دشمن کی شدید گولہ باری میں شہید قاسم سلیمانی سے مذاق

یادوں بھری رات کا ۳۱۱ واں پروگرام – تیسرا حصہ

مقالہ نویس: سیدہ پگاہ رضازادہ

مترجم : محسن ناصری

2020-10-17


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۱۱  واں پروگرام، دفاع مقدس میں خواتین کے کردار کو سراہنے کے لئے،  جمعرات کی شام، ۲۰ فروری ۲۰۲۰ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں محترمہ ترابی، سیدہ فوزیہ مدیح اور حاج مہدی زمردیان نے اپنے واقعات بیان کیے۔

اس پروگرام کے تیسرے راوی انقلاب اسلامی کے پرانے سپاہی جناب حاج مہدی زمردیان ہیں جو شہید وصالی کے دوست اور کردستان کے عسکری آپریشن میں بھی شامل تھے۔ وہ جنگ کے بعد ریٹائر تو ہوگئے لیکن فوجی وردی سے جدا ہونا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ جنگ کے بعد انہوں نے وطن عزیز کا دفاع اپنا وظیفہ سمجھا اور مدافعین حرم سے منسلک ہوگئے۔ جناب حاج مہدی زمرد دیگر شہیدوں کی طرح شہادت کے مشتاق تھے اور ان کا اکثر وقت شہید قاسم سلیمانی اور حاج مہدی المہندس کے ساتھ گزرا ہے۔

حاج مہدی اپنی گفتگو کا آغاز اپنے تعارف کے ساتھ کرتے ہوئے کہتے ہیں " میں ۲۳ جولائی ۱۹۷۹ کو سپاہ پاسداران کا حصہ بنا اور سپاہ پاسداران کے جوان ترین سپاہیوں میں سے ایک تھا۔ میں دوسرے ہی دن سے شہید وصالی یا اصغر چریک کے ساتھ پاوہ میں عسکری آپریشن کا آغاز ہوا تو میں بھی اس آپریشن کا حصہ تھا۔ تقریباً دوسال تک کردستان میں موجود رہا اور تین مرتبہ زخمی ہوا۔ اس کے بعد جنوب چلا گیا اور خاتم الانبیاء ؑ بریگیڈ کا حصہ بن گیا اور وہاں پر زندگی کے بہترین دوستوں سے ملا جن میں شہید مصطفی چمران، جناب رضائی اور شہید قاسم سلیمانی بھی شامل ہیں۔ میں تقریباً ۱۲سال پہلے ریٹائر ہوا اور خیال کرتا تھا کہ بہت ہوگیا اب عام بوڑھے افراد کی طرح اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ وقت گزاروں گا۔ مجھ سے میرے بعض دوست سوال کیا کرتے تھے کہ آپ کے پاس بہت تجربہ ہے کیا آپ دوبارہ کام نہیں کریں گے؟۔ میرا جواب ہوتا: میں چاہتا ہوں اپنے بچوں کے ساتھ زیارت پر جاؤں اور زندگی کے مزے لوں۔ لیکن اسی اثناء میں داعش کے ساتھ  جنگ کا آغاز ہوگیا جو کہ شام میں دہشت گردانہ حملے کیا کرتے تھے۔ میں ایک ماتمی انجمن کے کچھ دوستوں کے ساتھ شام جایا کرتا تھا اور وہاں جناب زینب سلام اللہ علیہا کی شہادت پر زائرین کے لیے نذر کا کھانا پکایا کرتا تھا۔ ایک دن مجھے جناب رقیہ سلام اللہ علیہا کی شہادت پر کھانے کی ذمہ داری دی گئی تھی کہ ۷ ہزار زائرین کیلئے کھانا تیار کروں۔ لیکن اس کے بعد شام کا امن و امان خراب ہوگیا  اور میرے دوست چاہتے تھے کہ میں جنگ میں داخل ہوجاؤں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں بالکل بھی جنگ کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا اور تھک چکا تھا۔ جناب رقیہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کے دن تقریباً ۲ ہزار افراد مجلس میں آئے جن میں دوست اور ساتھی بھی شامل تھے۔ میں نے خود سے کہا کہ اس کے بعد اب کھانا پکانے کے لیے نہیں آؤں گا کیوں کہ یہاں کے حالات صحیح نہیں ہیں۔ ایران واپس جانے کیلئے  میں ہوائی جہاز  پر سوار ہونا چاہتا تھا اور اپنا سامان بھی بھجوا چکا تھا،  اچانک مجھے احساس ہوا کہ میرے دوست چاہتے ہیں کہ میں شام میں ہی رہوں اور ان کی مدد کروں۔ ان دنوں شہید قاسم سلیمانی بھی شام میں اپنے دوستوں کے ساتھ مقیم ہوچکے تھے۔ میں جہاز میں موجود تھا کہ اچانک اعلان ہوا کہ پرواز میں کچھ تاخیر ہے اور جہاز وقت پر اڑان نہیں  بھرسکے گا۔ میں نے کیا دیکھا کہ ہماری فوج کے جوان جہاز میں داخل ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ حاجی (قاسم سلیمانی) کو آپ سے کچھ کام ہے۔ میں نے کہا بھائی میں اپنا سامان لوڈ کروا چکا ہوں اور ایران واپس جا رہا ہوں۔ تو کہنے لگے آپ کچھ دن اور رُک جائیں اور پیر کے روز حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ ہی ایران واپس چلے جائیے گا۔ مجھ سے میرے دوستوں نے کہا: بالآخر آپ رک ہی گئے۔ میں نے جواب دیا :نہیں، میں یہاں رکنے نہیں آیا ہوں۔ جیسے ہی ہم عمارت میں داخل ہوئے،  دیکھا قاسم سلیمانی وہاں موجود تھے۔ اگر مجھ سے کوئی اور درخواست کرتا تو میں حتما منع کردیتا لیکن شہید حاج قاسم سلیمانی ایک خاص اخلاق کے مالک تھے اور ان کا حسن اخلاق باعث بنا کہ میں شام میں رک گیا۔ میں نے جیسے ہی حاج قاسم سلیمانی کو دیکھا تو میرے ہاتھ پیر شُل ہوگئے اور ان کا عرفانی جادو مجھ پر چل گیا اور میں نے خود ہی کہا :" حاج قاسم حکم کریں"۔

بات کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے آپ کے سامنے اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق کچھ بیان کرو ں تاکہ موضوع کو آگے بڑھا سکوں۔ میرا تخصص بم اور دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانا تھا۔ جب ہم شام میں گشت پر نکلے تو ایسا لگا جیسے سڑکوں کے کناروں پر بہت سے پیڑ پودے لگے ہوئے ہیں لیکن درحقیقت وہ سڑک کے کنارے لگے ہوئے بم تھے جو بڑی سے بڑی عمارت کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ میں نے ایک سپاہی سے پوچھا کہ تمہارے پاس اوزار ہیں؟ اور میں نے اسی حالت یعنی کوٹ پینٹ میں ہی بموں کو ڈسپوز کرنا شروع کردیا۔ مجھ سے ایک جوان کہنے لگا آپ یہ کام بھی جانتے ہیں؟ ہمارے پاس کوئی اس کام کا ماہر نہیں ہے۔ اس موقع پر میں نے سوچا کہ میں نے اپنی عمر کے ۳۰ سال بیابانوں میں گزار دیئے اب چاہتا ہوں کہ باقی کا بچا ہوا کچھ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزاروں۔۔۔ کیا کروں؟ اگر ان کا ساتھ نہ دوں تو بہت سے مظلوم جوان شہید ہوجائیں گے۔ اگر یہ دھماکہ خیز مواد اپنی جگہ پر موجود رہتے تو ۱۰۰ میں سے ۹۵ جوانوں کی شہادت قطعی تھی۔ مجھ میں ان جوانوں کی اس مظلومانہ شہادت کو تحمل کرنے کے سکت نہیں تھی۔ اسی روز ملنے والے دوستوں میں سے اکثر شہید ہوگئے تھے۔ میں نے خود سے کہا کہ تم اسی کام کے لیے بنائے گئے ہو۔ بس میں نے فیصلہ کرلیا کہ ان کے ساتھ کام کروں گا۔ جب ہم واپس آئے تو شہید قاسم سلیمانی نے پوچھا : کیا صورت حال ہے ؟ میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں تہران جاکر اپنا ایک ضروری کام کر کے واپس آجاتاہوں؟۔

میں ابتدائی ایام میں ہی شام واپس چلا گیا اور تمام علاقوں سے بموں کے بچھے جال کو ختم کرنا شروع کیا۔ چاہتا ہوں ایک داستان آپ کے سامنے نقل کروں جوکہ میری زندگی کی بہترین داستان ہے۔  جانب زینب سلام اللہ علیہا کے حرم تک پہنچنے کے لیے جو سڑک گزرتی تھی وہیں پر داعش نے نشانہ باز ( شارپ شوٹر) بٹھا رکھے تھے ایک لبنانی جوان امام حسین علیہ السلام کا پرچم اٹھائے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے حرم کے گنبد پر چڑھا، چاہتا تھا کہ علم کو نصب کرے اسی دوران داعش کے شارپ شوٹر نے اس جوان کو نشانہ بنایا اور وہ حرم کے گنبد سے نیچے گرکر شہید ہوگیا۔ ہمارے دوستوں کی تعداد سات تھی۔ داعش حرم کے بہت نزدیک پہنچ چکی تھی۔ ہم نے ماہ محرم  کے شروع میں آپریشن شروع کیا تاکہ داعش کے راکٹ لانچر اور مارٹر گولے حرم تک نہ پہنچ سکیں۔ داعش کو کچھ ہی دنوں میں ۱۰ کیلومیٹر دور پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔

کردستان سے شام تک کے جنگی تجربے میں بہت سے واقعات تھے جن کا میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ جس وقت میں اس بات کا تصور کرتا تھا کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو اسیر کیا تو ۸۱ اسیروں میں سے ۳۳ اسیرہی رہ گئے تھے۔ میرا سوال تھا کہ یہ شامی ستمگر ایسا کیا کرتے تھے۔؟ جب داعش نے ہمارے جوانوں کو گرفتار کیا تو مجھے احساس ہوا کہ ان جوانوں کو بے دردی سے شہید کیا جائے گا۔ جب داعش سے جنگ میں داخل ہوئے تو میں نے خود ہی اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ہمارے جوان مظلومانہ شہید کیے جاتے تھے ان کے بدن کے ٹکڑے کیے جاتے کبھی ان کے سروں کو کاٹ کر ان سے فوٹبال کھیلی جاتی تھی۔ لیکن میرا دل ان جوانوں کے لیے جلتا تھا جو حرم کی زیارت بھی نہیں کرسکے تھے اور راستے میں ہی بے دردی سے شہید کردیئے گئے تھے۔ لیکن ہم نے بھی اپنے شہیدوں کا خوب بدلہ لیا اور داعش کو بھاری جانی نقصان پہنچایا۔

چاہتا ہوں حاج قاسم سلیمانی اور اپنے درمیان پیش آنے والے واقعات کو بیان کروں۔ یہ واقعہ سامرہ سے بغداد کے راستے میں پیش آیا۔ یہ پورا راستہ دشمن کے کنٹرول میں تھا حاج قاسم نے مجھ سے کہا ہمیں ہر حال میں عراق جانا ہے۔ تقریباً ۷۰ فیصد عراق داعش کے کنٹرول میں جاچکا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ بغداد کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ میں اور حاج قاسم بغداد پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں اس جگہ کو مکمل طور پر جنگی طور پر آمادہ کرنا ہے اور سرحدی علاقوں میں دھماکہ خیز مواد نصب کریں۔ شہید قاسم سلیمانی نے کہا اس علاقے کو آزاد کروانا ہے۔ ہم نے جواب میں کہا حاجی یہ پورا علاقہ داعش کے قبضے میں ہے اور ہمارے پاس جوانوں کی مناسب تعداد بھی نہیں ہے۔ تو شہید قاسم سلیمانی خود ہی گاڑی میں سوار ہوئے اور دشمن کی جانب بڑھنے لگے۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ حاج قاسم دشمن کی جانب بڑھ رہے ہیں اگر وہ شہید ہوگئے دشمن کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور سمجھے گے کہ اُس نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ہم بھی قاسم سلیمانی کے پیچھے چل دئیے۔ جب ہم شہید قاسم سلیمانی تک پہنچے تو دس کلو میٹر کا علاقہ آزاد ہوچکا تھا۔ میں نے حاج قاسم سے کہا :تمہیں تمہاری ماں کی قسم پیچھے آجاو۔ آپ کو کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ زندہ رہیں ہم اپنی جان دینے کے لیے تیارہیں۔ میں نے دوستوں سے کہا حاج قاسم کا خیال رکھو، یہ نڈر اور بے خوف انسان ہیں ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ سامنے دشمن ہے۔ جب ہم بلد پہنچے اور بلد سے سامرا تو ہم نے جوانوں کو ریسکیو کیا اور ان کو دشمن کے حصار سے نکالا۔ عزیز نامی علاقہ جہاں داعش نے تقریباً ۷۰۰ شیعیان امیر المومنین علیہ السلام کو شہید کیا تھا، آزاد کروا لیا تھا۔ عراق میں ایران کی طرح ایک رسم ہے کہ جب نو بیاہتا دولہا اور دُلہن گاڑی میں رخصت ہوتے ہیں تو ان کے رشتہ دار بھی اُن کے پیچھے پیچھے گاڑیوں میں چلتے ہیں اور ہارن بجاتے ہوئے خوشیاں مناتے ہیں۔ ایسے ہی ایک رخصتی کے موقع پر داعش نے نوبیاہتا جوڑے  کو ان کے رشتے داروں کے ساتھ پکڑ لیا اور دریائے دجلہ پر لے جا کر ان کے جسموں سے بھاری اینٹیں باندھ کر دریا میں پھینک دیا۔  میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جو لوگ امن و امان کے ساتھ اربعین اور عاشورہ پر حرم کی زیارت کے لیے جاتے ہیں یہ سب ان شہیدوں اور قاسم سلیمانی کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم ان عسکری کاروائیوں میں صرف روتے ہیں اورسنجیدہ رہتے ہیں، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہم باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ ایک دفعہ میں کچھ بموں کو ناکارہ  بنا رہا تھا کہ داعش نے ہم پر حملہ کردیا اور گولیاں برسانی شروع کردی۔ میں نے وائر لیس پر شہید قاسم سے کہا کہ ان داعشیوں پر جوابی کاروائی کی جائے تو حاج قاسم سلیمانی دوسری جانب سے کہنے لگے: کیا ہے، اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے۔۔؟! میں نے جواب دیا کہ حاجی دشمن ہم پر گولیاں برساں رہا ہے۔ تو حاجی نے مذاق میں جواب دیا کہ " تم بھی ان پر گولیاں برسا رہے ہو اگر انہوں نے بھی کچھ گولیاں چلالی تو کیا ہوگیا۔۔۔؟ ہم سے جہاں تک ہوسکتا تھا مذاق کیا کرتے تھے یہاں تک کہ جنگ کے گرما گرم ماحول میں بھی مذاق کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔                                               

ایرانی تاریخ کی بیانگر ویب سائٹ کے مطابق، دفاع مقدس کی داستان کا ۳۱۱ واں پروگرام جمعرات کی شام،۲۰ فروری ۲۰۲۰ء کو  سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔اگلا پروگرام  ۲۳ اپریل ۲۰۲۰ء کو منعقد ہوگا۔



 
صارفین کی تعداد: 2358


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔