تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات - انتالیسویں قسط

مجتبی الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-12-27


8- "ضیاء" نامی ایک مامور:

عراقی فوج کے رسم و رواج کے مطابق ہر افسر ایک سپاہی کو اپنے ذاتی کام انجام دینے کے لیے مامور کے طور پر رکھ سکتا تھا لیکن میں جو ایک افسر اور ریجمنٹ ڈاکٹر تھا اس فکر کے خلاف تھا جو غلامی سے مختلف نہیں تھی۔ اسی لیے میں کپڑے دھونے سے لے کر جوتوں کی پالش تک اپنے تمام ذاتی کام خود کرتا تھا۔ موبائل یونٹ میں میرے ساتھ تقریباً 11 لوگ کام کرتے تھے۔ وہ لوگ دوستی اور محبت میں اور میرے ان کی مدد کرنے کی وجہ سے دل و جان سے میری خدمت کرتے تھے لیکن میرے ذہن میں افسران کی جو مکروہ اور نفرت انگیز تصویر ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ چھٹی پر جاتے تھے تو سپاہی غلاموں کی طرح ان کے بیگز اپنے کندھوں پر اٹھا کر ان کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔

ایک صبح ایک سپاہی نے جو اپنا سامان کندھے پر اٹھائے ہوئے تھا اپنا تعارف ایک پرائیویٹ سپاہی "ضیاء" کے نام سے کرایا۔ میں نے اس سے پوچھا: "تمہیں کس عنوان سے یہاں منتقل کیا گیا ہے؟"

اس نے جواب میں کہا: " ایک سپاہی کے عنوان سے جو آپ کے پاس کام کرے گا۔"

میں سمجھ گیا کہ اسے مامور کی حیثیت سے میرے پاس بھیجا گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا: " مجھے اسسٹنٹ سپاہی کی ضرورت نہیں ہے-"

اس نے کہا: " ریجمنٹ کے معاون نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔"

میں نے اس سے کہا: " پیرا میڈکس کے بنکر میں جاؤ!"

پھر میں نے ریجمنٹ کے معاون کو فون کیا اور اس بارے میں وضاحت چاہی۔

اس نے کہا: " ریجمنٹ کمانڈر نے اس سپاہی کو تمہارے پاس مامور کے عنوان سے بھیجا ہے۔ وہ ایک عیسائی سپاہی ہے۔ کیپٹن "ابراہیم" نے درخواست کی تھی کہ اسے تیسری کمپنی سے کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جائے بالآخر موبائل میڈیکل یونٹ کے کمانڈر نے اسے قبول کر لیا۔"

میں نے اس سے کہا: " یہ ناممکن ہے کہ میں اسے قبول کرلوں۔ میں مامور کے خلاف ہوں۔"

معاون نے جواب دیا: " اس معاملے کا تعلق ریجمنٹ کمانڈر سے ہے۔"

میں ریجمنٹ کمانڈر کے پاس گیا اور اس سے اس بارے میں بات کی۔ بحث و جراح کے بعد وہ تیار ہو گیا کہ اسے اسسٹنٹ سپاہی کی حیثیت سے افسران کے کینٹین بھیجا جائے گا۔ اس طرح سے خدا نے مجھے اس فتنے کے شر سے محفوظ رکھا۔

سپاہی جنگ شروع ہونے سے پہلے مامور بننے سے بھاگتے تھے لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد وہ التجا کرتے تھے کہ انہیں مامور کی حیثیت سے کہیں بھیج دیا جائے۔ جب ہر سپاہی محاذ سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو ایک بڑی کامیابی سمجھتا تھا، تو تیسری کمپنی سے موبائل میڈیکل یونٹ یا ریجمنٹ کیمپ منتقل ہونے کو تو رہنے ہی دیجئے۔ میں موبائل میڈیکل یونٹ واپس آیا اور بڑی شفقت سے اس سے کہا: " بظاہر تم غلطی سے یہاں آ گئے ہو۔۔۔ تم افسران کی کینٹین جاؤ۔"

9- کوہہ گاؤں پر جوابی حملہ:

 اس موضوع کو چھیڑنے سے پہلے میں ایک بار پھر ایران کے داخلی مسائل کو مختصر طور پر ذکر کرتا ہوں تاکہ قارئین کو اس ملک کی ان اہم تبدیلیوں سے آگاہ کروں جن کا محاذ اور جنگ سے گہرا تعلق ہے۔

سن 1981ء کے اوائل میں جب بنی صدر، جنگ اور اس سے نمٹنے کے حوالے سے اپنے نظریے کو (خاص طور پر غیر دستاویزی حملوں کے بعد) صحیح ثابت نہ کر سکا تو ایران کے مخلص لوگوں کے اعتراض کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ بنی صدر جس پر ملک چلانے میں اور خاص طور پر جنگ کے امور میں غفلت اور نااہلی کا الزام تھا، کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب امام خمینی نے اسے مسلح افواج کی کمان سے ہٹایا اور خود دوبارہ اس ذمہ داری کو سنبھال لیا۔

یہ واقعہ انقلابی دھڑوں کے درمیان سیاسی الجھنوں کے بڑھنے کے ساتھ پیش آیا اور ملک کو باہر سے زیادہ اندر سے خطرہ لاحق ہوگیا۔ اس بیچ سیاسی گروہوں نے اپنے انسانی اور سیاسی وسائل کو متحرک کردیا۔ عوامی رائے بھی سیاسی مسائل کے حل کا انتظار کر رہی تھی۔

21 جون 1981ء  کو ایران نے عوامی مزاحمت کے ایک علمدار اور ہیرو " شہید ڈاکٹر مصطفی چمران" کو کھودیا۔ ان کی شہادت "سوسنگرد" شہر کے قریب واقع "دہلاویہ" کے علاقے میں لگنے والے شدید زخموں کی وجہ سے ہوئی۔ ڈاکٹر چمران کی شہادت، عوامی فورسز اور امام کی پیروی کرنے والوں کے لیے بہت بڑا نقصان تھی، ایک ایسی آواز جس نے سیاسی کشمکش اور گروہوں کے اختلافات کو دبا دیا۔ میری نظر میں ان کی شہادت مظلومیت، ایثار اور فداکاری کی علامت تھی جس نے اسلام پسندی کا دعوی کرنے والے اور امام کی مخالفت کرنے والے تمام فلاحی اور آزاد خیال لوگوں پر حجت تمام کردی تھی۔

انتشار اور بحران کا پہیہ بہت تیزی سے گھوم رہا تھا اور بنی صدر کی حکومت واقعات سے سنجیدگی سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ ایران کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ امام خمینی حالات پر قریب سے نظر رکھے ہوئے تھے یہاں تک کہ صحیح وقت آپہنچا، اور یہ وہ دن تھا جب اسلامی پارلیمنٹ نے اپنا تاریخی فیصلہ لیا اور بنی صدر کو نااہلی، خود غرضی اور اسلامی انقلاب سے غداری کے سبب صدارت کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جب بنی صدر نے دیکھا کہ اس کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے تو وہ ایران سے فرار ہوگیا اور اس نے اپنے آقاؤں کی پناہ مانگ لی۔ وہ مسعود رجوی کے ساتھ فرانس بھاگ گیا۔

بنی صدر کی برطرفی گویا ایک چنگاری تھی جس نے امام کے پیروکاروں اور ان کے مخالفین کے درمیان خون خرابے کی آگ کو بھڑکا دیا۔ ان لڑائیوں کے نتائج میں 28 جون 1981ء  کو اسلامی جمہوری پارٹی کے مرکزی دفتر میں ہونے والا دھماکہ، ڈاکٹر بہشتی اور امام کے 72 ساتھیوں اور انقلاب کے ستونوں کی شہادت بھی شامل ہے۔ یہ انقلاب کو لگنے والی ایک خطرناک اور شدید ضرب تھی۔ لیکن پروردگار کے غالب ارادے اور امام خمینی کے مضبوط عزم نے انقلاب کو اس بڑی پریشانی سے نکال لیا۔ ان واقعات سے خاص طور پر اسلامی جمہوری پارٹی کے دفتر میں ہونے والے دھماکے کے واقعے سے ہمیں بہت دکھ ہوا اور ہمارے دل دہل گئے۔ اس حادثے کا عالم اسلام میں ایک بڑا ردعمل سامنے آیا۔ ایران کے داخلی واقعات  بعثیوں کی بے باکی اور خوشی کا سبب بنتے تھے اور ہمارے غم کا۔ اس حادثے کے بعد عراقی کمانڈروں کو یہ اطمینان ہوگیا کہ مستقبل قریب میں ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی حملہ نہیں ہوگا۔ کچھ عرصے تک محاذ پر خاموشی چھائی رہی۔

27 جولائی 1981ء  کو پاسداران انقلاب اسلامی نے سوسنگرد کے مغرب میں 43ویں آرمرڈ بریگیڈ کو اچانک اور حیران کن حملے کا شکار بنایا اور دریائے کرخہ کے مغرب میں عراقی فورسز کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ یہ حملہ ایرانی قوم کی طرف سے ہماری فورسز کے لیے ایک پیغام تھا کہ وہ ہمیں سمجھائیں کہ ان تمام پریشانیوں اور مشکلات کے باوجود جہاد اور شہادت طلبی کا جذبہ اسی طرح سے مستحکم اور غیر متزلزل ہے۔

میدان جنگ ہماری پوزیشن کے مغرب میں دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ میں خود 43ویں بریگیڈ کی پوزیشن سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادلوں کو دیکھ رہا تھا۔ 29 جولائی کے دن تیسری کمانڈ نے "کوہہ" گاؤں پر ایک جوابی حملہ کرنے کا فیصلہ کیا، اسی لیے میجر "میدر" کی کمان میں بیسویں بریگیڈ کے آپریشنل ایریا کو نقطہ آغاز سمجھا گیا۔ یہ میجر اپنے دکھاوے اور  لطیف چارہ جوئی کی بنا پر "بریگیڈ کے بھیڑیے" کا لقب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ وہ روزانہ رپورٹس بھیج کر یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس نے کئی ایرانی فوجیوں کو زخمی اور کئی کو قتل کیا ہے، اور ایران کے بہت سے جنگی سازوسامان اور مشینی آلات کو تباہ کیا ہے۔ اس قسم کی رپورٹس نے تیسری کمپنی کے کمانڈرز کو اس علاقے کی جانب متوجہ کیا اور وہ لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایرانی فورسز نے حملے کے لیے ایک وسیع فوجی صف بندی کی ہے۔ اسی لیے انہوں نے دوسری ریجمنٹ کے آپریشنل ایریا سے ایک جوابی حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ ایرانی فورسز کے پچھلے حملے کا جواب بھی دیں اور ان کے اگلے حملے کو بھی ناکارہ بنائیں۔

28 جولائی کی شام ہمیں دوسری ریجمنٹ کی پوزیشنز کی طرف جانے کا حکم دیا گیا۔ اسی طرح سے انفنٹری ریجمنٹ 304(جو ایک رزرو بٹالین تھی) کو ہماری پچھلی پوزیشنز پر تعینات ہونے کا حکم دیا گیا۔ حملے کے لیے تیار فورسز بیسویں بریگیڈ کی دوسری ریجمنٹ کے پیچھے جمع ہوگئیں۔

آپریٹنگ فورسز میں تین میکنائزڈ بٹالین اور دو ٹینک بٹالین شامل تھیں۔ 25ویں میکنائزڈ بریگیڈ کو رزرو فورس کے طور پر الرٹ رکھا گیا۔ رات ہوئی اور ہم حملے کے لیے الٹی گنتی یعنی موت اور تباہی کی طرف جانے کا انتظار کرنے لگے۔ صبح کے تین بجے آپریشن شروع ہونے کا وقت تھا۔ میں نے دوسری بٹالین کے ٹھکانے میں ایک میڈیکل کیمپ لگا کر کام کو گروپ کے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ اگرچہ گھڑی کی سوئیاں آدھی رات کے 3 بجا رہی تھیں لیکن حملہ شروع نہیں ہوا۔ بظاہر صبح پانچ بجے تک ملتوی ہو گیا تھا کیونکہ اس وقت تک انجینئرنگ اور تخریبی فورسز پل بنانے اور بارودی سرنگیں ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھیں۔ صبح پانچ بجے کی گھنٹی بجی اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف ٹینکوں اور توپوں کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔

ہماری فوج نے ایرانی فورسز کو تباہ کرنے کے لیے "کوہہ" گاؤں اور اس کے آس پاس پیش قدمی کی تاکہ حمیدیہ سے سوسنگر جانے والے راستے کو بند کردیں۔ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد زخمیوں کی ایک ٹولی پہنچی۔ انہیں بہت بری حالت میں پرسنل کیریئر اور بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے کلینک لایا جارہا تھا۔

جاری ہے۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2067


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔