تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – ۳۷ ویں قسط

مجتبی الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-10-17


د- پہلی ریجمنٹ کے گشتی:

بیسویں بریگیڈ کی پہلی ریجمنٹ ہماری ریجمنٹ کے ٹھکانوں کی داہنی جانب اور اہواز جانے والی سڑک کے مغرب میں تعینات تھی۔ اس ریجمنٹ کے ٹھکانوں کو ہمارے ٹھکانوں سے زیادہ ایرانی فورسز سے تصادم کا خطرہ لاحق تھا۔ پہلی ریجمنٹ نے اپنی روز مرہ کی فوجی سرگرمیوں کے علاوہ ایک رات ایک چھوٹا جنگی-گشتی گروہ ممنوعہ علاقے میں بھیجا۔ یہ گروہ ایرانیوں کے ٹھکانوں کے بالکل قریب پہنچا اور اگلی رات تک ایک گڑھے میں چھپ گیا اور پھر اپنے ٹھکانوں پر لوٹ آیا۔

اس گشتی یونٹ نے ایرانی فورسز کی ہر حرکت پر نظر رکھی اور ممنوعہ علاقے کی معلومات اکٹھا کیں۔ پہلی ریجمنٹ کے گشتیوں نے انہی میں سے ایک گشت کے دوران ایک ایرانی کمانڈر کو جو میجر تھا، گرفتار کر لیا۔  ماجرا کچھ یوں تھا کہ یہ گشتی گروہ ممنوعہ علاقے میں چھپا ہوا تھا کہ اچانک علاقے کی معلومات حاصل کرنے کے لئے آنے والی  ایک ایرانی جیپ نظر آتی ہے،  گشتی فورس کے لوگ ایرانی جیپ پر فائرنگ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک لیفٹیننٹ مارا جاتا ہے اور ڈرائیور گاڑی لے کر فرار ہو جاتا ہے لیکن ایرانی کمانڈر کو گشتی یونٹ گرفتار کر لیتا ہے اور بیسویں بریگیڈ کے کیمپ منتقل کر دیتا ہے۔ اس سے مخالف ایرانی فورسز کی صورتحال اور ان کے اسلحے کی نوعیت کے بارے میں تفتیش کی گئی۔

بظاہر وہ افسر اہواز آرمرڈ ڈویژن کا حصہ تھا۔ بیسویں بریگیڈ جو ایک ایرانی فوجی کو گرفتار کرنے کی تمنا کر رہی تھی اچانک اپنے چنگل میں ایک میجر کو دیکھ رہی تھی۔ اسی لیے گشتی یونٹ کے کمانڈر اور اس کے ساتھی سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

5- بارودی سرنگوں کے علاقے میں ایرانیوں کا نفوذ:

صبح 10 بجے میں سیکنڈ ان کمانڈر کے بنکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ سیکنڈ ان کمانڈ نے فون اٹھایا۔ فون کرنے والے نے خود کو توپخانے کا سرویلنس آفیسر بتایا اور پوچھا: " کیا آپ کے فوجی تیسری کمپنی کے سامنے ممنوعہ علاقے میں کام کر رہے ہیں؟"

سیکنڈ ان کمانڈ نے جواب دیا: "مجھے نہیں معلوم۔۔۔ میں کچھ دیر میں آپ کو جواب دیتا ہوں۔"

سیکنڈ ان کمانڈ نے  فوراً تیسری کمپنی کے کمانڈر کیپٹن "عبدالکاظم" کو فون کرکے تیسری کمپنی کے سامنے بارودی سرنگوں کے علاقے میں کام کرنے والے افراد کے بارے میں پوچھا۔ کمانڈر نے جواب دیا: "اس وقت ہمارا کوئی بھی فوجی وہاں نہیں ہے۔"

انہیں اطمینان ہوگیا کہ جو لوگ بارودی سرنگوں کے علاقے میں نفوذ کرکے تخریب کاری کا آپریشن انجام دے رہے ہیں،  وہ ایرانی فورسز کا حصہ ہیں۔ ریجمنٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ نے کمانڈر کو فون کیا اور اس بات سے آگاہ کیا۔ کمانڈر بہت غصہ ہوا اور اس نے پوچھا: " ایرانیوں کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ دن دہاڑے ریجمنٹ کے بارودی سرنگوں کے علاقے میں آئیں؟"

اس نے حکم دیا کہ پوری طاقت کے ساتھ ان پر فائرنگ کی جائے اور اس کے ساتھ تیسری کمپنی کے کمانڈر کو فوراً ریجمنٹ کیمپ طلب کیا۔ فائرنگ رکنے کے بعد دو ایرانیوں نے بارودی سرنگوں کے علاقے میں تباہ ہوچکی ایک گاڑی میں پناہ لی اور آہستہ آہستہ رینگ رینگ کر اپنی پوزیشنز کی طرف لوٹ گئے۔ اس واقعے نے ہمیں حیرت میں ڈال دیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ دو ایرانی فوجی دن دہاڑے وہ بھی ہمارے ریجمنٹ کے نگہبانوں کی نظر میں آئے بغیر ممنوعہ علاقہ میں 1500 میٹر آگے آکر خود کو ہمارے ٹھکانوں سے 200 میٹر کی دوری تک پہنچا سکیں۔ اس اقدام کے لئے حد سے زیادہ بہادری اور فداکاری کی ضرورت تھی اور ایرانی فوجیوں میں یہ خصوصیات موجود تھیں۔

یہ واقعہ ہماری ریجمنٹ کے لئے ایک بہت بڑی بدنامی تھی جس کے نتیجے میں ریجمنٹ کمانڈر کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا تھا،  لیکن کمانڈر نے اس معاملے کو دبا دیا اور تیسری کمپنی کے کمانڈر کیپٹن "عبدالکاظم" کی زبانی سرزنش پر اکتفا کیا۔ اس نے توہین آمیز لہجے میں کیپٹن سے کہا: " بیوقوفو! تم لوگ سو رہے تھے کیا!  مجھے لگتا ہے کہ رات کو ایرانی آئیں گے اور تمہارا کھانا پانی لے جائیں گے۔"

ریجمنٹ کمانڈر نے بارودی سرنگوں کے علاقے کی صورتحال معلوم کرنے کے لیے  رات کو انجینئرنگ-جنگی یونٹ کے ایک گشتی یونٹ کو بھیجا۔ انہوں نے جا کر دیکھا کہ 90فیصد بارودی سرنگیں خراب کردی گئی ہیں اور حاصل شدہ بموں کو ایک کپڑے کے تھیلے میں جمع کیا گیا ہے۔ پتہ چلا کہ ایرانیوں نے کئی مرتبہ بارودی سرنگوں کے علاقے میں داخل ہوکر انہیں  ناکارہ بنایا ہے۔ اگلی رات انجینئرنگ-جنگی فورسز دوبارہ بارودی سرنگیں بچھانے کے لیے روانہ ہوئیں۔

6- حوصلوں کی کمزوری:

جنگ کئی لمبے مہینوں تک جاری رہی اور اس نے اپنا طویل مدتی اور تکلیف ده چہرہ دکھایا۔ محاذ کے تھکا دینے والے حالات نے ہر کسی کے حوصلے پر برا اثر ڈالا اور فوجیوں کی صفوں میں ایک قسم کی پریشانی اور انتشار پیدا کردیا۔ آخر کار یہ امر، فوج کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ ہونے اور پھر نافرمانی، افسران اور عہدے داروں سے لڑائی، یہاں تک کہ اسلحے کے استعمال اور کچھ فوجیوں کے زخمی اور مارے جانے کا سبب بنا۔

فوج کے کمانڈرز جو اس نئی صورتحال سے واقف تھے وہ سمجھ گئے کہ فوجی آہستہ آہستہ خدمات سے  دستبردار ہو رہے ہیں یا شراب پینے اور جوا کھیلنے کا سہارا لے رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ فوجیوں نے اسلحے کو اپنا کھلونا بنا لیا اور فوجی اعلانات اور قومی ترانوں کا سرعام مذاق اڑانے لگے۔ اسی لیے فوج نے "انضباطی کیمپ" نامی کیمپس لگائے۔ محاذ کے پیچھے لگائے گئے ان کیمپس کو لگانے کا مقصد غیر منضبط فوجیوں کی تنبیہ تھا۔ مثال کے طور پر، ہماری ڈویژن کے آپریشنل ایریا میں انہی میں سے ایک کیمپ "جفیر" میں قائم کیا گیا۔ جو بھی خلاف ورزی کرنے والا اس کیمپ میں آتا تھا اسے مجبوراً کمانڈو فورسز کے ٹرینرز کے زیرنظر ایک مشکل ملٹری ٹریننگ کورس میں شرکت کرنی ہوتی تھی۔ اسے ایک مشقت والے کاموں کے دورے کو مکمل کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یہ بھی لکھنا چاہیے کہ ایک دن ریجمنٹ کمانڈر نے مجھے کمانڈرز کے لیے بھیجے گئے ایک خفیہ ٹیلی گراف سے آگاہ کیا۔ اس ٹیلی گراف میں 1981ء  کی پہلی ششماہی میں فوج سے فرار ہونے والوں کی تعداد تقریباً ہزار بتائی گئی تھی۔ لیکن شراب کے استعمال کے لیے کافی تھا کہ آپ عراق کے "نشوہ" گاؤں سے لے کر فرنٹ لائن تک سڑک کے کنارے  پھینکی گئی شراب کی خالی بوتلوں کو دیکھتے۔ پانچویں ڈویژن کے کمانڈر  نے خالی بوتلیں دیکھتے ہی مجبوراً محاذ پر آنے والی فوجی گاڑیوں کی تلاشی اور شراب رکھنے والوں کو سزا دینے کا حکم دیا۔ اس نے اس سرکلر میں اپنے مشہور جملے کا استعمال کیا(شرابی فوج جنگ نہیں جیتتی)۔ گویا ڈویژن کمانڈر اس حقیقت کو بھول گیا تھا کہ فسادیوں، شرابیوں اور محاذ پر شراب لانے والوں کے سر پر افسروں کا ہاتھ تھا(ایرانی کیمپوں میں  کئی عراقی قیدی مجھ سے گفتگو کے دوران یہ اعتراف کرتے تھے کہ انہیں نشے کی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے)۔

 میں بہت سے افسروں اور عہدے داروں کو جانتا تھا جو جنگی مشنز پر جانے سے پہلے شراب پیتے تھے۔ جوا کھیلنا بھی معمول کی بات بن گیا تھا۔ افسران جوئے کو ایک قسم کی ذہنی تفریح سمجھتے تھے۔ اسلحے سے مذاق کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور کئی لوگ مارے گئے۔ میں خود "عبدالحمزہ" نامی ایمبولینس ڈرائیور کے اپنے دوست کے ہاتھوں مارے جانے کا گواہ ہوں۔

ان کے علاوہ ہماری ریجمنٹ میں دوسرے مختلف واقعات بھی رونما ہوئے جیسے ان ترانوں اور ملی نغموں کا مذاق اڑانا جو صدام اور قادسیہ کی مدح میں نشر کیے جاتے تھے اور فوجیوں کو جنگ کے لئے اکساتے تھے۔ فوجی، ملی نغموں کے وزن اور طرز پر مزاحیہ شعر اور ترانے بنا کر  ان ملی نغموں کا مذاق اڑاتے تھے۔ یہاں ایک ترانے کا ذکر کرتا ہوں جس کی ابتدا کچھ یوں تھی: 

پوری قوم کا درود و سلام ہو تم پر اے طاقتور فوج۔۔۔

اور فوجی اسے اس طرح سے پڑھتے تھے:

نجف کے سارے تابوت ہیں تمہارے اے طاقتور فوج۔۔۔

یہاں تابوت کا مطلب فوجیوں کی لاشوں کا نجف کے بڑے قبرستان میں دفن ہونا تھا۔

سب سے اہم اور حساس واقعہ جو بدنظمی اور فوجیوں کے حوصلوں کی کمزوری کی وجہ سے میرے سامنے پیش آیا وہ کچھ یوں تھا کہ ایک رات ایرانی فورسز کے ایک جنگی-گشتی یونٹ نے ہمارے ٹھکانوں کے قریب آ کر اپنے چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی۔ ہمارے لوگوں نے یہ سمجھ کر وہ ایک بڑے حملے کا شکار ہوگئے ہیں،  ممنوعہ علاقے کی طرف پاگلوں کی طرح اندھا دھن فائرنگ کر دی۔ افسران نے حالات پر قابو پانے اور فوجیوں کی فائرنگ کو روکنے کی کوشش کی لیکن ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں اور فائرنگ اسی طرح جاری رہی۔

یہاں تک کہ رات 12 بجے ریجمنٹ کا گولا بارود ختم ہوگیا۔ ریجمنٹ نے مجبوراً 25 کلو میٹر دور واقع امدادی علاقے سے گولا بارود منگوایا۔ یہ گولابارود صبح 4 بجے ہم تک پہنچا، یعنی ریجمنٹ نے چار گھنٹے بغیر گولا بارود کے گزارے۔ اس واقعے سے بریگیڈ کمانڈرز میں خوف و ہراس پھیل گیا، وہ مسلسل یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ایرانیوں نے ان پر حملہ کردیا تو کیا ہوگا اور فوجیوں کی کیا حالت ہوگی؟

جاری ہے۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2074


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔