ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، ستائییسواں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2022-12-3
پانچویں فصل
ملتان کا سفر
سال ۱۳۷۴ شمسی ، ۲۵ مرداد[1] کے دن ہم پاکستان کے لئے روانہ ہوگئے۔ ملتان کے لئے براہِ راست کوئی پرواز نہیں تھی لہٰذاہم پہلے کراچی گئے ایک دن وہاں میں مہمان رہے اسکے بعد داخلی پرواز کے ذریعے ملتان کو راہی ہوئے جہاز دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگئی علی بھی حیرت زدہ تھا اور از راہِ مزاح کہنے لگا :
-دعا کیجئے یہ جہاز صحیح و سالم زمین پر اتر جائے۔
سارے راستے وہ بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق، باتیں کرتا اور کھیلتا رہا۔ اس ہنسی مذاق میں بچے ایران سے پاکستان تک کے سفر کی تھکان کو بھول گئے مگر جب ہوائی اڈے پر ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی ہمیں لینے نہیں آیا تو تھکن نے ہمارا بدن توڑ کر رکھ دیا۔ سہولیات سے عاری پر ہجوم ہوائی اڈا۔ ہم سرگردان و پریشان ادھر ادھر ٹہل رہے تھےاور کوئی جاننے والا نہ تھا۔ بعد میں ان لوگوں نے بڑے بہانے تراشے کہ غلطی ہوگئی، صحیح اطلاع نہ ملی، آپ لوگوں نے آنے میں دیر کی وغیرہ وغیرہ۔
ملتان ایک چھوٹا سا شہر تھااور ایسے میں خارجی مسافر وہ بھی ہماری وضع قطع کے، ایک مرد ایک خاتون بچوں کے ہمراہ سب کی نظروں میں تھے۔ کوئی ہمیں لینے نہ آیا تو مجبوراً ہمیں انتظار گاہ سے باہر نکلنا پڑا وہ بھی ایک عمومی ہال سے گذر کر تمام دوسرے مسافروں کے ہمراہ جو ہمیں دیکھ رہے تھے۔ یہ کام بین الاقوامی امور اور تعلقات کے اعتبار سے بھی برا اثر ڈال سکتا تھا کیوں کہ لوگوں کو چند دن بعد معلوم ہو جانا تھا کہ وہ آدمی جو ہوائی اڈے میں اس اجنبیوں کی طرح گھوم رہا تھا یہی خانہ فرہنگ کا نیا انچارج تھا دوسری طرف یہ بات نظام اسلامی کے لئے بھِی خطرناک ہو سکتی تھی۔ علی خود بھی اس مسئلہ پر پریشان تھا۔ ہم لوگ کافی دیر خوار ہوتے رہے اس کے بعد ایک ڈرائیور ہمیں ڈھونڈتا ہوا آگیا۔
گاڑی پر ہجوم سڑکوں پر رواں تھی اور ہم حیران پریشان ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔ ملتان صرف نام کا شہر تھا ، اصل میں اس کی حالت ایک پسماندہ گاوں سے بھی بد تر تھی۔ کچی گلیاں اور سڑکیں، ٹھیلے، گاڑیاں، انسان، حیوان، سائیکلیں جس کا جدھر جی چاہتا منہ اٹھائے جارہا تھا۔ بدنظمی تو اپنی جگہ تھی ہی مگر تمام جگہیں گندگی کا ڈھیر بنی ہوئی تھیں۔ایسا لگتا تھا قانون نام کی کوئی چیز یہاں ہے ہی نہیں۔ ہر گلی کے کنارے کچرے کا ڈھیر لگا ہوا تھا اس پر مستزاد اس شہر کی گرم ہوا جو اس گندگی کو اور بھی نمایاں کر رہی تھی۔ گند ، کچرے سے جو بو اٹھ رہی تھی اس نے ہماری ناک سڑا دی اور ہمارے ہمراہ گھر تک آ گئی۔ کتے اور گائے بھینس جیسے جانور لوگوں کے درمیان اطمینان سے گھوم پھر رہے تھے۔ گاڑیاں ، گدھا گاڑیوں کے ساتھ ریس لگا رہی تھیں۔ اس شہر کا سب سے عجیب منظر لوگوں کا سڑکوں کے کنارے قضائے حاجت کرنا تھا۔رش میں ایک گھنٹہ پھنسے رہے تب کہیں خانہ فرہنگ کا دروازہ نظر آیا۔ بچوں کو نئی جگہ دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ اسی شوق کو پورا کرنے کے لئے ادھر ادھر گھومنے لگے۔میں نے سرسبز صحن میں نظر دوڑائی۔ سفید اور گلابی پھول اور بیلیں دیواروں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ صحن کے آخر میں کانفرنس ہال تھا۔آفس کے کمروں کی راہداری کا دروازہ باغچے میں کھلتا تھا۔راہدری کے سیدھے ہاتھ پر کمپیوٹر کا کمرہ تھا اور الٹے ہاتھ پر انفارمیشن [اطلاعات] کا کمرہ تھا۔مرکزی دروازہ سے سیدھی جانب علی کا آفس تھا۔ اس اجنبی جگہ پر علی کا آفس گھر سے قریب ہونا ایک بہت بڑی نعمت تھا۔ ہمارے گھر میں دو کمرے تھے ایک باورچی خانہ، بھورے رنگ کا ایک صوفہ تھا جس کا بوسیدہ ڈھانچہ باورچی خانہ کے دروازے پر ڈال دیا گیا تھا۔پردوں کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ گند اور مٹی سے اٹے ہوئے، صحن میں کھلنے والی کھڑکیوں کو ڈھانپے ہوئے تھے۔پچھلے صحن کی دیواروں کو صحرائی سبز بیلوں کے پتوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ جب یہ گھر کا حال تھا تو باغچوں کو کون دیکھتا سو وہ بھی بغیر مالی کے یونہی اجڑے پڑے تھے۔گھر کا پچھلا دروازہ سبز پتوں کے درمیان سے بہت مشکل کے ساتھ اپنے وجود کا پتہ دے رہا تھا۔ اس کا رنگ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا اور اس کے تالے پر لگا زنگ پکارے گلے صاف چلا رہا تھا کہ عرصہ سے کسی نے اس کو کھولا بلکہ ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے۔ زہیر صاحب محرر خانہ فرہنگ کا گھر بھی اسی صحن میں تھا۔ اس کی سورج سے جھلسی ہوئی صورت وہ پہلی چیز تھی جس پر ہماری نگاہیں سب سے پہلے ٹکیں۔ وہ ہمارے آتے ہی خوشآمدید کہنے آ گیا تھا، اطمینان کے ساتھ وہ ہمارے نزدیک آیا اور کندھے جھکا کر علی سے گلے ملا اس کا قد لمبا تھا جب وہ علی ساتھ کھڑا ہوتا تو بڑا مزیدار منظر ہوتا۔
گھر کی صفائی ستھرائی لازمی تھی تاکہ کمرے رہنے کے قابل ہو سکیں۔ بستروں کے گدوں کی دھلائی اور ان پر غلاف چڑھانے سے لے کرکھڑکی دروازوں، کارپٹس، باورچی خانے اور برتنوں کی دھلائی کرنے تک ہر ہر کام نے ناک میں دم کر دیا تھا۔ صبح صبح کپڑوں کا انبار ہوتا تھا جو رات تک پھر جمع ہوجاتا تھا اور پھر نئے سرے سے کام کرنا ہوتا تھا۔ پورے گھر میں سرف اور بلیچ کی بو پھیلی رہتی تھی۔ ایک مہینہ تک میرا بس یہی کام تھا اور پر مستزاد یہاں چھپکلیوں کی اپنی ہی ایک دنیا آباد تھی۔ ہندوستان کی طرح ہم یہاں بھی ان جانوروں کو مارنے سے گریز کرتے تھے اور ان کو زندہ پکڑ کر باہر پھینکوا دیتے تھے۔ ابتدائی چند دنوں میں جب ہمیں جھینگروں کی آوازوں کی عادت نہیں ہوئی تھی تو جھینگروں کے گانے ہمیں رات پھر سننا پڑتے تھے اور یوں نیند نہ آتی تھی۔ جھینگر بھی بہت بڑے بڑے اور سیاہ رنگ کے تھے۔ رات ہوتے ہی اپنا راگ الاپنا شروع کر دیتے اور سونا دوبھر کر دیتے۔ ان جھینگروں کے خوف سے ہم صحن میں بھی نا جاپاتے تھے۔
علی ، ملتان آتے ہی بے تحاشہ مصروف ہو گیا تھا اس لئے بچوں کے لئے اسکول کی تلاش میرے ذمے تھی کیونکہ اسکول نا جانے کا مطلب تھا گوشہ نشین ہوجانا۔ مجھے یہ بات ہرگز قبول نہ تھی کہ میرے بچے سماجی اور تعلیمی اعتبار سے کسی مشکل کا شکار ہوں اور وہ اپنے ہم عمروں میں اٹھنے بیٹھنے سے محروم رہیں۔ اس لئے میں نے سارے شہر میں اسکول کی تلاش شروع کردی۔ پورے ملتان میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک ہی ڈھنگ کا اسکول تھا سو مہدی کے داخلے کے لئے وہاں پر نام لکھوا دیا مگر مہدی عجیب مشکل میں مبتلاء ہو گیا کیونکہ اس کی انگریزی بھی اردو کی طرح کامل نہ تھی اور یہاں زیادہ تر دروس اس کو انگریزی زبان میں پڑھنے تھے لہٰذا اس کو ہر قیمت پر انگریزی سیکھنی تھی۔ پڑھائی بھی کافی سخت تھی اور میرے لئے اس کی پڑھائی میں اس کی مدد کرنا ممکن نہ تھا۔محمد اور فہیمہ کو ابھی گھر میں ہی تعلیم حاصل کرنا تھی۔ ملتان میں کوئی ایرانی اسکول نہ تھا اس لئے اب ان کی استاد میں تھی ۔ مجھے ان کا گھرمیں رہنا پسند نہ تھاکیونکہ پڑھائی کے مسئلے علاوہ یہ مسئلہ بھی تھا کہ وہ گھر میں رہنے کے سبب ساری دنیا سے کٹ گئے تھے ناچار فیصلہ کیا کہ ان کو بھی ایک پاکستانی اسکول میں ہی داخل کرا دیا جائے ہر چند ان کے لئے ماحول اجنبی تھا مگر میں نے اس اجنبیت کو ان کی گوشہ نشینی پر ترجیح دی اور یوں ان کو ہم عمر دوست بھی نصیب ہوئے اور اپنے کاموں کے لئے بہتر منصوبہ بندیاں بھی۔ ان کے اسکول میں مخلوط تعلیمی نظام [2]رائج تھا جو اس بات کا باعث ہوا کہ میں محمد کی جانب سے مطمئن ہو گئی ۔ اس کے پاس اسکول میں اسکی بڑی بہن موجود تھی۔ اسی مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے مجھے فہیمہ کے لئے اسکول تلاش کرنے میں بہت دقت کرنا پڑی اور جس اسکول میں سب سے زیادہ پردے کا خیال رکھا جاتا تھا فہیمہ اور محمد کو اس اسکول میں ڈال دیا۔ وہ اب بالغ ہوچکی تھی اور پردہ کی پابندی اس پر واجب تھی۔ بعض اسکول یونیفارم کے علاوہ حجاب کو قبول نہ کرتے تھے۔ میں نے اسکول کے پرنسپل سے مل کر بچوں کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں وضاحت پیش کی تاکہ وہ بچوں کے پڑھائی میں کمزور ہونے پر زیادہ سختی نہ کریں۔ ان بچوں نے ہر کلاس الگ انداز سے پڑھی تھی اس لئے دوسروں کے مقابلے میں وہ کچھ کمزور تھے اور زبان کا مسئلہ تو تھا ہی۔ میری وضاحت اس لئے تھی کہ کہیں وہ ان کی کمزوری کو ان کی کاہلی سمجھتے ہوئے ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہ لیں۔ اس ملاقات کا بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ ہر روز اسکول جائیں گے۔مگر اس سال امتحان نہیں دیں گے تاکہ ان کے تمام مضامین مضبوط ہو سکیں۔ میں یہاں بچوں کی تعلیم کے لئے جوتیاں گھس رہی تھی اور وہاں علی اپنی تعارفی تقریب کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ یہ پہلا جلسہ تھا جو علی نے خانہ فرہنگ ملتان کے ہال میں منعقد کرایا۔ میں چپکے سے جا کر آخری صف میں ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ علی کوٹ پینٹ میں ملبوس ڈائس پر تھا اسکی آواز ہال میں گونجی:
-میں نے آنے سے پہلے استخارہ کیا۔ جواب ملا ، خدا اور قرآن کی راہ میں قدم بڑھاو۔ سو میں پختہ ارادہ کر کے آ گیا ہوں مگر ان کاموں میں مجھے آپ سب کی مدد دکار ہوگی۔
میں نے اس کا یہ بیان سنا تو حیران رہ گئی کیوں کہ اس نے مجھے کچھ نہ بتایا تھا اور میں اس وقت تک میں اس کی استخارہ والی بات سے بے خبر تھی۔
صارفین کی تعداد: 1598
گذشتہ مطالب
- فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات
- تبریز کی فوجی گیریژن پر قبضے کا طریقہ کار
- سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت
- حاجی مصطفی خمینی صاحب کی تجویز
- امام خمینی(ره) کی لائبریری کی غارت گری
- مراجع کرام کا قم سے نجف پیغام بھیجنے کا طریقہ
- نوجوان دوشیزہ نشان عبرت بن گئی
- اس آدمی کا پیچھے کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟