اللہ کی توہین کر رہا تھا۔ وہ یہ بات منوانا چاہ رہا تھا کہ ایران نے اس جنگ آغاز کیا اور اسے اس جارحیت کا جواب ملنا چاہیے۔ اور امپیریل ازم کے ریڈیو چینلز کے تبصرے تجزیے سنا رہا تھا۔ اس اثنا میں ایک راکٹ ہم سے چند میٹر کے فاصلے پر گرا اور ہم سب فورا منہ کے بل لیٹ گئے۔ راکٹ پھٹنے کے بعد ہم ادھر ادھر رینگنے لگے، یہ راکٹ بالکل غیر متوقع تھا۔ کیونکہ دونوں طرف سے فائرنگ یا جنگ کی کوئی خبر نہیں تھی۔ خیر گرد و غبار چھٹنے کے بعد ایک دوسرے کو صحیح و سالم پا کر ہم بہت خوش ہوئے۔ صرف ایک شخص تھا جو موت کے گھاٹ اترا تھا اور وہ وہی بد زبان شخص تھا جو  صدام کا حامی تھا اور دوسروں کے اذہان میں بغض و کینہ بھر رہا تھا۔ اور امام خمینی اور ایرانی حکام کو گالیاں دے رہا تھا۔ میں نے فورا سپاہیوں سے کہا: "اس شخص کی ہلاکت میں کئی عبرتیں پوشیدہ ہین، کیوں یہی ایک شخص مرا؟ اس لیے کہ اللہ نے کہا ہے کہ:
"وَمَا رَمَیۡتَ إِذۡ رَمَیۡتَ وَلَٰکِنَّ ٱللَّهَ رَمَىٰ۔"
"اے پیغمبر کفار آپ کے ہاتھ سے نہیں مرے، بلکہ یہ اللہ ہے جس نے ان کو واصل جہنم کیا ہے"۔
*جاری ہے۔*



 
صارفین کی تعداد: 1566


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات

ان شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ ہمیں اس بات کی خبر پیرس پہنچانی ہوگی. ہمارے ساتھی اصرار کر رہے تھے کہ جو افراد اس ملاقات میں شرکت کرنے والے ہیں ان میں مجھے بھی شامل ہونا چاہیے.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔