چھ روزہ جنگ کے وقت کا خطاب

مترجم: زوار حسین

2020-9-28


[آیت اللہ]  خمینی ؒکے نجف میں آنے کے دو سال بعد اسرائیل کا حملہ اور چھ روزہ جنگ کے واقعات رونما ہوئے ہم یہ چاہ رہے تھے کہ اسرائیل مخالف اور عرب ممالک جیسے شام ، اردن، مصر، اور عراق کے بارے بین الاقوامی خطابات کریں لیکن ہمارا کوئی مددگار نہ تھا مراجع میں سے کوئی ایک مرجع بھی ہمارا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں تھا اور [آیت اللہ]خمینی ؒ کا کوئی خاص اثر و رسوخ وہاں نہیں تھا۔

میرے درس کے شرکاء سیاسی (بادشاہت سے مخالفت میں) اور علمی (قرآنی) لحاظ سے میرے ساتھ ہم فکر ہوگئے تھے باوجود اس کے کہ نجف میں قم کی نسبت بیشتر ایسی فضا غالب تھی کہ جب تک کوئی استاد طلاب کو وظیفہ نہ دیتا  اس کے درس میں کوئی خاص شرکت نہیں ہوتی تھی میرے درس تفسیر میں اتنا رش ہوجاتا تھا کلاس روم جناب حکیم جیسے وسیع مکان میں مجالس عزا کی طرح امام زمان (عج) کا اسم مبارک لیا جاتا کہ لوگ اپنی جگہ سے کھڑے ہوں اور پھر ان سے آگے آگے آنے کا کہا جائے۔

 کچھ عرصے بعد مختلف ممالک کے 700 سے 800 طالب علموں نے فارسی اور عربی میں آزاد فکری کی بنیاد پر اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں صحیح تفسیراور اس کے معیارات کو تدوین کرکے آگے پھیلا دیا۔

یہ قرآن پاک کی کشش تھی اور یہ ہمارے ہر رنگ سے بے رنگ ہونے کا نتیجہ تھا خاص کر مدارس دینیہ کی خاص انداز کی تفسیر کو اختیار نہ کرنا بھی ہمارے دروس کی طرف لوگوں کی کشش کا باعث بنا ہمارے تفسیر قرآن اور حالات حاضرہ پر دروس اتنے مضبوط ہوگئے تھے کہ جناب حکیم کے نزدیکی افراد کی مخالفتوں کے مقابل ہم نے بھرپور استقامت دکھائی اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔سید محمد بغدادی جو صنف اول کے مجتہدین میں سے تھے ان کے بیٹے کی مدد سے تحریر تیار کی گئی اور اس کے ہزاروں پمفلٹ کوفہ، حلہ، نجف، کربلا، بغداد وغیرہ میں تقسیم کیے

میرے اور باقی دوستوں کے دوسرے پروگراموں میں سے ایک پروگرام مسجد کوفہ میں تقریر کا تھا۔ میں نے اپنی تقریر کو دو صفحوں پر تحریر کیا اور ایک خصوصی نشست میں [آیت اللہ] خمینی کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے اس تحریر کو پڑھنے کا کہا میں نے پوری تحریر کاغذ سے پڑھ کر سنا دی۔ آپ نے فرمایا کاغذ سے دیکھ کر پڑھو گے میں نے کہا نہیں صرف آپ کو اہم نکات بتانا مقصود تھا تا کہ آپ کا زیادہ وقت نہ لوں اس میں کمی زیادی کرنی ہے تو رہنمائی فرما دیں۔ آپ نے کہا: اس سے بہتر نہیں ہوسکتی۔

 البتہ میرا ہدف فقط اسرائیل نہیں تھا بلکہ کچھ جوانب سے اسرائیل کی مخالفت کے عنوان سے  اصلی ہدف شہنشاہ کو کاری ضرب لگانا تھا۔

جب میں مسجد کوفہ میں داخل ہوا تو تقریباً 10 سے 15 ہزار افراد کا اجتماع تھا جو عراق کے بڑے بڑے اور اہم شہروں سے آئے تھے اور مسلسل ان میں اضافہ ہورہا تھا۔ میں مغرب سے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ پہلے منبر پر گیا اور گفتگو شروع کی مہمانوں میں کوفہ کا گورنر، کوفہ کا پلیس انچارج، ممبر قومی اسمبلی عبدالسلام عارف موجود تھے ۔ میں نے عربی میں اسرائیل، ایران کی سیاست اور تمام ظالم حکومتوں کے خلاف گفتگو کی۔

اُس زمانے میں عراق کے سیاسی حالات ایسے تھے کہ ان سے استفادہ کر کے شاہ کے خلاف کام کیا جا سکتا تھا، تقریر کے آخر میں دعا کے وقت میں چاہتا تھا شاہ کے خلاف بدعا کروں  لہذا میں نے تمہید مختلف ممالک کے بارے دعا سے کی یہاں تک کہ ہمارے ملک ایران کی باری آئی تو میں نے کہا " اللهم أنْصُر ایران شَعباً لا حکومه" اے میرے اللہ ایرانی عوام کی مدد فرما نہ کہ حکومت کی اسی لمحہ کوفہ کا گورنر خاص انداز میں میرے سامنے سے اچھل کے آگے آیا۔ میری تقریر ٹیپ ریکارڈر سے ریکارڈ کی گئی تھی لیکن گورنر نے ریڈیو میں نشر کرنے کے بہانے ہم سے لے لی (یہ تقریر کبھی بھی اور کسی بھی ریڈیو سے نشر نہیں ہوئی)۔ علماء اور فضلاء جو اس مجلس میں موجود تھے مجلس کے اختتام پر ان کے تاثرات یہ تھے کہ "آپ کی تقریر کی ابتدا میں ہمارے سر جھکے ہوئے تھے کیونکہ آپ نووارد تھے اور آپ نے انتہائی مہم بحث کا انتخاب کیا تھا لیکن آپ کی گفتگو کے بعد ہمارے سر اٹھتے گئے اور آسمان تک بلند ہوگئے۔



 
صارفین کی تعداد: 2050


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔