مشہد کے معروف افراد کو امام خمینی رھ کا خط کیسے بھیجا جاتا تھا

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2021-3-1


جب قم المقدسہ میں امام خمینی رح کی جدوجہد کی شروعات تھی۔ اس کی خبریں مشہد بھی پہنچتی تھیں۔ میں اس زمانے میں حوزہ علمیہ مشہد میں زیر تعلیم تھا۔ عوام کی اس تحریک سے آگہی کی ایک راہ امام خمینی رح کے اطلاعیہ ہوا کرتے تھے۔ خاص طور پر وہ اطلاعیہ جو امام خمینی رح نے شاہ کے کارندوں کی جانب سے مدرسہ فیضیہ پر حملہ کئے جانے کے بعد جاری کیا تھا۔ اور اعلان کیا تھا کہ شاہ سے دوستی کا مطلب اسلام کو نقصان پہچانا ہے، شاہ سے دوستی کا مطلب قرآن سے مقابلہ اور شاہ سے دوستی کا مطلب غارتگری ہے۔

یہ اطلاعیہ جب مشہد پہنچا تو ان میں سے میرے ہاتھ بھی لگا۔ میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اب میرا وظیفہ کیا ہے؟ میں اس نتیجے تک پہنچا کہ اب اس طلاعیہ کو لوگوں تک پہنچا چاہئے۔ لیکن حالات اتنے کشیدہ تھے کہ بھائی بھائی پر اعتماد نہیں کرسکتا تھا۔ لہذا یہ ایک خطرناک کام تھا۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ کچھ نہ کچھ کرنا ہے اس لئے اپنے ایک انقلابی طالبعلم دوست عبدالقائم کو ساتھ لیا اور فیصلہ کیا کہ امام کے اس بیانئے کی کاپیاں بنوائی جائیں اور ملک بھر کے علمائے کرام کو ارسال کی جائیں۔ چونکہ وہ پہلا گروہ جسے آگاہ ہونا چاہئے علما کا گروہ ہے۔ اس لئے ہم راتوں کو بیٹھ کر کاربن رکھ کر اس بیانیئہ کی کاپیاں بناتے۔ اس طرح ہم نے اس بیانیئے کی بہت ساری کاپیاں بنائیں اور انہیں لفافوں میں رکھ کر ملک بھر کے علما، استاذہ، شہروں کے ذمہ دار افراد، میئرز اور نیم فوجی دستوں کے عہدیداروں کو ارسال کردیا۔ چونکہ ہمیں ڈر تھا کہ اگر ہم نے حرم کے اطراف میں موجود پوسٹ بکس میں یہ خط ڈالے تو سرکار دینی مدرسوں پر شک کرے گی، ہم ان لفافوں کو ارگ مشہد اور مرکزی بازار لے جاتے کیونکہ اس زمانے میں وہ علاقے غیر متدین اور بے حجاب لوگوں سے بھرے ہوتے تھے، ہم وہاں سے جا کر انہیں پوسٹ کیا کرتے تھے۔ البتیہ یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور اگر خدانخواستہ ہم ساواک کے ہاتھ لگ جاتے تو نہیں معلوم ہمارے ساتھ کیا ہوتا اور ہم شاہ کی کون سی خفیہ جیل میں پڑے ہوتے۔

 

 

منبع: خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدحسین حسینی، تدوین غلامرضا خارکوهی، تهران، مؤسسه فرهنگی هنری و انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1398، ص 73 - 75.



 
صارفین کی تعداد: 2997


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔